Monday, 7 May 2018

آنکھوں دیکھی



آنکھوں دیکھی

Image may contain: 1 person, text
.
"آنکھوں دیکھی" ایک ایسی کہانی ہے جو روایتی فلموں سے خاصہ ہٹ کر ہے اور جو اپنے ناظر کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیتی ہے. گو اس فلم نے بہترین کہانی اور اداکاری پر کئی ایوارڈ جیتے ہیں مگر اسکے باجود ہمیں یقین ہے کہ عوام کی اکثریت نے پانچ سال قبل ریلیز ہونے والی اس مووی کو نہیں دیکھا ہوگا. وجہ وہی ہے کہ یہ کوئی ناچ گانے پر مبنی محبت و انتقام وغیرہ کی کہانی نہیں ہے بلکہ انسانی سوچ کے سنجیدہ زاویوں کو نمایاں کرتی ہے. لہٰذا اسے سمجھنے اور سراہنے کیلئے مخصوص ذوق کا حامل ہونا ضروری ہے. یہ درحقیقت ایک ایسے سوچنے والے ادھیڑ عمرانسان کی روداد ہے جو ایک نچلے متوسط گھر کا سربراہ ہے. کچھ ایسے حالات و واقعات پیش آتے ہیں، جن کے سبب یہ صاحب ٹھان لیتے ہیں کہ کسی کے کہے سنے کو اب سچ تسلیم نہیں کریں گے بلکہ فقط اپنی 'آنکھوں دیکھی' ہی کو سچ مانیں گے. ان کا یہ فیصلہ آسان ثابت نہیں ہوتا اور چاروں طرف سے ان کی مخالفت ہونے لگتی ہے. دوست احباب مذاق اڑاتے ہیں. بیگم بچے فقرے کستے ہیں. نوکری چلی جاتی ہے. بھائی گھر چھوڑ جاتا ہے مگر یہ اپنے فیصلے پر ڈٹے رہتے ہیں. انہیں پنڈت کوئی پرساد پیش کرے تو چکھ کراسے قلاقند مٹھائی کہتے ہیں مگر پرساد نہیں مانتے. انہیں کوئی بتائے کہ من موہن سنگھ ملک کے سربراہ ہیں تو اسے نہ تسلیم کرتے ہیں اور نہ رد. بلکہ کہتے ہیں کہ "ہونگے". گویا یہ ان کی نظر میں فقط ایک امکان ہے. شیر دھاڑتا ہے یا منمناتا ہے، اس کا فیصلہ اسوقت تک نہیں کرتے جب تک چڑیا گھر میں شیر کو دھاڑتا نہیں سن لیتے. انہیں جہاں دیدہ کہلانے سے زیادہ وہ کنویں کا مینڈک بننا زیادہ پسند ہے جو کم از کم اپنے کنویں سے اچھی طرح واقف ہو.
.
آہستہ آہستہ ان کے اردگرد لوگوں کا حلقہ بڑھنے لگتا ہے. وہ لوگ جو کل تک انہیں پاگل جھکی کہہ رہے تھے اب ان کے سچے پکے معتقد مرید بن جاتے ہیں. یہ سب بھی اسی فلسفے کو اپناتے ہیں کہ وہی ماننا ہے جو 'آنکھوں دیکھی' سے ثابت ہو. کچھ عرصے کیلئے یہ حضرت بلکل خاموش بھی ہوجاتے ہیں تاکہ حکمت کے راز مزید منکشف ہوں. خود ساختہ گونگا بن کر یہ اپنا پیغام سڑکوں پر بینرز اٹھا اٹھا کر پیش کرتے ہیں. ایک شاگرد ایسا بھی شامل ہوتا ہے جو مسلسل فلسفیانہ گفتگو بناء رکے کرتا ہے. گویا اسے بولنے کی بیماری سی ہوگئی ہوتی ہے. یہ اسے ہفتوں تک پورے انہماک سے سنتے رہتے ہیں یہاں تک کہ اسکے دل کی بھڑاس نکل جاتی ہے اور وہ بلاخر خاموش ہوجاتا ہے. یہ صاحب اپنے شاگردوں کو بار بار تلقین کرتے ہیں کہ میرا سچ تمہارے سچ سے الگ ہوگا. اپنا سچ خود تلاش کرو.مگر یہ مرید اندھے مقلد بن کر اپنے مرشد یعنی ان صاحب کا سچ ہی اپنا سچ بنا بیٹھتے ہیں. جو ان کیلئے دل آزاری کا سبب بنتا ہے. ان صاحب کا یہ انہونا و اچھوتا سفر انہیں کس حد تک لے جاتا ہے؟ یہ اپنے آپ میں ایک داستان ہے. راقم کا سچ یقیناً ان صاحب کے سچ سے بلکل جدا ہے مگر اسکے باوجود انسانی سوچ و فکر کیا کیا گل کھلاتی ہے؟ اس حوالے سے ہمیں یہ کہانی خوب لگی.
.
====عظیم نامہ====
.
(نوٹ: فلم کا لنک خود گوگل سے ڈھونڈھ لیجیئے. ایک لنک ہم پہلے کمنٹ میں درج کیئے دیتے ہیں)

No comments:

Post a Comment