یادوں کے جھروکے سے ..
.
زندگی میں بعض ایسے واقعات پیش آتے ہیں جو بظاہر معمولی ہونے کے بعد بھی آپ کی یادداشت کا مستقل حصہ بن جاتے ہیں اور ساتھ ہی چپکے سے آپ کو زندگی کا کوئی قیمتی سبق بھی پڑھا جاتے ہیں. ایسی ہی دو یادیں درج ذیل ہیں.
.
پہلا واقعہ کچھ یوں ہوا کہ ایک انگریز میرے ساتھ آفس میں کام کرتا تھا. یہ ہنس مکھ سا ملنسار انسان معلوم ہوتا. کئی بار اس سے سامنا ہوا مگر مسکراہٹ کے تبادلے کے سوا کوئی بات نہ ہوسکی. پھر ایک روز موقع آیا تو ہم نے اسے صبح بخیر (گڈ مورننگ) کہنے کے بعد دوسروں کی طرح حسب روایت دریافت کیا کہ کیا حال چال ہیں؟ اب ہمیں پوری توقع تھی کہ اس کا بھی جواب ویسا ہی رسمی ہوگا جیسے کوئی عام انگریز کچھ یوں دیتا ہے کہ 'میں ٹھیک ہوں، تم کیسے ہو؟' یا پھر مسلمان الحمدللہ کا رسمی و لفظی اضافہ کرکے یہی جملہ دہرا کر اپنا مذہبی فریضہ پورا کردیتا ہے. مگر ایسا نہ ہوا. جب میں نے اس سے پوچھا کہ 'کیا حال چال ہیں؟' تو اس نے غور سے میرا سوال سنا، ایک لمحہ توقف کیا. جیسے سوچ رہا ہو اور پھر پوری مسرت کے ساتھ بولا کہ "عظیم میں بلکل ٹھیک ہوں بلکہ میں بہت زیادہ خوش ہوں. مجھے سمجھ نہیں آتا کہ میں اتنا خوش نصیب کیسے ہوں؟ اور کیسے ہر چیز بہترین چل رہی ہے." میں اس کے اس غیر متوقع جواب پر چونکا اور سٹپٹا کر اسے دیکھنے لگا. اس کے چہرے پر خوشی اور سکون تھا. لہجے میں دیانت اور الفاظ میں سچائی. دوستو میں خود الحمدللہ ایک پرسکون اور خوش انسان ہوں مگر یقین کیجیئے کہ اس انگریز دوست کی بات نے دل پر کچھ ایسا مثبت اثر ڈالا کہ دل خوشی سے لبریز ہوکر مسکراہٹ میں ڈھل گیا. سیکھ یہ ملی کہ شکرگزاری اگر سچی ہو تو رسمی الفاظ کا لبادہ نہیں اوڑھتی بلکہ اسکی بات اور شکرگزاری تو دل سے نکلتی ہے اور دل پر اثر کرجاتی ہے.
.
دوسرا واقعہ کچھ ایسے ہوا کہ ابتداء میں جب پاکستان سے لندن آیا تو ایک نہایت مہنگے علاقے کے ایک معروف پاکستانی ریسٹورنٹ میں نوکری ملی. اس کے مالک ایک نہایت کامیاب پاکستانی کاروباری تھے. جن کی اس ریسٹورنٹ کے علاوہ بھی بہت ساری پراپرٹی اور بزنس جیسے ہوٹلز یا گھر وغیرہ تھے. میں اس ریسٹورنٹ میں کبھی بیرا بن کر گاہکوں کی خدمت کرتا اور کبھی ان کے جھوٹے برتن صاف کرتا. کبھی خانساماں کا ہاتھ بٹا کر کھانا پکانے میں مدد دیتا اور کبھی کیشیئر کی ذمہ داری سنبھال لیتا. یہ شروع شروع کے دن تھے اور شروع کے دنوں میں پاکستان سے آئے متوسط پڑھے لکھے افراد کو ایسے کام کرنا طبیعت پر گراں گزرتا ہے. میرے ساتھ بھی یہ معاملہ تھا مگر خود کو سمجھا بجھا کر پوری جانفشانی سے میں ہر محنت کا کام کررہا تھا. مگر پھر ایک دن ریسٹورنٹ کے مالک نے مجھے پونچھا (موپ) لگانے کو کہا. یوں لگا کہ جیسے کسی نے عزت نفس پر چھرا گھونپا ہو. بڑی مشکل سے خود کو راضی کیا اور ریسٹورنٹ میں پونچھا لگانے لگا. اب باس نے کہا کہ ذرا ریسٹورنٹ کے باہر سامنے بھی پونچھا لگا دو. یہ بات تو جیسے طبیعت پر بجلی کی مانند گری. اتنے مصروف علاقے میں لوگوں کے سامنے پونچھا لگانا مجھے اپنے لئے شدید ذلت محسوس ہوئی. بے اختیار آنکھوں میں آنسو امڈ آئے. میری اس کیفیت کو شائد ریسٹورنٹ کے مالک بھانپ گئے. انہوں نے فوری کہا کہ عظیم پونچھا چھوڑو تم جاکر کیش کاونٹر سنبھالو. اس کے بعد انہوں نے میرے ہاتھ سے پونچھا لیا اور ریسٹورنٹ کے باہر کی جگہ پر لوگوں کے بیچ پونچھا لگانے لگے. میں حیرت ذدہ سا انہیں دیکھنے لگا کہ ایک ارب پتی انسان پونچھا لگانے میں ذرا بھی شرم محسوس نہیں کرتا؟ اور میں خود کو اتنا لارڈ گورنر سمجھتا ہوں کہ مجھے یہ کام کرنا ذلت محسوس ہوا؟ اس کے بعد میں نے ایسے متعدد واقعات دیکھے جب کامیاب ترین انسانوں نے کسی ایسے کام کو کرنے میں بھی کوئی شرم محسوس نہیں کی. جنہیں ہم پاکستان میں یہ کہہ کر نہیں کرتے کہ میں کیا کوئی بھنگی چمار ہوں؟ اس واقعہ سے سیکھ ملی کہ کوئی کام چھوٹا نہیں ہوتا اور کسی جائز کام کے کرنے میں کوئی شرم نہیں ہونی چاہیئے.
.
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment