Saturday, 12 May 2018

یقین، تشکیک اور ایمان


یقین، تشکیک اور ایمان 



.
یقین وہ کیفیت ہے جب انسان کسی بات کی صداقت پر آخری درجے میں مطمئن ہو. اسے اس حقیقت کا ایسا براہ راست ادراک حاصل ہو یا فطرت کے نہاں خانوں میں ایسی گواہی موجود ہو کہ پھر نہ کسی دلیل کی حاجت رہے نہ ممکنہ تفکر کی. مثال کے طور پر میرے لئے یہ صداقت کہ "میں" ہوں اور آپ سے مخاطب ہوں یا آپ کیلئے یہ حقیقت کہ "آپ" ہیں اور آپ اس تحریر کو سوشل میڈیا پر پڑھ رہے ہیں. 
.
تشکیک یا شک دراصل یقین کے منافی کیفیت کا نام ہے. جب کسی شے کی حقیقت و صداقت پر آپ کو عقلی و قلبی اطمینان نہ باقی رہے تو یہ کیفیت شک کہلاتی ہے. یہ ممکن ہے کہ کسی شے یا دعوے پر آپ کو شک تو ہو مگر وہ شک ایسا قوی نہ ہو جو آپ کو اسے مکمل جھٹلانے یا نہ ماننے پر مجبور کرسکے. لیکن ساتھ ہی اس شک کی موجودگی آپ کو یقین کی منزل پر بھی نہ پہنچنے دے. 
.
ایمان وہ کیفیت ہے جو براہ راست تجربے کا نتیجہ تو نہیں ہوتی. البتہ تفکر و تدبر سے ایسے قرائن و براہین پالیتی ہے جو کسی شے یا دعوے کی صداقت پر آپ کو مطمئن کرسکے. 
.
کسی دعوے پر 'یقین' اسی وقت کرنا درست ہے جب فی الواقع آپ کے ذہن و قلب اسکی صداقت پر آخری درجے میں راضی ہوں. ساتھ ہی یہ یقین اندھا نہ ہو بلکہ اسکی براہ راست گواہی آپ کے باطن یا پھر خارج سے آپ کو حاصل ہوتی ہو. بہت سے افراد مختلف دعووں پر زبردستی 'یقین' کر بیٹھتے ہیں جو پھر کبھی مذہب کے نام پر اور کبھی سیاست و طاقت کے نام پر فساد کا باعث بنتے ہیں. 'تشکیک' کا ہوجانا ایک فطری و عقلی رویہ ہے. بلکہ یہ کہنا بھی شائد غلط نہ ہو کہ انسانی شعور کے ارتقاء میں تشکیک کو کلیدی حیثیت حاصل ہے. انسان کسی بھی بات کی صحت کا اسی وقت تعین کرسکتا ہے جب وہ اسے جانچے اور جانچنے کیلئے لازم ہے کہ وہ سوال اٹھائے اور تشکیک کے مراحل سے گزرے. البتہ جس طرح کسی بھی شے کی زیادتی مضر ہوا کرتی ہے ویسے ہی تشکیک کو عمدہ ترین صفت سمجھ کر شک کی کیفیت سے نہ نکلنے کی ٹھان لینا بھی صحتمند رویہ نہیں. یہ افسوسناک امر ہے کہ کچھ جدید فلسفیانہ اذہان نے شک کرنے اور شکوک پھیلانے کو ہی علمی رویہ سمجھ لیا ہے. نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اپنے اس عقلی سفر میں وہ سکون سے عاری ہی رہتے ہیں اور اسی غلط فہمی میں مرجاتے ہیں کہ شائد یہی ذہانت کی معراج ہے.
.
اسکے برعکس اعتدال پر مبنی ایک وہ رویہ ہے جو دین ہمیں عطا کرتا ہے. دین ان تینوں رویوں کو ان کے صحیح مقام و محل پر رکھتا ہے. وہ جہاں ہمیں کچھ آفاقی و روحانی حقیقتوں پر ہمیں یقین کرنا سیکھاتا ہے. وہاں ہمارے اردگرد موجود بیشمار خود ساختہ فلسفوں پر 'تشکیک' سے انکار یعنی 'لا' تک کا سفر کرواتا ہے. تفکر و تدبر کے نام پر الہامی حقائق پر سوال کرنے کی حوصلہ افزائی کررتا ہے. اسی طرح بقیہ حقیقتوں پر دلائل و براہین سے گزار کر اپنے مخاطب کو 'ایمان' رکھنے کی تلقین کرتا ہے. دھیان رہے کہ ایمان بن دیکھے تو ہوسکتا ہے بن سمجھے نہیں. ہم میں سے اکثر ایمان کو یقین کے مماثل سمجھ لیتے ہیں حالانکہ ان دونوں میں ایک باریک مگر بنیادی فرق ہے. ایمان گھٹتا اور بڑھتا ہے. جیسے سورہ النساء میں آتا ہے "..اور جب اللہ کی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتیں ہیں تو وه آیتیں ان کے ایمان کو اور زیاده کردیتی ہیں.." گویا ایمان زیادہ بھی ہوتا ہے اور کئی احادیث سے ظاہر ہے کہ کم بھی ہوجاتا ہے.اسکے برعکس یقین منجمد ہوتا ہے. وہ گھٹتا بڑھتا نہیں ہے. گو اسکے اپنے تین درجات ہیں جن کا بیان اختصار کے سبب کرنا مناسب نہیں. (علم الیقین،عین الیقین اور حق الیقین)
.
"اور جب ان سے کہا گیا جس طرح دوسرے لوگ ایمان لائے ہیں اسی طرح تم بھی ایمان لاؤ تو انہوں نے یہی جواب دیا "کیا ہم بیوقوفوں کی طرح ایمان لائیں؟" خبردار! حقیقت میں تو یہ خود بیوقوف ہیں، مگر یہ جانتے نہیں ہیں" - سورہ البقرہ ١٣
.
====عظیم نامہ====

No comments:

Post a Comment