Thursday, 10 May 2018

حسن کیا ہے؟

حسن کیا ہے؟

.
ایسا کیوں ہے کہ کم و بیش ہر زبان کے بولنے والے افراد شاعری کرتے ہیں اور شاعری کو پسند کرتے ہیں؟ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ایک ہی بات جب نثر میں بیان ہو تو ویسی اثر انگیزی نہیں رکھتی جیسی کسی شعر یا نظم کا پیرہن پہن کر لگتی ہے؟ کیوں کسی غزل کے اشعار سن کر ہماری طبیعت مسکرا اٹھتی ہے؟ اور کیوں ہم حمد و نعت سے لے کر قوالی و موسیقی تک شاعری کے مداح بن جاتے ہیں؟ ہمیں محبت کے لطیف جذبات کا اظہار کرنا ہو، ہمیں جدائی کا رنج و کرب بیاں کرنا ہو، ہمیں کسی کے حسن کے قصیدے پڑھنے ہوں، ہمیں انقلاب برپا کرنا ہو .. غرض مقصد و جذبہ کوئی بھی ہو، ہم کیوں شاعری ہی کو کہنا اور سننا پسند کرتے ہیں؟ ایسا کون سا حسن ہے جو شاعری میں پنہاں ہوتا ہے اور جس سے ہماری روح جھوم جھوم جاتی ہے؟ غور کیجیئے تو شاعری کا اصل حسن اس کے ' توازن ' میں ہے. مانا کہ دوسرے لوازم جیسے الفاظ کا انتخاب اور پیغام اپنی جگہ اہم ہیں مگر یہ سب تو نثر یا تقریر سے بھی منتقل ہوسکتے تھے. دراصل یہ توازن ہی ہے جو شاعری کو وہ جاذب حسن عطا کردیتا ہے جو اپنے مخاطب کی عقل و سماعت کو جکڑ لے اور اسے اپنا بنالے.
.
اسی تمہید کو سامنے رکھ کر جب سوچتا ہوں کہ حسن کیا ہے؟ تو جواب ملتا ہے کہ حسن توازن ہے. گویا کسی شے کا متوازن ہونا اس کے حسین ہونے کی دلیل ہے. کسی خاتون کی آنکھوں میں توازن نہ ہو تو یہ اس کا بھینگا پن یعنی نقص کہلاتا ہے، کسی مرد کے دانت آگے پیچھے ہوں یعنی توازن سے خالی ہوں تو اس کا حسن ماند پڑ جاتا ہے. یہ کائنات ہمیں حسین لگتی ہے اور اسکی اصل وجہ اس کا بہترین نظم یعنی توازن ہے. اسی توازن کا بیان قران حکیم میں بارہا کیا گیا جیسے سورہ الرحمٰن میں ارشاد ہوا وَالسَّماءَ رَفَعَها وَوَضَعَ الميزانَ - اسی نے آسمان کو بلند کیا اور اسی نے میزان (توازن رکھنے والی) رکھی. یہی توازن کسی نہ کسی درجے میں ایک شاعر کی شاعری میں، ایک لکھاری کی نثر میں، ایک گائیک کی گائیکی میں، ایک مصور کی تصویر میں، ایک معمار کی تعمیر میں، ایک مقرر کی تقریر میں، ایک رقاص کے رقص میں اور ایک عابد کی عبادت میں حسن بن کر ظاہر ہوتا ہے. اگر جسم میں توازن نہ ہو تو پیروں پر کھڑا تک ہونا ناممکن، اگر خوراک میں توازن نہ ہو تو صحت کا برقرار رکھنا ناممکن، اگر خوراک کے اجزاء جیسے نمک و چینی وغیرہ میں توازن نہ ہو تو لذت برقرار رکھنا ناممکن اور اگر شمس و قمر جیسے فطری مظاہر میں توازن نہ ہو تو کائنات کا قائم رہنا ناممکن. گو چار سو توازن ہی ہے جو ہمیں حسن و بقاء کی داستان رقم کرتا نظر آرہا ہے. یہی توازن انسانی شخصیت میں جلوہ گر ہو تو اسے حسین بنا دیتا ہے. متوازن مزاج شخصیت ہی جاذب کہلا سکتی ہے. گویا مزاح، سنجیدگی، غضب، حلم اور ایسی دیگر انسانی صفات جس قدر شخصیت میں توازن سے موجود ہونگی، اسی قدر وہ شخصیت کا حسن بن کر نمایاں ہوسکیں گی.
.
====عظیم نامہ====

No comments:

Post a Comment