کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے ..
.

میں آپ سے یہ وعدہ تو کرسکتا ہوں کہ ہمیشہ وہی لکھوں گا جسے پوری دیانت سے میں سچ سمجھتا ہوں. مگر میں یہ وعدہ قطعی نہیں کرسکتا کہ ہمیشہ وہی لکھوں گا جسے پوری دیانت سے آپ سچ سمجھتے ہیں. پھر میں بارگاہ خداوندی میں اس کا مکلف تو ہوں کہ میں کیا لکھ رہا ہوں؟ مگر اس کا ذمہ دار نہیں ہوں کہ اس سے آپ کیا مطلب نکال رہے ہیں؟ میں دانستہ اپنے سچ سے آپ کو گمراہ نہیں کروں گا مگر الفاظ خالی برتن کی مانند ہوتے ہیں، انہیں مفہوم ہم عطا کرتے ہیں. مجھ سمیت ہر انسان کے لکھے یا کہے میں غلطی کا احتمال ہوا کرتا ہے. لہٰذا لازمی نہیں کہ سچ بولنے والا اپنی سمجھ میں درست بھی ہو. ممکن ہے کہ اس نے سچائی کا ایک ہی زاویہ دیکھا ہو یا پھر اسے نتیجہ قائم کرنے میں غلطی لگ گئی ہو مگر وہ اسی غلط نتیجے کو پوری سچائی سے درست مان رہا ہو. گویا ایک شخص اپنی کسی سمجھ میں بیک وقت سچا اور غلط دونوں ہوسکتا ہے. کسی اور کا سچ میرا سچ بنے، یہ قطعی ضروری نہیں. ہم سب کو بس وہی بیان کرنا ہے جو ہم پر 'سچ' بن کر واضح ہوگیا ہے. میں اپنے سچ کو اسی وقت تک تھامے رکھوں گا جب تک اس سے برتر سچ میرے سامنے نہ آجائے. اگر کسی معاملے میں برتر سچ کا مجھے سامنا ہو تو لازم ہے کہ میں بعد از تحقیق اپنا سابقہ سچ چھوڑ دوں اور اس نئے سچ کو لپک کر قبول کرلوں. بعض لوگ سچ کڑوا ہوتا ہے، سچ کڑوا ہوتا ہے کی رٹ لگا کر ہر طرح کی بد تہذیبی کیئے جاتے ہیں. انہیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اکثر سچ کڑوا نہیں ہوتا بلکہ سچ بولنے والے کا انداز اور غلط الفاظ کا انتخاب اسے کڑوا بنا دیتا ہے. کڑوی سے کڑوی بات بھی اگر تہذیب اور شائستگی سے کی جائے تو اس میں شیرنی گھل جاتی ہے. اسکی سب سے بڑی مثال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہے جنہوں نے ہمیشہ سچ بولا مگر کبھی کڑوا نہ بولا. اگر آپ سچ بولنے کی آڑ میں مخاطب کی دل آزاری کا سبب بن رہے ہیں تو جان لیجیئے، یہ سچ کا پرچار نہیں بلکہ آپ کی انا کی تسکین کا سامان ہے.
.
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment