گنہگاروں کی اقسام
کوئی شخص کتنے ہی بڑے گناہ کا مرتکب کیوں نہ ہورہا ہو۔ عمومی سطح پر دو ہی صورتیں ممکن ہے۔ پہلی یہ کہ اپنی سمجھ میں وہ اس گناہ کو گناہ سمجھتا ہی نہیں۔ گویا اس گناہ کے گناہ ہونے کا شعور ہی نہیں رکھتا۔ دوسری صورت یہ ممکن ہے کہ وہ اسے گناہ سمجھتا ہے اور ارتکاب کے باوجود دل میں اس پر نادم ہے۔ دونوں ہی صورتوں میں یہ شخص آپ کی نفرت یا غصہ نہیں بلکہ ہمدردی کا مستحق ہے۔ اگر کوئی کسی غلط عمل کو گناہ سمجھ ہی نہیں رہا تو اس کو فکری غلطی لگ گئی ہے۔ لازم ہے کہ آپ محبت اور دلیل سے اس کی غلطی کو واضح کرتے رہیں۔ جب تک نہیں سمجھتا تب تک آپ کے دل میں ہمدردی ہو کہ میرا یہ بھائی یا بہن فلاں بات کو ٹھیک سے سمجھ نہیں پایا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی کسی گناہ جیسے شراب یا جوا یا زنا میں مبتلا ہے مگر بحیثیت مسلم اسے گناہ مانتا ہے لیکن دل میں پشیمانی کے باوجود اسے چھوڑنے میں ناکام ہورہا ہے تو یہ شخص تو آپ کیلئے اور بھی زیادہ قابل محبت ہے۔ کیا معلوم کل کب اس کی یہی پشیمانی سچی توبہ میں تبدیل ہوجائے اور وہ مجھ سے یا آپ سے بہتر انسان بن جائے؟۔ ایسی ان گنت مثالیں موجود ہیں جس میں ایک شدید گنہگار کچھ سالوں بعد پکا سچا مومن بن گیا اور ایک بظاہر عابد انسان کچھ سالوں میں فاسق و فاجر کہلانے لگا۔
۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارا مزاج ہمیشہ گنہگار کیلئے محبت و خیرخواہی کا ہونا چاہیئے۔ یہی حقیقی دعوتی مزاج ہے جسکے ہم سب مکلف ہیں۔ نفرت صرف گناہ سے ہے گنہگار سے نہیں۔ اور کون ہے جو گنہگار نہیں ہے یا بڑا گنہگار نہیں ہے؟ یہ رب العزت کا احسان ہے کہ اس نے میرے اور آپ کے کریہہ گناہوں کی پردہ پوشی کررکھی ہے۔ لہذا کسی کا گناہ دیکھیں تو محبت و حکمت سے اس سے معاملہ کریں، طعن و تشنیع نہ کریں۔ کیا معلوم کہ کل ہم میں سے کسی کا پردہ فاش ہو تو نظر ملانے کے بھی قابل نہ رہیں؟ ہم اکثر دعوت کی آڑ میں اپنے نفس کو فربہ کررہے ہوتے ہیں اور سمجھتے یہ ہیں کہ امر بلمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام پارہا ہے۔
۔
ہاں گنہگاروں کی ایک تیسری قسم بھی ہے اور وہ یہ کہ کوئی بدنصیب جانتے بوجھتے گناہ کا ارتکاب کرتا رہے اور دل میں کوئی ندامت کا شائبہ بھی نہ رکھے۔ ایسے لوگ تعداد میں کم ہیں اور یہی وہ ہیں جو اپنے جرم کی سنگینی کے سبب کبھی کافر، کبھی منافق اور کبھی متکبر قرار پاتے ہیں۔ ایسے متکبرین کا کبر اور کھلا ظلم لوگوں کو ان سے نفرت پر مجبور کردیتا ہے۔ فرعون، نمرود، ھامان سب اسی کی مثال ہیں۔ مگر قربان جایئے اپنے رب کی رحمت پر کہ وہ جب موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کو فرعون کے پاس جانے کا حکم دیتے ہیں تو فرماتے ہیں کہ فرعون کو محبت و نرمی سے دعوت دینا۔ ملاحظہ ہو "تم دونوں اس سے نرم بات کہنا شاید کہ وہ نصیحت حاصل کر لے یا اس میں خشیت پیدا ہو جائے۔" ( طه:20 - آيت:44 )۔ کبھی سوچا کہ رب نے ایسا کیوں کہا؟ جب کے وہ اپنے علم سے جانتے تھے کہ فرعون کبھی بات کو سمجھنے والا نہیں؟ صرف اسلئے کہ مجھے اور آپ کو یہ تبلیغ ہو کہ اگر دعوت وقت کے فرعون کو بھی دینی ہو تو نرمی و محبت پیش نظر رہے۔
۔
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment