صدقے کا بکرا
.

۔
'صدقہ' مادہ لفظ 'صدق' سے وجود پذیر ہوا ہے. جسکے معنی سچائی و اخلاص کے ہیں. اسی لفظ صدق سے صادق، صداقت، صدیق وغیرہ بھی تشکیل پائے ہیں. اسلامی لحاظ سے صدقہ وہ مال یا عمل ہے جو آپ صدق نیت و اخلاص سے فقط خوشنودی رب کیلئے انجام دیتے ہیں. اسکے سوا مخلوق سے اس صدقے کے بدلے کی آپ کے دل میں کوئی توقع نہیں ہوتی. آج کل یہ جملہ عام ہے کہ 'بھائی آج کل نیکی کا زمانہ نہیں رہا' - درحقیقت ایسا کہہ کر آپ یہ ثابت کررہے ہوتے ہیں کہ آپ کی کی گئی بظاہر نیکی صرف اللہ کیلئے نہیں تھی بلکہ آپ اسکا صلہ مخلوق سے چاہتے ہیں. یہ ملاوٹ نیکی اور صدقے دونوں کے سراسر منافی ہے. یہ حقیقت ہے کہ صدقہ کا ایک بہت بڑا مظہر آپ کا مال خرچ کرنا ہے مگر صدقہ فقط مال تک محدود نہیں. کسی کے زخموں پر تسلی کا مرہم رکھنا بھی صدقہ ہے، کسی کو اچھا مشورہ دینا بھی صدقہ ہے، کسی کی تعلیم و تربیت کرنا بھی صدقہ ہے اور کسی دکھی دل کو مسکراہٹ دینا بھی صدقہ ہے. ایک غلط فہمی برصغیر پاک و ہند کے بہت سے مسلمانوں کو یہ ہوگئی ہے کہ شائد صدقے کا بکرا ہی ہوتا ہے. ہر جگہ آپ کو اشتہار نظر آئیں گے کہ یہاں صدقے کا بکرا دستیاب ہے. یہ لکھا ہوا نہیں ملے گا کہ یہاں صدقے کی گائے، صدقے کا بیل، صدقے کا اونٹ وغیرہ دستیاب ہے. سارا زور صدقے کے بکرے پر ہی ہوگا. احادیث سے اشارہ ملتا ہے کہ صدقہ بلاؤں کو ٹالتا ہے. لہٰذا مسلمان جب مصائب میں گھرتا ہے تو ہر صاحب نظر اسے صدقہ کرنے کی تلقین کرتا ہے. اب ماجرہ یہ ہے کہ اس صدقہ کرنے سے جو مراد عوام الناس کی بڑی تعداد لیتی ہے وہ کسی بکرے کو بلکہ کچھ کے نزدیک سیاہ بکرے کو چھری تلے لانا ہے اور پھر اسکے گوشت کو غرباء میں تقسیم کرنا ہے۔ بکرے کو ذبح کرکے اس کا گوشت صدقہ کرنا بلکل غلط نہیں ہے مگر فقط اسی کو صدقہ سمجھ کر دیگر صدقات کی صورت سے گریز کرنا درست نہیں۔
۔
حال ہی میں ایک صاحب علم نے اس ضمن میں بڑی اچھی توجہ یہ دلائی کہ جس مالیت سے بکرا خریدا جاتا ہے، اسی رقم سے سے کئی بار یہ بھی ممکن ہوتا ہے کہ کسی بیروزگار کی روزی کا اہتمام ہوسکے یا کسی بیمار و نادار کا علاج ہوسکے یا پھر کسی قرض تلے دبے غریب کا قرضہ اتر سکے۔ لیکن دینے والا ایسے کسی آپشن پر غور ہی نہیں کرتا کہ اس نے لامحالہ اپنے ذہن میں یہ بیٹھا لیا ہے کہ صدقے کا مطلب صدقے کا بکرا ہے۔ پھر اگر ضرورتمندوں کو گوشت ہی کھلانا خواہش ہے تو اسی پیسوں میں بعض اوقات پوری گائے میسر ہوجاتی ہے جس سے تین چار گنا زیادہ افراد مستفید ہوسکتے ہیں۔ مگر لاشعور کی وہی غلط سوچ خرچ کرنے والے کو اس سے مانع رکھتی ہے کہ صدقے کی گائے نہیں ہوتی بلکہ صدقے کا تو بکرا ہی ہوتا ہے۔ دھیان رہے کہ ہم قطعی یہ نہیں کہہ رہے کہ بکرا صدقہ کرنا ٹھیک نہیں یا ثواب نہیں بلکہ ہم اپنے قاری کو صرف اتنی توجہ دلارہے ہیں کہ صدقات کی دیگر صورتوں کو بھی ذہن میں ہونا چاہیئے۔ اسکے بعد جو حالات و اسباب کی مناسبت سے زیادہ معقول محسوس ہو اسے اختیار کرلیا جائے۔
۔
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment