Monday, 4 June 2018

پاک چین دوستی - زندہ باد


پاک چین دوستی - وان سوئے - پاک چین دوستی - زندہ باد 


No automatic alt text available.
.
اس میں کوئی شائبہ نہیں ہے کہ قیام پاکسان سے لے کر آج تک، اگر گنتی کے چند ممالک پاکستان کے حقیقی دوست کہلائے جاسکتے ہیں تو ان میں سرفہرست نام چین کا ہے. ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ دوستی بھی اپنے مفادات پر بڑی حد تک منحصر رہی ہے. دونوں ممالک نے ایک دوسرے سے ان گنت مفاد حاصل کیئے ہیں. چین کیلئے پاکستان کی دوستی اسلئے بھی اہم رہی ہے کہ وہ خطے میں بھارت کی اجارہ داری اور اسکی آڑ می امریکہ کا اثر و رسوخ قائم نہیں ہونے دینا چاہتا. ظاہر ہے ایسے میں پاکستان جیسا دوست اسکے لئے نعمت ہے. دوسری طرف پاکستان کیلئے تو یہ دوستی اور بھی اہم تر ہے. وجہ اس کے امریکہ، انڈیا، اسرائیل جیسے طاقتور دشمن ہیں جو اسکے وجود و استحکام کیلئے ہمیشہ خطرہ بنے رہے ہیں. ایسے میں چین جیسے مضبوط ملک کا ساتھ پاکستان کیلئے بن الاقوامی سطح پر انتہائی تقویت کا سبب رہا ہے. سیاسی سپورٹ سے لے کر معاشی امداد تک اور دفاعی آلات کی فروخت سے لے کر ٹیکنالوجی میں خودکفالت تک - چین ہمارا زبردست ساتھی بنا رہا ہے. ایسے میں اس ساتھ کو شکرگزاری سے نہ دیکھنا بلکہ مفاد پرستی کا طعنہ دیتے رہنا شائد درست روش نہیں. یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ چین ایک کمیونسٹ ملک ہے اور کمیونزم اپنی اصل میں مذہب مخالف رہا ہے. لہٰذا چین کے پاکستان سے تعلق کو وہاں مذہبی جبر و پابندی سے جوڑ کر دیکھنا ٹھیک نہیں. اس سے ہمارا ساتھ ایک 'اسٹریٹجک پارٹنر' کا ہے، چانچہ اس سے امید بھی 'اسٹریٹجک' فوائد سے متعلق ہی کی جاسکتی ہیں.
.
حال میں سی-پیک کے حوالے سے باسٹھ بلین ڈالرز کی خطیر سرمایہ کاری پاکستان میں کی گئی ہے. گوادر کی تعمیر میں بہت سال ایسے گزرے جب ہمارے پاکستانی حکمرانوں نے کرپشن کرکرکے اس پروجیکٹ کو التواء میں ڈال دیا. چینی سرمایہ کاری سے آئی مشینری کو زنگ لگ گیا مگر ہم نے ہفتوں کا کام سالوں میں انجام دیا. بلآخر پاکستانی فوج نے ذمہ داری لی اور چین سے ازسر نو معائدے کیئے. انڈیا اور امریکہ سے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ہے کہ گوادر سمیت اس سی-پیک پروجیکٹ کو سبوتاز کیا جاسکے مگر تاحال وہ اس میں ناکام رہے ہیں. بہت سے دانشوروں کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ چین کی یہ سرمایہ کاری وہی صورت اختیار نہ کرلے جو آزاد ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے کی تھی اور پاکستان چین کی کالونی بن کر نہ رہ جائے. اس کیلئے وہ چین کی ہانگ کانگ والی مثال بھی پیش کرتے ہیں اور موجودہ شرائط و ضوابط میں پاکستان کی لاچارگی بھی ظاہر کرتے ہیں. یہ واقعی پریشانی کے لائق ہے مگر اسکے لئے ہمیں اپنے فوجی و سیاسی حکمرانوں کو تفصیل پیش کرنے پر مجبور کرنا ہوگا. اسے بنیاد بناکر چین سے اور ان کے پاکستان میں موجود چینی اہلکاروں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنا درست نہیں. ہم جانتے ہیں کہ حال ہی میں چینی اہلکاروں کی جانب سے طرح طرح کے ناخوشگوار واقعات پیش آئے ہیں. جن میں بدمعاشی سے لے کر چوری تک شامل ہیں. ہمیں قانونی اداروں کو بناء تخصیص کاروائی کرنے کا پابند کرنا چاہیئے. لیکن جہاں کچھ چینیوں کا یہ رویہ قابل مذمت ہے وہاں ہم پاکستانیوں کا ان سے نفرت انگیز کھچاؤ سا رکھنا بھی اچھی بات نہیں. یہ ہمارا مشاہدہ رہا ہے کہ چینی اہلکاروں سے ہم بھی کچھ کھنچے ہوئے سے ہیں اور انہیں اس نظر سے دیکھ رہے ہیں جیسے وہ قبضہ کرنے آئے ہوں. بازار یا ائیرپورٹ پر میں نے ان چینیوں کو تنہا اجنبی بنے ہوئے دیکھا، جن سے مسکرا کر گپ شپ کرنا مفقود نظر آیا. اس نفرت سے فاصلے تو بڑھیں گے مگر صورتحال بہتر نہیں ہوگی. ضروری ہے کہ ہم چینیوں سمیت ہر غیرملکی کو محبت دیں، تب ہی سیاحت سے لے کر بین الاقوامی سرمایہ کاری میں پاکستان کی پوزیشن بہتر ہوسکے گی. طعنے اور حقارت آمیز جملے کسنا گھٹیا بات ہے جیسے 'یہ سالے کتے اور سانپ کھانے والے چپٹے ہمیں سمجھائیں گے' .. (یہ اور بات کہ کتے اور گدھے کا گوشت کھانے میں تو اب ہم بھی خود کفیل ہیں)
.
====عظیم نامہ====

No comments:

Post a Comment