میری ایک جذباتی سیاسی تحریر
.
وہ احباب جو زرداری، نواز شریف، الطاف حسین یا کسی اور لیڈر کے دن رات گن گاتے رہتے ہیں. ان لیڈروں کی ہر جائز ناجائز بات کا دفاع کرنا خود پر فرض سمجھتے ہیں اور ان پر کسی بھی قسم کی تنقید سن کر آگ بگولہ ہوجاتے ہیں. دل چاہتا ہے کہ ان سے کہوں کہ اگر آپ اپنے لیڈر کو اتنا ہی پرفیکٹ اور نیک تسلیم کرتے ہیں تو دو رکعت نفل پڑھ کر یا صرف ہاتھ اٹھا کر دل سے رب کریم سے دعا کریں کہ وہ آپ کی اولاد کو اسی لیڈر جیسا بنادے اور آپ کا حشر آخرت میں اسی لیڈر کے ساتھ کرے. اگر آپ ایسی دعا کر سکتے ہیں تو کم از کم آپ اپنے قول و فعل میں سچے ہیں. آپ اپنے کہے میں صحیح یا غلط تو ہوسکتے ہیں مگر جھوٹے نہیں. لیکن اگر آپ ایسی کوئی دعا اس لئے نہیں کرتے کہ آپ جانتے ہیں کہ آپ کا من پسند لیڈر کرپٹ ہے یا اس کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے ہیں تو امکان ہے کہ روز قیامت آپ کو پیشانی کے بالوں سے پکڑا جائے اور آپ کو ایک مجرم کا دست بازو بننے پر اسی کا ساتھی شمار کیا جائے.
.
میں جانتا ہوں کہ وطن عزیز میں ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے لہٰذا ہمیں کسی بہتر الو کا ہی انتخاب کرنا ہوگا. مگر خدا کے لئے نواز ہو یا عمران، الطاف ہو یا فضل الرحمٰن کسی کی بھی شخصیت پرستی اختیار نہ کیا کریں. افسوسناک امر یہ ہے کہ فیس بک پر بھی کچھ ذہن ساز لکھاری اسی شخصیت پرستی میں مبتلا نظر آتے ہیں. اتنا حوصلہ رکھیں کہ جہاں کسی کی اچھی بات پر تعریف کرسکتے ہوں وہاں اسی کی کسی بری بات پر کھل کر تنقید بھی کرسکیں. عجیب ماحول بنالیا ہم نے کہ یہاں یا تو ایک لیڈر کو موسیٰ کی مسند پر بیٹھا دیا جاتا ہے یا پھر سیدھا فرعون کا تمغہ دیا جاتا ہے. بیچ کا کوئی امکان ہی نہیں .. یہاں ایسا کوئی تصور نہیں ہے کہ ایک شخص کی بیک وقت کچھ باتیں غلط اور کچھ صحیح تسلیم کی جایئں .. یہاں حق کو حق کہنے اور باطل کو باطل کہنے کا رواج نہیں ہے. یہاں حق و باطل کی کسوٹی انصاف نہیں عقیدت بن گئی ہے. یہاں اگر آپ نے کسی لیڈر کو حق کہنا ہے تو اسکے باطل کو بھی حق کہنا ہے، اور اگر کسی کو باطل پکارنا ہے تو اسکے حق کو بھی باطل پکارنا ہے. مجھ سے واقف لوگ یہ بات خوب جانتے ہیں کہ میں نے اگر آج تک کسی لیڈر کی کھل کر حمایت کی ہے، اسکے حق میں تحریریں لکھی ہیں تو وہ عمران خان ہے. ایک پرانی تحریر کا لنک نمونے کے طور پر پہلے کمنٹ میں درج کررہا ہوں. میں آج بھی خان صاحب کی کچھ باتوں سے ناراض ہونے کے باوجود ان سے محبت محسوس کرتا ہوں، ان سے امید رکھتا ہوں مگر کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی پے درپے حماقتوں کا وکیل بن کر دفاع کرتا رہوں؟ ان پر تنقید نہ کروں؟ خان صاحب نے کوئی ایک بیوقوفی نہیں کی ہے بلکہ سیاسی و شخصی حماقتوں کی ایک طویل فہرست مرتب کردی ہے. جن میں سے کوئی نہ کوئی ہر دوسرے روز اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہے. جب آپ نے خود کو قومی لیڈر بنا کر پیش کردیا تو اب آپ پبلک پراپرٹی ہیں. جس طرح کرپشن کرنے والے کو کرپٹ کہا جاتا ہے ویسے ہی بیوقوفیاں کرنے والے کو بیوقوف پکارا جائے گا. نواز لیگ، انصافی کارکنان اور تمام جماعتوں کے اراکین میں یہ جرأت ہونی چاہیئے کہ وہ اپنے من پسند لیڈر پر بھی جہاں وہ غلط ہے تنقید کرسکیں. ساتھ ہی اپنے مخالف کی تنقید کو کھلے ذہن سے سننے کی ہمت پیدا کریں. یہ ہوگا تو حقیقی شعور بیدار ہوسکے گا. یہ نہیں ہوگا تو شعور کے نام پر صرف دھینگا مشتی ہوگی.
.
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment