طرز اختلاف یا تذلیل
آج سارا دن کے بعد فیس بک کھولا تو یہ دیکھ کر شدید کوفت ہوئی کہ کچھ مذہبی رجحان رکھنے والے دوست رائے سے اختلاف کرتے ہوئے ایک دوسرے کو گالیاں دے رہے ہیں، پھبتیاں کس رہے ہیں، تذلیل کر رہے ہیں. ان میں سے ایک طرف کچھ صاحبان مولانا ابو الاعلیٰ مودودی رح کے معتقدین ہیں اور دوسری جانب وہ حضرات ہیں جو مولانا وحید الدین خان صاحب کی محبت میں فنافی الشیخ کی منازل سر کرچکے ہیں. پہلے قبیل کو اہل مدارس کا بیانیہ سپورٹ کررہا ہے اور دوسرے گروہ کو غامدی صاحب کا جوابی بیانیہ. دھواں دھار لڑائی جاری ہے اور تاحال دونوں جانب سے مغلظات کا اسکور قریب قریب برابر ہے.
.
سوچتا ہوں اگر مولانا ابو الاعلیٰ مودودی رح اس طرز اختلاف کو اپنے نام پر ہوتا دیکھ لیں تو شائد اپنا دل تھام کر بیٹھ جائیں. تصور کرتا ہوں اگر مولانا وحید الدین خان اپنے نام لیواؤں کو ایسی تحقیری زبان استعمال کرتا دیکھ لیں تو شائد اپنا سر پیٹ لیں. ڈاکٹر اسرار احمد رح نے اپنی پوری زندگی قران حکیم کی تعلیم اور خلافت کی جدوجہد میں بسر کی مگر اس کے باوجود مولانا امین احسن اصلاحی رح کو اپنے اساتذہ میں شمار کرکے ویسی ہی عزت دیتے رہے. جاوید احمد غامدی صاحب سے جب میری اپنی ملاقات ہوئی تو میں نے محسوس کیا کہ وہ جب جب مولانا ابو الاعلیٰ مودودی رح کا ذکر کرتے ہیں تو ایک اضافی ادب ان کا احاطہ کرلیتا ہے. وہ بتاتے ہیں کہ علمی اختلاف کیسے کیا جاتا ہے؟ یہ مولانا مودودی رح سے سیکھا.
.
افسوس کہ آج ان ہی صاحبان علم کا نام لے کر ایسا غیر علمی انداز اختیار کیا جارہا ہے جسے دیکھ کر غصہ بھی آتا ہے اور افسوس بھی ہوتا ہے. غصہ اسلئے کہ یہ غیر شائستہ انداز اپنانے والے جاہل نہیں بلکہ مجھ جیسے سے کہیں زیادہ علم رکھتے ہیں اور افسوس اسلئے کہ دونوں طرفین تعمیر سمجھ کر تخریب کا حصہ بن رہے ہیں. میں آپ دونوں مکاتب فکر سے ہاتھ جوڑ کر التجا کرتا ہوں کہ صبر و شائستگی کا دامن تھامیں. اگر ایک جانب سے گالی دی جائے تو دوسری جانب بردباری کا مظاہرہ کرے. اگر دوسری جانب سے دل دکھایا جائے تو پہلی جانب حکمت سے کام لے. اگر میری اس تحریر سے آپ میں سے کسی کو چوٹ پہنچے تو میں پیشگی معافی مانگتا ہوں اور یقین دلاتا ہوں کہ میرا مقصد آپ کی تذلیل ہرگز نہیں بلکہ اخوت و مروت ہے.
.
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment