مسکراتی یادیں
.
ہر انسان کی زندگی میں ایسے کئی غیر متوقع واقعات پیش آتے ہیں جو وقتی طور پر اسے حیران بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی باقی زندگی کیلئے مسکراہٹ کا سامان بھی بن جاتے ہیں. ایسے ہی چند واقعات راقم کی زندگی سے درج ذیل ہیں.
.
میری ایک سابقہ نوکری میں ایک انڈین سکھ کام کرتا تھا. یہ بندہ انگلینڈ ہی کا پیدائشی تھا اور اپنی بہترین انگریزی کی وجہ سے ہم سب میں ممتاز نظر آتا تھا. انگریزی الفاظ کا ذخیرہ، چناؤ اور لہجے کی روانی ایسی عمدہ تھی کہ مجھ سمیت اکثر کو رشک محسوس ہوتا. ہم دونوں میں اکثر انگریزی میں گفتگو ہوتی رہتی. ایک دن 'اسٹاف لاکرز روم' میں وہ اپنے لاکر کو کھول رہا تھا. مجھے دیکھ کراس نے پہلی بار انگریزی کی بجائے پنجابی میں گفتگو کرنا چاہی تو کچھ یوں بولا .. "عظیم پائی .. میں پہے لاکر وچ رکھ ریا سی .. پر پائی اتھے تے کیڑی آندی اے کیڑی !" .. (میں پیسے لاکر میں رکھ رہا تھا مگر یہاں تو کیڑے ہوگئے ہیں) ... ایک تو اس نے سالوں بعد پہلی بار انگریزی کی بجائے مجھ سے اچانک پنجابی میں بات کی اور پھر یہ جملہ بھی ایسے ٹھیٹھ پینڈو لہجے میں بولا کہ مجھے چپ سی لگ گئی. ایسا نہیں ہے کہ مجھے پنجابی پسند نہیں ہو لیکن اس مہذب ترین انگریزی لہجے والے دوست نے پنجابی بولتے ہوئے کچھ ایسا انداز اختیار کیا کہ پہلے وقتی صدمہ سا لگا اور اس کے بعد یہ روداد زندگی بھر کی ایک مسکراتی یاد بن گئی.
.
انگلینڈ میں ماسٹرز کرنے کے دوران میں ایک معروف 'فیشن ریٹیل فرم' میں ملازم تھا. ایک روز ایک انگریز عورت گاہک بن کر شاپنگ کر رہی تھی. اس کا سات آٹھ سال کا بیٹا نہایت بگڑا ہوا ضدی بچہ تھا. جس نے مصنوعی رونا چیخ چیخ کر پورا اسٹور سر پر اٹھا رکھا تھا. بچے کی ماں اپنے بگڑے لاڈلے کے سامنے بلکل مجبور بنی گھوم رہی تھی. میرے ساتھ ہی میرا انگریز مینجر بھی موجود تھا. جب کسی صورت اس بچے کا رونا نہ رکا تو وہ ماں کی نظر سے بچ کر اس بچے کے پاس گیا. مینجر کے چہرے پر بچے کیلئے شفقت اور مسکراہٹ تھی. وہ اس کے بلکل سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا. مجھے لگا کہ اب وہ بچے کو لاڈ پیار سے بہلائے گا. مگر اس نے بچے کو تھپڑ کا اشارہ دیکھا کر کرختگی سے کہا ...
"Should I give you a better reason to cry about ! ??"
(یعنی .. کیا میں تمہیں رونے کی کوئی بہتر وجہ دوں؟)
یہ ضدی بچہ سہم کر اچانک چپ ہوگیا اور پھر باقی وقت چپ ہی رہا. لیکن سچ بات یہ ہے کہ اپنے مینجر کا یہ اوتار دیکھ کر خود میں بھی دنگ رہ گیا. اب بھی اسکی بات یاد آتی ہے تو بے اختیار مسکرا دیتا ہوں.
.
اسی طرح ایک اسٹور میں ملازمت کے دوران جب میں گاہکوں کی خریداری کو اسکین کرکے انکے حوالے کر رہا تھا تو ایک انگریز یہودی گاہک میرے پاس آیا. اس کے بالوں کی لمبی لٹیں، گھنی داڑھی اور مخصوص لمبا سیاہ کوٹ اس کے مذہبی ہونے کی نشاندہی کررہا تھا. میں نے حسب معمول اسے ہیلو کہا تو جواب میں اس نے مجھے جھک کر آداب کیا اور نہایت خوبصورت اردو میں میرا حال چال پوچھنے لگا. اس غیر متوقع افتاد سے میں کچھ لمحوں کے لئے سٹپٹایا مگر پھر مسرور ہوکر اس سے گفتگو کرنے لگا. یہ انگریز یہودی اردو ادب کا دلدارہ تھا اور بہت سالوں سے اردو سیکھ رہا تھا. اپنی گفتگو میں اس کا لہجہ بلا کا شائستہ تھا. وہ فراوانی سے نہ صرف نہایت ثقیل الفاظ استعمال کررہا تھا بلکہ غالب و اقبال کے اشعار بھی اسکی زبان پر رواں تھے. ظاہر ہے کہ میں اس بیس پچیس منٹ کی گفتگو میں اردو پر اسکی مہارت سے مرعوب ہو گیا تھا. اس کے خریدے ہوئے سامان کو اسکین کرتے کرتے آخر میں ایک دوائی (میڈیسن) بھی سامنے آئی. میں نے کچھ مروت میں اور کچھ بات آگے بڑھانے کو اس سے پوچھا کہ سب خیریت تو ہے محترم؟ یہ دوائی کیسی ہے؟ .. اس اردو کے ماہر نے ایک ہنکارا بھرا اور گرن ہلا کر کہا کہ "عظیم یہ پیٹ کے درد کیلئے ہے، دراصل مجھے کالی ٹٹیاں لگی ہوئی ہیں." مجھے اپنی سماعت پر یقین نہیں آیا اور بوکھلا کر منہ سے نکلا "جی ! کیا لگی ہوئی ہیں؟" .. انہوں نے پھر اظہار تاسف سے کہا کہ روز کالی ٹٹی آرہی ہے. میرے ذہن میں سجا اس کی اردو دانی کا محل جیسے تاش کے پتوں کی مانند پل میں مسمار ہوگیا. کہاں وہ غالب و میر کی سی اردو اور کہاں کالی ٹٹی جیسے الفاظ سے اپنی بات کا اظہار؟ شائد میرے اس دوست کو ابھی اور کئی سال اردو کا ماہر بننے کیلئے درکار تھے. اب بھی یہ واقعہ یاد آتا ہے تو ہنسنے پر مجبور ہوجاتا ہوں.
.
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment