نبی کیلئے جنت کا ہونا عدل کے خلاف یا نہیں
سوال:نبوت کسبی نہیں وھبی ہے ۔ یعنی انبیاء طے شُدہ ہوتے ہیں۔ اللہ کی طرف سے معصیت سے محفوظ ۔ جبکہ اُمتی امتحان میں ہوتا ہے ۔ یہ کیسا عدل ہے؟
جواب:
تاخیر کیلئے معزرت. جی آپ نے درست کہا کہ نبوت کسبی نہیں وھبی ہے. گویا انسان اپنے عمل و ریاضت سے شہید، صدیق، صالح کا درجہ حاصل کرسکتا ہے مگر نبی کا درجہ عمل نہیں خالص عطا ہے. سب سے پہلے تو ہمیں یہ سمجھنا چاہیئے کہ رب کریم چاہے تو کسی مخلوق کو بذریعہ امتحان اپنی جنت میں داخل کرے اور چاہے تو کسی مخلوق جیسے ملائکہ کو بناء امتحان جنت میں داخلہ دے دے. یہ خالص اللہ پاک کا ہی ڈومین ہے. اسی طرح جب اللہ رب العزت کسی انسان کو نبوت پر فائز فرماتے ہیں تو اس سے یہ بات تو ضرور لازم ہوجاتی ہے کا وہ شخص اب معصیت سے محفوظ رکھا جائے گا. مگر اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ آزمائش سے نہ گزرے گا بلکہ اسے تو اسی کے لوگوں میں جھوٹا، سحر ذدہ اور پاگل جیسے القاب دے کر رسوا کیا جاتا ہے. سچ تو یہ ہے کہ نبی کو اتنی سخت ترین نفسیاتی و جسمانی آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے جس کے خود پر تصور سے بھی روح کانپ جائے. رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یتیمی ہو، یوسف علیہ السلام کو بچپن میں غلام بنا دینا ہو، موسیٰ علیہ السلام کو شیرخواری میں دریا برد کرنا ہو، ابراہیم علیہ السلام کے والد کا انہیں سنگسار کردینے کی دھمکی دینا ہو، یعقوب علیہ السلام کی اذیت ہو، اسمعیل علیہ السلام کا خود ذبح ہونے کیلئے چھری کے نیچے لیٹنا ہو، ایوب علیہ السلام کا بیماری میں مبتلا ہوکر اپنے پیاروں کی دھتکار سننا ہو، نوح علیہ السلام کی ساڑھے نو سو سال کی شب و روز مشقت ہو، یونس علیہ السلام کی ایک خطا پر مچھلی کے پیٹ میں اپنی چمڑی گلانا ہو. یہ اور بہت بہت کچھ جسے انبیاء کو سہنا پڑتا ہے اسے سوچ کر بھی کپکپی طاری ہوتی ہے. دوسری جانب ایک امتی کیلئے جنتی ہونا اور جنت میں اونچے ترین درجات، یہاں تک کے نبیوں کی رفاقت حاصل کرنا نسبتاً نہایت آسان نظر آتا ہے. گویا یہ دیکھنے کا زاویہ ہے. آپ کہتے ہیں کہ یہ کیسا عدل ہے کہ امتی امتحان میں ہوتا ہے اور نبی کا جنتی ہونا طے ہے؟ کوئی دوسرا یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ کیسا عدل ہے کہ امتی صرف توبہ کے ساتھ فرائض بھی پورے کرلے تو جنت کے باغات میں داخل ہوسکتا ہے اور نبی کو اتنے خوفناک و ہولناک آزمائشوں سے گزر کر یہی جنت کے باغات حاصل ہوتے ہیں. حقیقت یہ ہے کہ ہمارا رب سب سے بڑا عادل ہے، اس کا کوئی عمل عدل کا کمتر درجے میں بھی منافی نہیں. وہ بہتر جانتا ہے کہ کن کن صلاحیتوں یا موقعوں کے ملنے کے بعد کتنی کتنی آزمائش عدل کیلئے ضروری ہے؟
.
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment