Tuesday, 29 May 2018

تکبر


تکبر


ہمارے ایک دوست دین بیزار اور دنیا میں بہت زیادہ مگن رہا کرتے تھے۔ انہیں اپنی دولت، کامیابی اور مرتبے پر تکبر تھا۔ جو ان کی گفتگو سے عیاں ہوتا رہتا تھا۔ ان کے اسی تکبر سے ان کا تمام حلقہ احباب خفاء تھا مگر انکی پوزیشن کے سامنے کسی کی ہمت نہ تھی۔ پھر ہوا کچھ یوں کہ حالات نے پلٹا کھایا اور مسلسل آفتوں نے ان کے گھر کا رخ کرلیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سارا دبدبہ ملیامیٹ ہوگیا۔ زندگی جو الٹ پلٹ ہوئی تو ان صاحب کو دین سے جڑنے کی چاہ پیدا ہوئی اور وہ شب و روز قران و حدیث کے مطالعہ میں غرق ہوگئے۔ میرے لئے انکے خیرخواہ کی حیثیت سے یہ تبدیلی بڑی خوش آئند تھی۔ بھلا اس سے اچھی بات اور کیا ہوسکتی تھی کہ ایک متکبر دین بیزار شخص تائب ہو اور دین کو پڑھنے سمجھنے میں لگ جائے؟ 
۔
خیر جناب ایک عرصہ گزر گیا۔ اس دوران ہمارا رابطہ بھی مصروفیت کے سبب ان سے ممکن نہ ہوسکا۔ زمانے بعد اچانک ملاقات ہوئی تو خیر و عافیت کے بعد ان کا مزاج پوچھا۔ یہ جان کر صدمہ ہوا کہ انہیں اب اپنی دنیا کا تکبر تو شائد نہ تھا مگر انکی گفتگو سے دینی علمیت کا تکبر ضرور عیاں ہورہا تھا۔ وہ دیگر اہل علم کو چھوٹا بتا کر مجھ پر یہ ثابت کررہے تھے کہ کیسے ان کے پائے کا کوئی صاحب علم موجود نہیں؟ میں اس اچانک ملاقات میں چاہ کر بھی کچھ کہہ نہ پایا لیکن میرا دل اس دوران چیخ چیخ کر کہتا رہا کہ بھائی تکبر سے بچو کہ یہ بڑے ترین جرائم میں سرفہرست ہے۔ اس تکبر میں سب سے غلیظ تر تکبر اپنی علمیت کا ہے اور شیطان کا سب سے کاری وار احساس پارسائی ہے۔ اگر علم نے تمہاری ذات میں اتر کر عجز و انکساری پیدا نہیں کی تو شائد وہ علم ہے ہی نہیں فقط معلومات ہے۔
۔
====عظیم نامہ====

No comments:

Post a Comment