آنے والا دور ..
.
اس دنیا میں دو طرح کے علوم موجود ہیں. پہلے مادی علوم اور دوسرے نفسی علوم. جس دور میں ہم زندہ ہیں، یہ مادی علوم کے عروج کا دور ہے. نیوٹن کی کلاسیکل فزکس سے آئین اسٹائن کی ماڈرن فزکس تک، ایک انقلاب ہے جو ان مادی علوم میں برپا ہوا ہے. جس کے نتیجے میں انسان نے وہ وہ ایجادات کی ہیں جو محیر العقل ہیں. اس کے برعکس نفس سے متعلق علوم بدقسمتی سے کوئی مربوط صورت اختیار نہیں کرسکے. بہت سے افراد مختلف نفسی علوم کے ماہرین تصور کیئے جاتے ہیں مگر ان میں سے اکثر خود کو کبھی پراسراریت اور کبھی مذہبی چوغے میں ملبوس رکھتے ہیں. گویا ان نفسی علوم کو باقاعدہ اکیڈمک اسٹرکچر میں لانے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی. نتیجہ یہ کہ ایسے ڈھونگی افراد کو راستہ ملا جو لوگوں کو بیوقوف بناکر اپنا الو سیدھا کرنا جانتے ہیں. سائیکولوجی ایک ایسا اکیڈمک مضمون بنا ہے جس میں علمی و سائنسی سطح پر خاصی پیش رفت ہوئی ہے. گو دیگر سائنسز کے مقابلے میں سائیکولوجی کو 'نیو بورن بے بی' یا نومولود تصور کیا جاتا ہے.
.
اسی طرح مغرب میں 'میٹا فزکس' یا 'پیرا نارمل ایکٹویٹیز' پر سائنسی طرز پر تحقیق کی کوشش کی جارہی ہے. پھر چاہے وہ 'ریکی' کے ذریعے نفسی علاج ہو، 'چی' کی طاقت کا استعمال ہو، 'ریموٹ ویوینگ' کے ذریعے آنکھیں بند کرکے دیکھنا ہو، یا 'میڈی ٹیشن' کے ذریعے اپنے لاشعور سے ملاقات ہو. نجی سطح پر ان پر کام جاری ہے. گو مادی یعنی 'فزیکل سائنسز' کے وہ علمبردار جو انسانی وجود کے پوٹنشیل کو فقط معلوم مادی اصولوں میں مقید رکھنا چاہتے ہیں، ان کے نزدیک یہ تمام دیگر علوم یا تحقیق 'سوڈو سائنسز' یعنی جعلی سائنس میں شمار ہوتی ہیں. ان تجربات میں شائد سب سے زیادہ کامیابی 'ہپناسس' یا 'ہپناٹزم' کے سبجیکٹس کو حاصل ہوئی ہے. اب نہ صرف ہپناسس یونیورسٹیوں میں پڑھایا جارہا ہے بلکہ اسے نفسی علاج اور برین پراگرمنگ کیلئے باقاعدہ اپنایا جاچکا ہے. اس صدی میں 'کوانٹم مکینکس' کی آمد نے جہاں ماڈرن فزکس یعنی 'تھیوری آف ریلیٹویٹی' کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں. وہاں یہ امکان بھی پیدا کردیا ہے کہ مادی علوم اور نفسی علوم میں آج نہیں تو کل ایک ایسا پل قائم ہوسکے جسے سائنس کی تائید حاصل ہو. اگر آج کا دور مادی علوم کے عروج کا دور ہے تو کیا معلوم آنے والا دور نفسی علوم کی بلندیوں کا ہو؟
.
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے، لب پہ آ سکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی ؟
.
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment