دہرا عذاب

.
ہم مشاہدہ رکھتے ہیں کہ موت کے ایام میں ہر جانور ایک سخت تکلیف کا سامنا کرتا ہے. اس کے اندرونی و بیرونی اعضاء ایک ایک کرکے ناکارہ ہونے لگتے ہیں تو اس پر ایک ایسا عذاب گزرتا ہے جسے اس سے پہلے اس نے کبھی نہ بھگتا تھا. کسی جانور کو اس تکلیف دہ عمل سے گزرتا دیکھنا، فطری طور پر انسان کو رنجیدہ کردیتا ہے. وہ اس کی چیخوں اور اذیت کو اپنی سابقہ جمسانی تکالیف یاد کرکے کسی حد تک سمجھ پاتا ہے. مگر انسان کی اپنی موت کا معاملہ ذرا الگ ہے.
.
سوچتا ہوں کہ موت کے وقت انسان دہری اذیت سے گزرتا ہے. جہاں اس کا جسمانی وجود شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا ہے، وہاں اس کا نفسیاتی شاکلہ بھی ایک ناقابل بیان کرب سے گزرتا ہے. گویا اسے اس جسمانی اذیت کا تو سامنا ہوتا ہی ہے جو دیگر حیوانات کو پیش آتی ہے. مگر ساتھ ہی چونکہ وہ اپنی شخصیت میں عقلی اور جذباتی دونوں پہلو رکھتا ہے، لہٰذا اسے حالت مرگ میں ایک نفسیاتی دوزخ کا بھی سامنا ہوتا ہے. اسے اپنی زندگی کا اختتام سوچ کر دہشت طاری ہونے لگتی ہے، اپنی اولاد و دیگر گھر والو کی ذمہ داریاں یاد کرکے اس کا کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے، مہلت ختم ہوئی اور حیات بعد الموت کسی بھی لمحہ شروع ہونی ہے .. یہ سوچ اسے ہلکان کررہی ہوتی ہے. اس کی یادداشت اسے تمام ادھوری خواہشات اور نامکمل تمناؤں کی حسرت انگیز تصویر دیکھاتی ہے. غرض اکثر صورتوں میں اس کا یہ نفسیاتی کرب اسکی جسمانی اذیت سے زیادہ خوفناک ہوتا ہے. اس دہرے عذاب سے شائد چھوٹی عمر کے اطفال (بچے) کسی درجے محفوظ رہتے ہیں. ان کی عقل، جذبات، احساسات چونکہ ابھی پوری طرح تشکیل نہیں ہو پائے ہوتے لہٰذا ان پر بھی حیوانات کی مانند فقط جبلت غالب ہوتی ہے. آسان الفاظ میں بچے بالخصوص نومولود اسی یکطرفہ تکلیف سے گزرتے ہیں جس سے حیوانات بیماری یا موت کے وقت دوچار ہوتے ہیں اور اس دہری اذیت سے بچ جاتے ہیں جس سے ایک عاقل انسان کو گزرنا پڑتا ہے. شائد یہی خالص جبلت و فطرت کا ہونا ہے جس کی وجہ سے بچے اور جانور تکالیف، دکھوں یا رنجشوں کو بہت جلد بھول جاتے ہیں.
.
====عظیم نامہ====
.
(نوٹ: یہاں ایک فرضی اور عمومی موت کی مثال لی گئی ہے اور امکانات پر غیر مذہبی طرز فکر سے سوچا گیا ہے. لہٰذا یہاں نہ تو ہر طرح کی اموات جیسے حادثاتی موت یا قتل وغیرہ کا تجزیہ کیا گیا ہے اور نہ ہی موضوع یہ ہے کہ مومن اور کافر کے مابین حالت نزاع میں کیا نفسیاتی فرق ہوتا ہے؟)
No comments:
Post a Comment