ہم سب قاتل ہیں
.

سوچتا ہوں کہ کیا ہم سب قاتل ہیں؟ یوں لگتا ہے جیسے کائنات کی تمام تر موجودات اپنی بقاء کیلئے دیگر موجودات کو فنا کرنے پر مجبور ہیں. گویا ہر بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھا جاتی ہے. ہم انسانوں کی غالب اکثریت ایسی شدید گوشت خور ہے کہ جس کیلئے وہ روزانہ کروڑوں اربوں پرندوں، چوپایوں اور دیگر حیوانات کو ذبح کر ڈالتی ہے. کون سا سا سلیم الفطرت دل ایسا ہے جو کسی جانور کو اذیت سے تڑپتے دیکھ کر اور اسکی گردن سے خون کے فوارے پھوٹتے دیکھ کر رنج محسوس نہ کرے؟ مگر پھر بھی ہم اپنے جینے کیلئے ان کی جان تلف کرتے ہیں اور صرف زبان کے چٹخارے کیلئے بھی انہیں قتل کر ڈالتے ہیں. کچھ انسانوں نے اس خونریزی کو حیوانات پر ظلم جانا اور صرف سبزی خور ہونے کا ارادہ کرلیا. بیشک حرمت جان کے پیش نظر ان کا یہ جذبہ قابل احترام ہے مگر یہ سائنسی حقیقت اب کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ پودے پیڑ وغیرہ بھی زندگی رکھتے ہیں، جان رکھتے ہیں اور تکلیف محسوس کرتے ہیں. قاتل ہم ویسے بھی تھے قاتل ہم ایسے بھی ہیں. حقوق حیوانات کی تنظیمیں جو حیوانات کو کھانے سے روکتی ہیں اور نباتات کے کھانے پر اصرار کرتی ہیں. وہ بھی اس حقیقت کو نہیں جھٹلا سکتی کہ اگر کوئی فرق پڑا تو فقط اتنا پڑا کہ حیوانات کا تڑپنا، خون کا نکلنا اور چیخیں مارنا ہم مشاہدہ کرپاتے ہیں. جب کے نباتات کی تڑپ اور چیخ ہم اپنی محدودیت کے سبب مشاہدہ نہیں کرپاتے. پھر یہی تنظیمیں جو حیوانات کے قتل کو انسانیت سوز قرار دیتی ہیں، وہ حشرات الارض کے حقوق کیلئے کوئی تحریک نہیں چلایا کرتی. ان حشرات کو پیروں سے ہی نہیں کچلا جاتا بلکہ مختلف کھانوں میں اقوام استعمال کرتی ہیں. اتنا ہی نہیں بلکہ نیشنل ٹی وی چینلز پر ایسے پروگرام 'ریلیٹی شوز' کے نام پر چلتے ہیں جس میں شرکاء ان حشرات کو زندہ چبا جاتے ہیں. کوئی کچھ نہیں کہتا بلکہ اس ہمت پر داد دی جاتی ہے.
.
کچھ سمندری مخلوقات بھی حقوق کی دوڑ میں مچھلیوں یا مگرمچھوں سے کمتر ہیں لہٰذا انہیں بھی مہذب ممالک تک کے پوش ریسٹورینٹز میں زندہ کھا لیا جاتا ہے اور کسی تنظیم برائے حقوق کے دل میں درد نہیں ہوتا. سچ تو یہ ہے کہ ہم سب قاتل ہیں اور قاتل بنے رہنے پر مجبور ہیں. اس پوسٹ کو پڑھنے کے دوران جتنی بار آپ نے سانس لی ہے، اس میں لاتعداد جراثیم آپ کے ہاتھوں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں. کتنے ہی حشرات آپ میں سے کئی کے بوجھ تلے مارے گئے ہیں. یہ سب مخلوقات 'زندگی' رکھتی ہیں، خوراک لیتی ہیں، جوانی و بڑھاپے سے گزرتی ہیں. نا جانے ہمیں یہ حق کس نے دیا کہ ہم ایک مخلوق کی جان کو دوسری مخلوق کی جان پر مقدم قرار دے دیں؟ شائد ہم نے برہمن، راجپوت، دلت اچھوت جیسی تقسیم و تفریق یہاں بھی کر رکھی ہے. یہی زندگی کا دائرہ ہے عزیزان من. یہاں زندگی اور موت ایک دوسرے کا مسلسل ایسے پیچھا کررہی ہے جیسے دن اور رات ایک دوسرے کا کیا کرتے ہیں. موت و حیات کا یہ کھیل یونہی جاری رہے گا جب تک ایک دوسری دنیا کا قیام نہ ہو جہاں موت کا خاتمہ کرکے اس مسلسل جاری دائرے کو بنانے والا خود اسے توڑ ڈالے.
.
====عظیم نامہ====
.
(نوٹ: اس تحریر کو راقم کی ایک غیر مذہبی خودکلامی پر محمول کیا جائے. مذہبی نقطہ نظر سے اسے نہ پیش کیا گیا ہے اور نہ اس نظر سے قاری کو اسے دیکھنا چاہیئے)
No comments:
Post a Comment