بول ٹی وی

پچھلے دنوں بول ٹی وی پر ہونے والا واقعہ ہر خاص و عام کی زبان پر ہے. مجھ سے اس واقعہ پر ان گنت قارئین رائے طلب کرچکے ہیں. اسلئے سوچا کہ غیر متعصب ہوکر دیانتداری سے جو مجھے محسوس ہوا وہ لکھ دوں. مگر مجھے لگتا ہے کہ کسی بھی تجزیئے سے قبل اس واقعہ میں ملوث مختلف کرداروں پر اپنا مختصر تاثر بیان کردینا بہتر ہے. یہی تاثر اس سجائے ہوئے ڈرامے کے محرکات بیان کردے گا.
.
بول ٹی وی
=======
.
یہ ایک ایسا چینل ہے جو نہایت زور و شور سے انقلاب برپا کرنے کا دعویٰ کرکے میڈیا کی دنیا میں وارد ہوا اور جس نے نمائندہ ٹی وی چینلز کے نمائندہ چہروں کو زبردست پیکیج آفر کرکے اپنے ساتھ کر لیا. مگر پھر ابتداء ہی سے ایسی مشکلات میں گھرا کہ اب تک نکل نہیں پایا. اس سے منسلک بہت سے لوگ اسے چھوڑ گئے اور کئی کو متعدد ماہ کی تنخواہ تاخیر سے ملی یا نہیں ملی. ایسی صورتحال میں اس چینل کو ایسے پروگرامز اور اینکرز کی اشد ضرورت ہے جو اسے دوبارہ صف اول میں لا سکیں. عامر لیاقت کو دوبارہ موقع مل جانا ہمارے نزدیک اسی مقصد کے تحت ہے. پھر وہ اخلاقیات سے عاری پروگرام "ایسا نہیں چلے گا" ہو یا پھر آج اسلام کی آڑ میں "رمضان میں بول" جیسے مذہبی پروگرام ہوں. اصل مقصد اسی ٹی- آر - پی کا حصول ہے جسکی بول چینل کو آج اشد ضرورت ہے اور جسے حاصل کرنے کیلئے عامر میڈیا میں معروف ہیں.
.
عامر لیاقت
=======
.
عامر لیاقت باتوں کا بادشاہ ہے. میں انہیں اس وقت سے جانتا ہوں جب میڈیا پر وہ نظر بھی نہیں آئے تھے. ہم دونوں ہی فن خطابت سے منسلک رہے ہیں. گو عمر میں زیادہ ہونے کے سبب وہ میرے سینئر رہے. بحیثیت مقرر عامر لیاقت ایک بہت بڑا نام تھا جس نے 'تک بندی' اور 'منظر نگاری' کے ذریعے فن خطابت کو چار چاند لگائے. جب میں نے فن خطابت میں قدم رکھا تب عامر اس فن سے رخصت ہورہے تھے. مجھے بھی اس فن میں اچھا خاصہ نام حاصل ہوا اور ملکی سطح پر میں نے قریب قریب تمام نمائندہ اعزاز جیتے. جن دنوں عامر جیو ٹی وی پر 'عالم آن لائن' کی میزبانی کر رہے تھے. ان دنوں مجھے سرسید انجینئرنگ یونیورسٹی کے ڈائریکٹر اسٹوڈنٹ افیئرز آفس میں 'نائن زیرو' کی جانب سے رابطہ کیا گیا اور پیشکش ہوئی کہ چونکہ عامر کو ٹکٹ دے کر الیکشن میں متحدہ کی جانب سے کھڑا کیا جارہا ہے اسلئے تنظیم چاہتی ہے کہ "عالم آن لائن" کی میزبانی اب سے میں کروں. ظاہر ہے کہ یہ ایک بہت بڑی آفر تھی مگر میری طبیعت نے کبھی کسی سیاسی تنظیم کو اس لائق نہیں پایا کہ اس کا باقاعدہ فعال حصہ بن سکوں. لہٰذا اس بار بھی میں نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ میں گریجویشن کے فوری بعد ماسٹرز کیلئے انگلینڈ جا رہا ہوں اور ہوا بھی ایسا ہی. میں انگلینڈ آگیا اور عامر لیاقت نے دونوں ذمہ داریاں بخوبی نبھائی. 'عالم آن لائن' کے ذریعے اس نے نہ صرف شہرت کا آسمان چھولیا بلکہ اسے لامحالہ ایک مذہبی اسکالر بھی تسلیم کیا جانے لگا. حقیقت میں عامر ایک 'انٹر ٹینر' ہے جس کا واحد مقصد اپنا پروگرام اور نام بیچنا ہے. پھر وہ مذہبی پروگرام ہو یا پھر گیم شو .. کوئی فرق نہیں پڑتا. عامر لیاقت کا مذہبی رجحان بریلوی مکتب فکر اور اہل تشیع افراد کے اردگرد گھومتا ہے. لہٰذا غیرجانبداری یا مفاہمت کا چاہے کتنا ہی دعویٰ ہو؟ مقدمہ وہ یہی پیش کرتا آیا ہے اور کرتا رہے گا.
.
مولانا کوکب اکاڑوی
=============
.
مولانا کوکب کی دلفریب مسکراہٹ نے مجھے سب سے پہلے متاثر کیا تھا جو بعد میں ایک فریب نظر ثابت ہوا. غالباً ٢٠٠١ میں جیو ٹی وی پر ایک مذہبی پروگرام آیا کرتا تھا. زمانہ طالبعلمی میں مجھے تین دیگر طالبعلموں کے ساتھ ان کی پروگرام ریکارڈنگ میں ڈیفنس کراچی کے ایک بنگلے میں بھیجا گیا، جہاں ہم نے مولانا کے سامنے بیٹھ کر ان سے سوالات پوچھنے تھے. مایوسی اسوقت ہوئی جب سوالات پہلے سے ہی فکس کر دیئے گئے. گویا ہم نے پوچھنے کی اور مولانا نے بتانے کی ایکٹنگ کرنی تھی. خیر ہم نے اسے پروگرام مینجمنٹ کا حصہ سمجھ کر نظر انداز کیا. دوسری حیرانی اسوقت ہوئی جب مولانا کو خوب 'کیمرہ کونشئس' پایا. میک اپ سے لے کر کیمرہ پوزیشن تک میں وہ ایک ماہر محسوس ہوئے. میک اپ کی ٹچنگ وہ بتا بتا کر کروا رہے تھے. پروگرام سے قبل یا پروگرام کے بعد جب ان سے مصافحہ ہوا تو خلاف توقع ہمارے ساتھ موجود یونیورسٹی کے آفیسر نے میرا تعارف بحیثیت اچھے مقرر و طالبعلم کے مولانا کو دیا. ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ میں دیوبند کے اکابر علماء کے خاندان سے ہوں. یہ سنتے ہی مولانا کے چہرے پر ایک رنگ آیا اور انہوں نے مجھے مخاطب کرکے کہا کہ 'الحمدللہ میں دیوبندی نہیں ہوں.' اس وقت بھی ایک زہر آلود مسکراہٹ ان کے چہرے پر چسپاں تھی. کئی اور ایسے مواقع دیگر حاضرین نے محسوس کیئے جو مذہبی منافرت کا اشارہ دیتے تھے. میرے قلب و ذہن سے اسی دن ان کا نام اتر گیا. گو بہت سے بریلوی علماء ایسے ہیں جنہیں آج بھی پورے ذوق و شوق سے پڑھتا ہوں اور دل سے بحیثیت اہل علم انہیں قبول کرتا ہوں.
.
مولانا اسحٰق عالم
===========
.
اسحٰق بھائی سے واقفیت فیس بک کے ذریعے ہی ہوئی. سالوں سے ان سے تعلق برقرار ہے. سوشل میڈیا پر ان کا نام ہو یا ان کے دیگر بھائیوں کا نام جیسے فاروقی صاحب یا فرنود عالم بھائی - یہ سب میرے لئے قابل عزت ہیں. اسحٰق بھائی سے واحد طویل نشست ان کے گھر پر ہوئی تھی. جہاں بہت سی باتوں پر تبادلہ خیال ہوا. وہ مجھے ایک صلح جو اور روایت پسند دیوبندی حنفی عالم محسوس ہوئے.
.
مفتی حنیف قریشی
============
.
یہ بلاشبہ ایک زہین اور تیز بریلوی عالم دین ہیں جو اپنا مقدمہ تاریخی و فقہی حوالوں سے پیش کرنا بخوبی جانتے ہیں. البتہ ان کی ساری تگ و دو کسی اچھے مسلک پرست عالم کی طرح اپنے مسلک کو درست ثابت کرنے میں ہوتی ہے. اس حوالے سے ان کا مناظرانہ مزاج ناظرین سے ڈھکا چھپا نہیں. یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ شائد مولانا کوکب اکاڑوی بحیثیت اپنے مکتب فکر کے بڑے ہونے کی حیثیت سے کسی حد تک مفتی حنیف قریشی کا پروگرام میں مزاج بناتے ہیں.
.
قاری خلیل الرحمن جاوید
===============
.
قاری خلیل ایک کھرے اہل حدیث عالم محسوس ہوئے. آپ سے تعارف اس سے قبل نصیب نہیں تھا مگر ان دنوں میں بہت سے کلپس میں ان کی گفتگو سننے کو ملی جس سے ان کا قران اور صحیح حدیث کے نصوص پر مبنی طرز استدلال بہت خوب محسوس ہوا. البتہ ان کے لہجے کی کاٹ اور کچھ غیر محتاط الفاظ پروگرام میں گاہے بگاہے ایسے آتے رہے جن سے بریلوی اور شیعہ مکتب فکر کی سمجھ کو سختی سے جھٹلایا گیا. گویا وہ یوں بات نہیں کرتے تھے کہ اس حوالے سے اہل حدیث کی رائے یہ ہے. بلکہ آگے بڑھ کر وہ دوسرے مکاتب کی رائے کے بارے میں یہ بھی کہہ جاتے تھے کہ یہ بلکل غلط ہے. ان کا یہ انداز راقم نے اس آخری پروگرام سے بہت قبل محسوس کرلیا تھا اور اس ضمن میں ممکنہ تصادم بھی متوقع تھا. پروگرام میں اپنی رائے کو مقدم رکھنے کیلئے عامر لیاقت نے کئی بار کوشش کی مگر اس دوران قاری خلیل اپنی دو ٹوک رائے دے کر کسی بھی دوسرے شریک سے زیادہ شہرت پانے لگے. بلاخر وہ ہوا جس کا ڈر تھا. انہیں جس انداز میں کارنر کیا گیا اسے سمجھنے کیلئے آئین اسٹائن ہونا ضروری نہیں.
.
علامہ شبیر حسن
===========
.
آپ میڈیا پر اہل تشیع کی جانب سے ان گنت بار مدعو کئے جاچکے ہیں. انہیں بلانے کا ایک بڑا مقصد شائد یہی ہوتا ہے کہ یہ انتہائی صلح جو اور بناء کسی اختلاف میں پڑے اپنی مسلکی رائے بیان کرنے میں طاق ہیں. یہ اپنی بات اس انداز میں پیش کرتے ہیں، جس سے شیعہ نقطہ نظر بریلوی سنی نقطہ نظر کی موافقت کرتا ہوا محسوس ہو.
.
ڈاکٹر ذاکر نائیک
==========
.
ڈاکٹر ذاکر کے قد اور نام سے کون واقف نہیں؟ غیر مسلموں کو دعوت دینے کی ضمن میں جو خدمات آپ کی ہیں اس کی مثال حال یا ماضی میں ملنا مشکل ہے. میں خود انگلینڈ میں سالہا سال دعوت کے شعبے سے منسلک رہا ہوں اور دیانتداری سے کہتا ہوں کہ ساری دنیا میں دعوتی سرگرمیوں کو جو قوت ڈاکٹر ذاکر اور شیخ دیدات کی بدولت حاصل ہوئی ہے وہ بے مثال ہے. چاہے وہ ان کا طرز استدلال ہو، ان کی فراہم کردہ ٹریننگ ہو یا پھر دعوتی کتب. ایک زمانہ اس وقت ان سے استفادہ کررہا ہے اور شائد صدیوں کرتا رہے گا. کتنے ہی غیرمسلموں سے میں خود مل چکا ہوں جو اسلام لے آئے یا اسلام کے قریب آگئے کیونکہ انہوں نے ڈاکٹر ذاکر کی تقاریر سن لی تھیں. ڈاکٹر ذاکر صاحب سے جو غلطی ہوئی وہ یہ کہ انہیں بحیثیت داعی خود کو محدود رکھنا چاہیئے تھا. تاریخ اسلام کے واقعات کو موضوع بنانا یا فقہی باریکیوں میں الجھنا ان کے مرتبے کی بات نہ تھی. اس کیلئے پہلے ہی لاکھوں موجود تھے/ہیں. یہ دعوت دین کے علاوہ تاریخی واقعات ہی کو موضوع بنانے کا نتیجہ ہے کہ ان سے جلنے والو کو موقع حاصل ہوا کہ وہ ان کی کسی غلط سمجھ یا بات کو پکڑ کر ان کے تمام کام کو زیرو بتانے لگیں. اس بات سے قطع نظر کہ کیا درست کیا نہیں؟ یزید والی بحث انکے کرنے کی تھی ہی نہیں. البتہ جو فرقہ باز مولوی آج اسے بنیاد بنا کر ڈاکٹر ذاکر کو کافر بنانے پر تلے ہوئے ہیں. اگر انہیں ان ہی کے اکابر کے کفر بھرے جملے سنائے جائیں تو فوری تاویل کرنے لگیں گے. جو کل مرحوم جنید جمشید کی آنسو بھری توبہ کو بھی سن کر اسے قتل کرنے کے درپے تھے وہ آج عامر لیاقت کی توبہ کو فوری سینے سے لگانے کو تیار ہیں. دھیان رہے کہ یہی منافرت بقیہ مسالک میں بھی یونہی موجود ہے پھر وہ اہل حدیث ہوں، دیوبندی ہوں یا بریلوی.
.
====عظیم نامہ====
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment