قادیانی اور ہم
.
قران حکیم کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ کفار و مشرکین کا رویہ دعوت دین کی جانب استکبار اور استہزاء کا ہوا کرتا تھا. گویا جب رسولوں کے مخاطبین پر بات آخری درجے میں واضح ہوجاتی اور ان کے پاس دلائل کی بنیاد پر نہ ماننے کی وجہ نہ ہوتی، تب وہ استہزاء کا رویہ اپنا لیتے. وہ دلیل کا نہ مطالبہ کرتے اور نہ ہی دلیل پیش کرتے. اب وہ کبھی رسولوں کو تحقیر آمیز نام دیتے، کبھی کردار کشی کرتے، کبھی قہقہوں یا ڈھول تاشوں سے بات کو دبا دیتے، کبھی کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے، کبھی طنز و تشنیع کا سہارا لیتے، کبھی جسمانی تشدد کا نشانہ بناتے، کبھی مذاق اڑاتے اور کبھی گالیاں دیتے. ظاہر ہے ان کا یہ رویہ احقر درجے میں بھی علمی یا اخلاقی نہ تھا. اس کے برعکس قران حکیم نے جو مکالمہ کا طریق سکھایا وہ سراسر دلائل و براہین کی بنیاد پر ہے. قران صرف اپنے مقدمے کے اثبات میں دلائل ہی نہیں دیتا بلکہ وہ اپنے مخاطبین سے دلائل پیش کرنے کا مطالبہ بھی کرتا ہے. وہ کہتا ہے کہ تورات، انجیل یا کوئی اور ثبوت اپنی بات کے حق میں پیش کرو. وہ حکم دیتا ہے کہ خبردار لوگوں کے جھوٹے خداؤں تک کو گالی نہ دینا، وہ سمجھاتا ہے کہ پہلے متفق باتوں پر مجتمع ہونا پھر اختلافی بات پر آنا، وہ نصیحت کرتا ہے کہ انتہائی احسن انداز میں گفتگو کرنا اور اگر کوئی جہالت پر اتر آئے تو اسے سلام کہہ کر یعنی اسکے لئے سلامتی کی دعا کرکے اس سے الگ ہوجانا. یہ وہ مقام ہے جس پر قران اپنے ماننے والوں کو لے کر آتا ہے. گویا وہ ایک مہذب اور صحتمند مکالمہ کی فضاء کو ہموار کرتا ہے. گالیاں دینا، اپنے مخاطب کے پیش کردہ استدلال کو نہ سننا اور مخاطب کی تحقیر کرنا کسی صورت بھی ایک مومن کا طریق نہیں ہوسکتا. یہ انداز تو مشرکین مکہ یا کفار کا ہوا کرتا ہے.
.
افسوس یہ ہے کہ آج ہم نے بھی دعوت دین کا نام لے کر یہی روش اپنا رکھی ہے. سوشل میڈیا پر دیگر مذاہب یا مخالف مسالک سے بلعموم اور قادیانیوں سے بلخصوص یہی استہزاء کا رویہ اپنایا جاتا ہے. بجائے اس کے کہ انہیں دلائل سے ان کی غلطی سمجھائی جائے، ہم ان کی تضحیک و تحقیر کو اسلام کی خدمت سمجھ بیٹھتے ہیں. ہم مسلمان اس کے قائل ہیں کہ غلام احمد قادیانی اپنے دعوے میں کاذب ہے مگر وہ دین جو جھوٹے خدا کو گالی دینے سے روک رہا ہے، وہ جھوٹے نبی کو گالی دینے کی کیسے اجازت دے سکتا ہے؟ پھر یہ یاد رکھیں کہ آپ جب اپنے مخالف مخاطب کو گالی دیتے ہیں یا اس کے لئے کسی قابل احترم ہستی کو گالی دیتے ہیں تو دراصل آپ خود اپنے ہاتھ سے ممکنہ دعوت کے دروازے پر کنڈی لگادیتے ہیں جو کیا معلوم ؟ کل بارگاہ الہی میں قابل گرفت ہو. جب آپ اپنے مخاطب کی عزت نفس کو مجروح کرتے ہیں تو غصہ اور ضد میں آکر وہ اسے بھی تسلیم کرنے سے انکاری ہوجاتا ہے ، جسے وہ مہذب مکالمے کے ذریعے مان سکتا تھا. ہم یہ جانتے ہیں کہ عیسائی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ رسالت کو معاذ اللہ ثم معاذ اللہ جھوٹا قرار دیتے ہیں تو کیا انہیں بھی یہ اختیار ہونا چاہیئے کہ اپنے ممالک میں ہمارے ساتھ وہی رویہ اختیار کریں جو مسلم جھوٹی نبوت کے قائل ایک قادیانی کے ساتھ اپناتا ہے؟
.
مگر افسوس ہمارا معاملہ تو آج یہ ہے کہ ہم انکی عبادت گاہوں کو نعرہ رسالت لگا کر مسمار کرتے ہیں اور خوشی سے پھول جاتے ہیں کہ دین کی خدمت انجام دی گئی ہے. ہماری روش یہ ہے کہ ہم اپنی دکانوں پر یہ لکھ کر لگا دیتے ہیں کہ یہاں قادیانیوں کا داخلہ ممنوع ہے. اگر ایسا کرکے کوئی سمجھتا ہے کہ قادیانیت کا فتنہ کمزور ہورہا ہے تو یہ پرلے درجے کی غلط فہمی ہے. قادیانیوں پر کسی بھی قسم کی پابندی یا اقدام حکومت کی جانب سے ہی ہونا چاہیئے. فرد اس کا مکلف نہیں کہ وہ جہاں قادیانی دیکھے اس پر چڑھ دوڑے. اصل بات یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر دوران بحث اپنے نفس کو موٹا کرتے ہیں اور سمجھتے یہ ہیں کہ امر بالمعروف یا نہی عن المنکر کا فریضہ انجام پارہا ہے. ہماری نیت انہیں دین کا پیغام پہنچا کر واپس اسلام میں لانے کی ہونی چاہیئے، انہیں شکست دینے کی نہیں. لہٰذا انہیں صریح انداز میں غیر مسلم ہی سمجھیں، حکومتی سطح پر اس کا اہتمام کریں کہ ایک قادیانی خود کو مسلم نہیں بلکہ قادیانی یا احمدی کے نام سے ہی دستاویز میں ظاہر کرنے کا پابند ہو، مگر خدارا ان پر اپنی نفرت سے دعوت کے دروازے بند نہ کریں بلکہ اہل علم سے ان پر بناء تذلیل کیئے دلیل سے بات کی وضاحت کا اہتمام کریں. جس نے جھوٹا دعویٰ کیا تھا وہ موت سے ہمکنار ہوکر اپنی شامت اعمال تک جاپہنچا. آج کئی نسلوں بعد پیدا ہونے والا قادیانی ویسے ہی موروثی طور پر قادیانی ہے جیسے ایک ہندو کے گھر میں پیدا ہونے والا ہندو. جس طرح اور جس انداز میں ایک ہندو، سکھ یا عیسائی ہماری دعوت کا مستحق ہے ویسے ہی مستحق ہماری دانست میں ایک قادیانی بھی ہے.
.
====عظیم نامہ====
.(نوٹ: ہم واقف ہیں کہ یہ ہمارے معاشرے میں ایک ایسا حساس موضوع ہے جو قارئین میں سے کچھ کو ہمارے خلاف بھی مشتعل کرسکتا ہے اور شائد ہم پر تکفیر کا سبب بھی بن سکتا ہے. اسکے باوجود یہ تحریر اس امید کے ساتھ لکھ دی ہے کہ کیا معلوم کچھ اذہان ایسے بھی ہوں جو ہماری اس بات کو سمجھیں اور اپنے رویئے پر نظر ثانی کریں؟)
قران حکیم کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ کفار و مشرکین کا رویہ دعوت دین کی جانب استکبار اور استہزاء کا ہوا کرتا تھا. گویا جب رسولوں کے مخاطبین پر بات آخری درجے میں واضح ہوجاتی اور ان کے پاس دلائل کی بنیاد پر نہ ماننے کی وجہ نہ ہوتی، تب وہ استہزاء کا رویہ اپنا لیتے. وہ دلیل کا نہ مطالبہ کرتے اور نہ ہی دلیل پیش کرتے. اب وہ کبھی رسولوں کو تحقیر آمیز نام دیتے، کبھی کردار کشی کرتے، کبھی قہقہوں یا ڈھول تاشوں سے بات کو دبا دیتے، کبھی کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے، کبھی طنز و تشنیع کا سہارا لیتے، کبھی جسمانی تشدد کا نشانہ بناتے، کبھی مذاق اڑاتے اور کبھی گالیاں دیتے. ظاہر ہے ان کا یہ رویہ احقر درجے میں بھی علمی یا اخلاقی نہ تھا. اس کے برعکس قران حکیم نے جو مکالمہ کا طریق سکھایا وہ سراسر دلائل و براہین کی بنیاد پر ہے. قران صرف اپنے مقدمے کے اثبات میں دلائل ہی نہیں دیتا بلکہ وہ اپنے مخاطبین سے دلائل پیش کرنے کا مطالبہ بھی کرتا ہے. وہ کہتا ہے کہ تورات، انجیل یا کوئی اور ثبوت اپنی بات کے حق میں پیش کرو. وہ حکم دیتا ہے کہ خبردار لوگوں کے جھوٹے خداؤں تک کو گالی نہ دینا، وہ سمجھاتا ہے کہ پہلے متفق باتوں پر مجتمع ہونا پھر اختلافی بات پر آنا، وہ نصیحت کرتا ہے کہ انتہائی احسن انداز میں گفتگو کرنا اور اگر کوئی جہالت پر اتر آئے تو اسے سلام کہہ کر یعنی اسکے لئے سلامتی کی دعا کرکے اس سے الگ ہوجانا. یہ وہ مقام ہے جس پر قران اپنے ماننے والوں کو لے کر آتا ہے. گویا وہ ایک مہذب اور صحتمند مکالمہ کی فضاء کو ہموار کرتا ہے. گالیاں دینا، اپنے مخاطب کے پیش کردہ استدلال کو نہ سننا اور مخاطب کی تحقیر کرنا کسی صورت بھی ایک مومن کا طریق نہیں ہوسکتا. یہ انداز تو مشرکین مکہ یا کفار کا ہوا کرتا ہے.
.
افسوس یہ ہے کہ آج ہم نے بھی دعوت دین کا نام لے کر یہی روش اپنا رکھی ہے. سوشل میڈیا پر دیگر مذاہب یا مخالف مسالک سے بلعموم اور قادیانیوں سے بلخصوص یہی استہزاء کا رویہ اپنایا جاتا ہے. بجائے اس کے کہ انہیں دلائل سے ان کی غلطی سمجھائی جائے، ہم ان کی تضحیک و تحقیر کو اسلام کی خدمت سمجھ بیٹھتے ہیں. ہم مسلمان اس کے قائل ہیں کہ غلام احمد قادیانی اپنے دعوے میں کاذب ہے مگر وہ دین جو جھوٹے خدا کو گالی دینے سے روک رہا ہے، وہ جھوٹے نبی کو گالی دینے کی کیسے اجازت دے سکتا ہے؟ پھر یہ یاد رکھیں کہ آپ جب اپنے مخالف مخاطب کو گالی دیتے ہیں یا اس کے لئے کسی قابل احترم ہستی کو گالی دیتے ہیں تو دراصل آپ خود اپنے ہاتھ سے ممکنہ دعوت کے دروازے پر کنڈی لگادیتے ہیں جو کیا معلوم ؟ کل بارگاہ الہی میں قابل گرفت ہو. جب آپ اپنے مخاطب کی عزت نفس کو مجروح کرتے ہیں تو غصہ اور ضد میں آکر وہ اسے بھی تسلیم کرنے سے انکاری ہوجاتا ہے ، جسے وہ مہذب مکالمے کے ذریعے مان سکتا تھا. ہم یہ جانتے ہیں کہ عیسائی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ رسالت کو معاذ اللہ ثم معاذ اللہ جھوٹا قرار دیتے ہیں تو کیا انہیں بھی یہ اختیار ہونا چاہیئے کہ اپنے ممالک میں ہمارے ساتھ وہی رویہ اختیار کریں جو مسلم جھوٹی نبوت کے قائل ایک قادیانی کے ساتھ اپناتا ہے؟
.
مگر افسوس ہمارا معاملہ تو آج یہ ہے کہ ہم انکی عبادت گاہوں کو نعرہ رسالت لگا کر مسمار کرتے ہیں اور خوشی سے پھول جاتے ہیں کہ دین کی خدمت انجام دی گئی ہے. ہماری روش یہ ہے کہ ہم اپنی دکانوں پر یہ لکھ کر لگا دیتے ہیں کہ یہاں قادیانیوں کا داخلہ ممنوع ہے. اگر ایسا کرکے کوئی سمجھتا ہے کہ قادیانیت کا فتنہ کمزور ہورہا ہے تو یہ پرلے درجے کی غلط فہمی ہے. قادیانیوں پر کسی بھی قسم کی پابندی یا اقدام حکومت کی جانب سے ہی ہونا چاہیئے. فرد اس کا مکلف نہیں کہ وہ جہاں قادیانی دیکھے اس پر چڑھ دوڑے. اصل بات یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر دوران بحث اپنے نفس کو موٹا کرتے ہیں اور سمجھتے یہ ہیں کہ امر بالمعروف یا نہی عن المنکر کا فریضہ انجام پارہا ہے. ہماری نیت انہیں دین کا پیغام پہنچا کر واپس اسلام میں لانے کی ہونی چاہیئے، انہیں شکست دینے کی نہیں. لہٰذا انہیں صریح انداز میں غیر مسلم ہی سمجھیں، حکومتی سطح پر اس کا اہتمام کریں کہ ایک قادیانی خود کو مسلم نہیں بلکہ قادیانی یا احمدی کے نام سے ہی دستاویز میں ظاہر کرنے کا پابند ہو، مگر خدارا ان پر اپنی نفرت سے دعوت کے دروازے بند نہ کریں بلکہ اہل علم سے ان پر بناء تذلیل کیئے دلیل سے بات کی وضاحت کا اہتمام کریں. جس نے جھوٹا دعویٰ کیا تھا وہ موت سے ہمکنار ہوکر اپنی شامت اعمال تک جاپہنچا. آج کئی نسلوں بعد پیدا ہونے والا قادیانی ویسے ہی موروثی طور پر قادیانی ہے جیسے ایک ہندو کے گھر میں پیدا ہونے والا ہندو. جس طرح اور جس انداز میں ایک ہندو، سکھ یا عیسائی ہماری دعوت کا مستحق ہے ویسے ہی مستحق ہماری دانست میں ایک قادیانی بھی ہے.
.
====عظیم نامہ====
.(نوٹ: ہم واقف ہیں کہ یہ ہمارے معاشرے میں ایک ایسا حساس موضوع ہے جو قارئین میں سے کچھ کو ہمارے خلاف بھی مشتعل کرسکتا ہے اور شائد ہم پر تکفیر کا سبب بھی بن سکتا ہے. اسکے باوجود یہ تحریر اس امید کے ساتھ لکھ دی ہے کہ کیا معلوم کچھ اذہان ایسے بھی ہوں جو ہماری اس بات کو سمجھیں اور اپنے رویئے پر نظر ثانی کریں؟)
No comments:
Post a Comment