Friday, 29 July 2016

ایک وضاحت


ایک وضاحت 



آپ احباب واقف ہیں کہ میں ایک عرصے سے سوشل میڈیا پر تحریریں لکھتا رہا ہوں. یہ تحریریں میرے لئے مباحثہ نہیں بلکہ اظہار کا ذریعہ ہیں. میں پوری دیانت سے وہی لکھنے کی کوشش کرتا ہوں جو اپنے قلب کی گہرائی میں محسوس کرتا ہوں. میں آپ سے یہ وعدہ کرسکتا ہوں کہ میں صرف وہی لکھوں گا جسے پورے اخلاص سے حق سمجھتا ہوں مگر میں آپ سے یہ وعدہ نہیں کرسکتا کہ صرف وہی لکھوں گا جسے آپ حق سمجھتے ہیں. میرے نزدیک محض الفاظ کا مداری بن کر واہ واہ سمیٹنا ایک کریہہ عمل ہے اور اکثر صورتوں میں گناہ ہے. یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ سوشل میڈیا کے اس سفر میں کبھی تو مجھ پر فلسفیانہ گتھیاں بیان کرنے کا جنون رہا اور کبھی ادبی جائزے پیش کرنے کا شوق. کبھی سیاسی تجزیات میری تحریر کو جکڑے رہے تو کبھی دینی مباحث بیان کرتا رہا. کبھی اپنے سفری تجربات کو زیر قلم لایا تو کبھی اصلاحی نصیحتیں لکھتا رہا. پچھلے دنوں علمی شخصیات کا تعارفی سلسلہ پیش کیا تھا اور اب کچھ عرصے سے اپنی ایسی 'آپ بیتیاں' بیان کررہا ہوں جن سے مجھے زندگی کے سبق حاصل ہوئے. 
.
کچھ احباب کو یہ شک ہونے لگا ہے کہ ان 'آپ بیتیوں' کی آڑ میں شائد میں کہانیاں گھڑ رہا ہوں اور کچھ کو یہ فکر ہونے لگی ہے کہ اس بیان سے میرا مقصد اپنی پارسائی کے ڈنکے بجوانا ہے. آج میں آپ کو اس تحریر کے ذریعے یہ اطمینان دلانا چاہتا ہوں کہ میں اللہ سے ہزار بار پناہ مانگتا ہوں کہ اپنی تحریروں سے جھوٹ پھیلاؤں اور میں اپنے رب سے ہزار بار پناہ طلب کرتا ہوں کہ خود کو نیک سمجھنے کی غلط فہمی پالوں. میں تو سر تا پیر گناہوں سے پلید ایک ایسا شخص ہوں جو فرائض کی پابندی بھی مشکل سے کرپاتا ہے. جس طرح کہتے ہیں کہ قبر کا حال صرف مردہ جانتا ہے، ویسے ہی اپنے برے حال سے میں خوب واقف ہوں. یہ تو رب العزت کا خاص کرم ہے کہ اس نے مجھ جیسوں کا پردہ رکھا ہے. آپ سب کو بھی میں بناء کسی بناوٹی عجز کے پوری صداقت سے یہ مشورہ دیتا ہوں کہ فیس بک کی تحریروں کے دھوکے میں آکر مجھ جیسے سیاہ کار کو نیک سمجھنے کی غلطی ہرگز نہ پالیں. بلکہ مجھے ایک ایسا گنہگار حساس انسان تصور کریں جو اپنے احساسات کو تحریر کرنے پر مجبور ہے. رہی بات ان حالیہ 'آپ بیتیوں' کی تو اطمینان رکھیں کہ یہ فی الواقع اپنی اصل میں سچ ہیں. یہ تو ضرور ہے کہ تفصیل کے بیان میں معمولی کم و بیشی ہوجانا لازمی امر ہے یا لکھاری کی یادداشت کا کسی مقام پر چوک جانا یا دانستہ کسی پہلو کو حذف کرکے بہتر الفاظ سے بدل دینا تحریر کا حصہ ہوا کرتا ہے. مگر یہ سب واقعات اپنی اصل میں قریب قریب ایسے ہی وقوع پزیر ہوئے ہیں جیسے راقم نے بیان کئے ہیں. 
.
میرا ماننا ہے کہ مومن کی زندگی میں 'انہونی' یا 'حسن اتفاق' نام کی کوئی شے نہیں ہوتی. وہ اس حقیقت کی معرفت پاچکا ہوتا ہے کہ زندگی کے خارج و باطن میں ہونے والی ہر واردات، ہر حادثہ، ہر واقعہ دراصل قادر المطلق کے 'گرینڈ پلان' ہی کا ایک چھوٹا سا جزو ہے. اس کا ہونا یا تو خالص 'امر الہی' کا ظہور ہے یا پھر 'اذن خداوندی' کا تقاضہ. سادہ الفاظ میں کوئی واقعہ یا تو رب العزت کے حکم کو براہ راست پورا کرتا ہے یا پھر دار الامتحان میں حاصل عارضی آزادی کا شاخسانہ ہوتا ہے. ایسی آزادی جو آزاد ہوکر بھی منشاء خداوندی کی پابند ہے. پس ایسی 'آپ بیتیاں' اور 'محیر العقل' واقعات صرف میری زندگی سے متعلق ہرگز نہیں ہیں بلکہ ان سے ہر انسان کی زندگی مزین ہوتی ہے. خوش نصیب وہ ہے جو ان واقعات کے پیچھے کارفرما مشیت الہی کا ادراک کرسکے اور اپنے لئے سبق اخذ کرسکے. 
.
====عظیم نامہ====

No comments:

Post a Comment