تاریخ اسلام اور تقدیس صحابہ اکرام رضوان اللہ عنہم اجمعین
.
پچھلے کئی سالوں میں سوشل میڈیا پر میں نے ان گنت متفرق موضوعات پر تحریریں لکھی ہیں. دین اسلام سے لے کر تقابل ادیان تک، فلسفہ سے لے کر سائنسی موضوعات تک، سیاست سے لے کر سماجیات تک، حالات حاضرہ سے لے کر ادب تک، الحاد سے لے کر انکار حدیث تک، ملکی سلامتی سے لے کر معروف شخصیات تک - ہر ہر موضوع پر میں کافی کچھ لکھتا آیا ہوں. لیکن وصال رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کی تاریخ کو میں نے کبھی شاذ ہی موضوع بنایا ہو. وجہ ؟ وجہ یہ کہ اس تاریخ میں کئی نامور شخصیات اور کئی معروف واقعات کے بارے میں کسی حتمی نتیجے پر پہنچنا قریب قریب ناممکن ہے. اگر بات فقط انسانی تاریخ تک محدود ہوتی تو میں پھر قلم اٹھاتے ہوئے اتنا نہ جھجھکتا لیکن یہاں معاملہ ان شخصیات و واقعات کا ہے جن سے لوگوں کی وابستگی دین کے حوالے سے ہے. گویا اول تو کسی حتمی نتیجے پرپہنچنا یعنی اس کی صحت پر سو فیصد مطمئن ہونا ممکن نہیں اور دوسرا میرا قائم کردہ یہ نتیجہ میرے ساتھی مسلمان کے دل کو چھلنی کرسکتا ہے. جی ہاں میرا اشارہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی جانب ہے. جن سے قلبی تعلق ہر کلمہ گو کو نسبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سبب ہوا کرتا ہے. ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی شخص خود کو مسلمان بھی کہے اور اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم ترین مرتبت کو اپنے دل میں بھی محسوس نہ کرے. فریقین میں مسئلہ اس بات کا نہیں ہے کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی جائے یا نہیں؟ جھگڑا اس بات کا ہے کہ فلاں شخص صحابی ہے بھی یا نہیں؟ گویا جب ایک شخص کسی مشہور تاریخی شخصیت کی مخالفت میں بولتا ہے تو سب سے پہلے وہ اس کو صحابی کے درجے پر فائز ہی نہیں سمجھتا. اس کے نزدیک وہ شخصیت یا تو کبھی اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں شامل ہی نہ تھی یا اگر تھی بھی تو بعد میں ارتداد اختیار کرنے کے سبب شامل نہ رہی. اب اپنے اس دعوے یا نتیجے میں وہ جزوی یا کلی طور پر غلط تو ہوسکتا ہے مگر اس کی نیت کو غلط سمجھنا شائد درست نہ ہو.
.
میں ہاتھ جوڑ کر اپنے قارئین سے استدعا کرتا ہوں کہ وہ جذباتی ہوئے بناء ٹھنڈے دماغ سے اپر درج بات پر غور کریں. یہ بھی سوچیں کہ صحابی ہوتا کون ہے؟ اس تعریف میں بھی اہل علم نے اختلاف کیا ہے. کچھ کے نزدیک حالت اسلام میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو فقط دیکھنا ہی صحابی کہلانے کیلئے کافی ہے، کچھ کے نزدیک ملاقات شرط ہے اور کچھ کے نزدیک ایک عرصے تک بارگاہ رسول میں تربیت صحابی کہلانے کے لئے لازمی ہے. یہ عرصہ کتنا طویل ہو؟ اس میں بھی مختلف آراء ممکن ہیں. پھر ایسی امثال بھی بکثرت موجود ہیں جنہوں نے حیات رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اسلام قبول کیا مگر وصال رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ارتداد اختیار کرلیا. واقعہ کربلا کی مثال لیجیئے. مظلومی اہل البیت اور شہادت حسین رضی اللہ عنہ پر پوری امت کا اجماع ہے. مگر اس افسوسناک واقعہ کے ذمہ دار کیا حضرت امیر معاویہ تھے یا نہیں ؟ یہ وہ بات ہے جس پر اہل تشیع تو کیا ؟ اہل السنہ میں بھی آپ کو لوگ اختلاف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں. پہلا موقف کچھ تاریخی شواہد کو پیش کرکے اس اندوہناک واقعہ کا ذمہ دار حضرت امیر معاویہ کو قرار دیتے ہیں. جب کے دوسرا موقف کچھ اور تاریخی اقوال و آثار پیش کرکے حضرت امیر معاویہ کو بے گناہ قرار دیتا ہے. یہی متفرق موقف ایک کے نزدیک انہیں صحابی بناتے ہیں اور دوسرے کے نزدیک غیر صحابی. ذرا تعصب کی پٹی اتار کردیکھیں تو دونوں کی موافقت و مخالفت محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سبب ہے. دونوں موقف رکھنے والو سے کچھ اس انداز میں سوال پوچھ کر دیکھیئے کہ واقعہ کربلا کا جو بھی ذمہ دار تھا، کیا آپ کے نزدیک وہ دشمن اسلام تھا؟ تو بناء کسی تامل کے آپ کو جواب ہاں میں ملے گا. گویا حسین کا مخالف کوئی نہیں ہے، آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت دونوں کو ہے، اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت دونوں کو ہے. بس تاریخی تحقیق کے نتیجے الگ الگ نگل آئے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں موقف کی حمایت میں آپ کو تاریخی دلائل میسر ہیں. ایک کے نزدیک ایک رائے زیادہ مظبوط دلائل پر ہے اور دوسرے کے نزدیک دوسری رائے. مگر دلائل سے خالی کوئی بھی نہیں. یہ تاریخی ریکارڈ سینکڑوں سال بعد مرتب کیا گیا ہے، اس پر زمانے کے سرد و گرم گزرے ہیں اور ان کی تحقیق احادیث صحیحہ کے اسلوب پر نہیں کی گئی ہے. چانچہ اس سے حتمی نتائج برآمد کرنا احقر کے نزدیک مناسب نہیں. ہماری خواہش یہی ہے کہ ان واقعات کو اول تو ضرورت سے زیادہ موضوع ہی نہیں بنانا چاہیئے، دوئم یہ کہ اگر کوئی رائے کسی شخصیت کی مخالفت میں آپ قائم بھی کرتے ہیں تو لازم ہے کہ اسے انتہائی محتاط اور شائستہ انداز میں درج کریں. لعن طعن یا گالی و تشنیع کسی صورت جائز نہیں اور ایسا کرنے والے پر فوری قانونی کاروائی ہونی چاہیئے. سوئم یہ ملحوظ رکھیں کہ آپ کی رائے میں بھی غلطی کا امکان ہے.
.
====عظیم نامہ====
.
(نوٹ: یہ پوسٹ بہت ہمت کرکے لکھ رہا ہوں. یہ امید رکھ کر کہ میرے بھائی بہن میری نیت پر شک نہیں کریں گے. ناراض ہوئے بناء، بات سے شر برآمد کرنے کی بجائے اس میں خیر ڈھونڈھنا پسند کریں گے)
No comments:
Post a Comment