Tuesday, 14 March 2017

روزمرہ کے واقعات اور الله کا گرینڈ پلان


روزمرہ کے واقعات اور الله کا گرینڈ پلان



آج سے کوئی دس برس قبل میرا واسطہ کچھ ایسے افراد سے ہوا جو علم میں مجھ سے کہیں زیادہ تھے. انہوں نے اپنے استدلال اور جاذب طرز گفتگو سے میرے ذہن میں طرح طرح کے شکوک پیدا کردیئے. وقت کیساتھ ان تمام اشکالات کا جواب مجھے کتاب اللہ سے حاصل ہوا مگر پھر بھی کبھی ایسا وقت آجاتا تھا جب ذہن زچ ہوجاتا اور ہمت ٹوٹنے لگتی. وجود خدا سے متعلق ان ہی دنوں ایسے ہی ایک سوال نے میرے ذہن کو بری طرح جکڑ لیا. اسی سوال کو ایک رات سوچتے ہوئے میں اپنے روزمرہ کے راستے سے گزر رہا تھا. دل اس اشکال سے شدید مضطرب تھا اور آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے. اچانک مجھے کچھ فاصلے پر ایک پتھر پر سے روشنی نکلتی ہوئی محسوس ہوئی. ایک لمحے کو میں اپنا اضطراب بھولا اور متجسس ہو کر اس روشنی کی طرف لپکا تو معلوم ہوا کہ ایک پتھر پر ایک 'سی ڈی' الٹی رکھی ہوئی ہے. اس کا چمکیلا حصہ اپر کی جانب ہے جس پر اسٹریٹ لیمپ کی روشنی پڑ کر منعکس ہو رہی تھی. میں نے 'سی ڈی' اٹھائی تو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ وہ کسی اسلامی لیکچر کی ریکارڈنگ تھی. گھر جاکر اسے سنا تو اس میں موجود باتوں سے اپنے اس اشکال کا جواب حاصل ہوگیا اور دل کو قرار آگیا. 
.
 کوئی سال بھر پہلے میری طبیعت بگڑنے لگی. ڈاکٹر کے پاس ٹیسٹ کروائے تو سب نارمل آئے لیکن ذہن اور جسم دونوں جیسے نیم مفلوج سے رہنے لگے. دو بار ایسا ہوا کہ کسی دوست نے مجھے باہر چلتے دیکھا تو فون کرکے خیریت دریافت کی کہ آپ بہت بیمار لگ رہے ہیں. جو ان دنوں چہرہ دیکھتا وہ فکرمند ہو کر میری خیریت دریافت کرتا. ڈاکٹرز مجھ سے پوچھتے کہ کیا تمھیں کوئی اسٹریس لاحق ہے؟ کوئی پریشانی ہے؟ میں انہیں بتاتا کہ ہرگز نہیں بلکہ میں تو اپنے رب کی نعمتوں سے الحمدللہ سرشار ہوں اور اتنا پرسکون ہوں کہ خود ہی حیرت ہوتی ہے الحمدللہ. مجھے طرح طرح کے وٹامنز دیئے جانے لگے لیکن طبیعت نے نہ سنبھلنا تھا تو نہ سنبھلی. اللہ پاک سے دعا گو رہا. ایک روز اچانک میرا نیا موبائل شدید گرم ہوگیا. اتنا گرم جیسے اس میں ابھی آگ لگ جائے گی. اسے بند کیا اور کچھ دیر بعد دوبارہ چلایا تو ٹھیک ہوگیا. پھر چند روز بعد یہی ماجرا ہوا اور موبائل دوبارہ گرم ہو کر انگارہ بن گیا. مجھے لگا کہ میرا یہ نیا 'سام سنگ ایس سکس ایج' موبائل ناکارہ ہونے والا ہے. آخری کوشش کے طور پر میں نے اس کی گہری جانچ کی تو معلوم ہوا کہ کچھ ایسی 'ایپلی کیشنز' اس میں انسٹال ہوگئی ہیں جو نہ صرف موبائل کی کارکردگی پر شدید بوجھ ڈال رہی ہیں بلکہ ایک دوسرے سے 'کونفلکٹ' یعنی ٹکرا بھی رہی ہیں. میں نے فوری طور پر انہیں ہٹایا تو موبائل واپس ٹھیک ہوگیا اور اس کے بعد آج تک بلکل ٹھیک ہے. میں نے حسب عادت اس واقعہ پر غور کیا کہ کہیں اسمیں میرے لئے رب کی جانب سے کوئی پیغام تو نہیں؟ احساس ہوا کہ یہی معاملہ میرے اپنے ذہن کے ساتھ بھی ہورہا ہے. ان دنوں میں دو مخالف مکاتب فکر کی اصولی بحث کو بیک وقت تقابلی انداز میں پڑھ رہا تھا. ساتھ ہی دونوں کے نمائندہ استادوں سے گفتگو بھی کررہا تھا. اصول الفقہ کو اس سے قبل میں نے نہیں پڑھا تھا اور اب اچانک میں دو مخالف نقطہ نظر کے انتہائی 'ایڈوانس کانسپٹس' کو اپنے ذہن پر زبردستی لاد رہا تھا، جس سے میرے ذہن کی 'ہارڈ ڈسک' کریش ہورہی تھی. جیسے ہی بات سمجھ آئی تو ڈاکٹر کو بتایا. اس نے مثالیں دے کر ثابت کیا کہ یہی اصل جڑ ہے. چانچہ کچھ عرصہ کیلئے میں نے ہر طرح کی تحقیق ترک کرکے ذہن کو ہنسنے بولنے والی تفریحات میں مصروف کرلیا. کچھ ہفتوں تک فیس بک سے بھی واجبی سا تعلق رکھا. نتیجہ یہ ہوا کہ طبیعت الحمدللہ پوری طرح سے سنبھل گئی.
.
 ایسے ان گنت واقعات میرے پاس ہیں جو طوالت کے سبب نہیں درج کررہا. مگر دوستو ان واقعات کو آپ کے گوش گزار کرنے کا مقصد یہ سمجھانا ہے کہ مومن کی زندگی میں 'انہونی' یا 'حسن اتفاق' نام کی کوئی شے نہیں ہوتی. وہ اس حقیقت کی معرفت پاچکا ہوتا ہے کہ زندگی کے خارج و باطن میں ہونے والی ہر واردات، ہر حادثہ، ہر واقعہ دراصل قادر المطلق کے 'گرینڈ پلان' ہی کا ایک چھوٹا سا جزو ہے. اس کا ہونا یا تو خالص 'امر الہی' کا ظہور ہے یا پھر 'اذن خداوندی' کا تقاضہ. سادہ الفاظ میں ہمارے اردگرد ہونے والے واقعات کے ذریعے رب العزت ہمیں مختلف پیغامات منتقل کرتے ہیں. اگر ہم روزمرہ کے ان واقعات میں غور و فکر کرکے منشاء خداوندی کھوجنے اور دیکھنے کی صلاحیت حاصل کرلیں تو پھر یہ پیغامات کبھی ہماری الجھنوں کا حل ثابت ہوتے ہیں، کبھی ہماری بداعمالی پر سرزنش کا کام کرتے ہیں، کبھی کسی غلط روش پر تنبیہہ کرتے ہیں اور کبھی ہماری تحقیق میں معاونت فراہم کرتے ہیں. یوں تو قران حکیم کے طالبعلم کو جابجا کتاب اللہ میں اسکی ترغیب ملتی ہے مگر سورہ یوسف تو مانیئے اسی ترغیب کا شاہکار معلوم ہوتی ہے. جس میں یوسف علیہ السلام کی زندگی کا ایک ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے جن کی مجموعی حکمت جب یوسف علیہ السلام پر سورہ کے آخر میں آشکار ہوتی ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ تمام بظاہر غیر متعلق واقعات درحقیقت تسبیح کے دانوں کی طرح ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے تھے اور جن سب نے مل کر انہیں اس منزل تک پہنچایا ہے جو مطلوب تھی. وہ بے اختیار پکار اٹھتے ہیں کہ 
.
 "... واقعہ یہ ہے کہ میرا رب غیر محسوس تدبیروں سے اپنی مشیت پوری کرتا ہے، بے شک و ہ علیم اور حکیم ہے. اے میرے رب، تو نے مجھے حکومت بخشی اور مجھ کو باتوں کی تہ تک پہنچنا سکھایا زمین و آسمان کے بنانے والے، تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا سرپرست ہے، میرا خاتمہ اسلام پر کر اور انجام کار مجھے صالحین کے ساتھ ملا"
.
 ====عظیم نامہ====

No comments:

Post a Comment