Tuesday, 22 May 2018

آپ یا تو


آپ یا تو


سوال:
ہم جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے ہیں تو لفظ "آپ" کا استعمال کرتے ہیں. اس کے برعکس ہم جب اللہ پاک سے دعا کرتے ہیں تو لفظ "تو" سے بھی مخاطب ہو جاتے ہیں. کیا یہ صریح گناہ نہیں؟
.
جواب:
ہر زبان اور معاشرے کی اپنی حدود و قیود ہوا کرتی ہیں. یہ ہماری صوابدید پر ہے کہ ہم بحیثیت مسلم انہیں ملحوظ رکھتے ہوئے اللہ اور اسکے رسول کیلئے جس طرز تخاطب کو زیادہ مناسب پائیں، اسے اختیار کریں. آپ کا درج کردہ اشکال دراصل برصغیر پاک و ہند کے مزاج اور زبان اردو سے متعلق ہے. اسکی جو ممکنہ توجیح ہم پیش کرسکتے ہیں وہ یہ کہ اللہ پاک نے اپنی کتاب قران حکیم میں ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ انکے محبوب پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے معاملہ انتہائی ادب و احترام کیساتھ کریں. اس ضمن میں بے احتیاطی انسان کے تمام اعمال کو اکارت کرسکتی ہے. لہٰذا اس احتیاط کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ہم اردو بولنے والے جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کریں تو انہیں "آپ" سے مخاطب کریں. سورہ الحجرات کی دوسری آیت ملاحظہ ہو:
.
"اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنی آواز نبیؐ کی آواز سے بلند نہ کرو، اور نہ نبیؐ کے ساتھ اونچی آواز سے بات کیا کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا کیا کرایا سب غارت ہو جائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو"
.
اس کے برعکس بندے کا اپنے پروردگار سے تعلق بہت الگ ہے. اس تعلق میں بیک وقت خشیت و احترام بھی ہے اور دوستی و بےتکلفی بھی. وہ اپنے خالق سے شب و روز مخاطب ہوتا ہے. اسکے سامنے اپنا حال دل، اپنی حاجات رکھتا ہے. گویا ایک عبد کبھی تو رب ارض وسماء کی ہیبت سے ایسا لرزاں ہوتا ہے کہ آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے ہیں اور دھڑکن رک سی جاتی ہے. جبکہ کبھی اپنے بنانے والے سے بندہ خود کو اتنا نزدیک پاتا ہے کہ لاڈ اور مان سے ضد یا فرمائش کرنے لگتا ہے. اسی بے تکلفی میں کسی قریبی دوست کی مانند اسے "تو" کہہ کر مخاطب کرلیتا ہے. ہمارے نزدیک اگر جذبہ اسی قربت و تعلق کا ہو تو پھر "تو" کہہ دینے میں کوئی حرج نہیں اور نہ ہی ان شاء اللہ یہ ادب کے منافی قرار پائے گا. اللہ پاک اپنے نیک بندوں کو اپنا دوست قرار دیتے ہیں. پھر چاہے وہ خلیل اللہ یعنی اللہ کے دوست ابراہیم علیہ السلام ہوں یا پھر سچے مومنین، جنہیں اولیاء قرار دیا جاتا ہے. سورہ البقرہ کی ٢٥٧ آیت ملاحظہ ہو.
.
"ایمان ﻻنے والوں کا ولی (کارساز) اللہ تعالیٰ خود ہے، وه انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال لے جاتا ہے اور کافروں کے اولیاء شیاطین ہیں۔ وه انہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں، یہ لوگ جہنمی ہیں جو ہمیشہ اسی میں پڑے رہیں گے"
.
====عظیم نامہ====
.
(نوٹ: ایک توجیحح اس سوال کی اہل علم یہ بھی دیا کرتے ہیں کہ چونکہ "آپ" جمع کا صیغہ ہے اسلئے خدائے واحد کیلئے "تو" کا استعمال کیا جاتا ہے. گو راقم کو جو دلیل زیادہ قوی محسوس ہوتی ہے وہ پوسٹ/ تحریر میں بیان کردی گئی ہے. اردو زبان میں "آپ" واحد کیلئے بھی مستعمل ہے، خاص کر جب مخاطب کو عزت دینا مقصود ہو)

No comments:

Post a Comment