درود شریف
درود شریف عربی کا نہیں فارسی کا لفظ ہے. عربی میں اس کا متبادل لفظ ' الصلاة على النبي' ہے. یہ واحد ذکر ہے جو انسان، ملائکہ اور رب العزت سب میں رائج ہے اور جس کی نسبت اور حکم کواللہ پاک نے خود سے جوڑ کر صادر کیا ہے.
.
(اِنَّ اللہَ وَ مَلَائِکَتَہُ یُصَلّوْنَ عَلی النَّبِیْ یَا ایُّہا الَّذِیْنَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْماً) سورہ احزاب آیت ۵۶۔
بیشک اللہ اور اس کے فرشتے پیغمبر (اور ان کی آل پر) درود بھیجتے ہیں تو اے ایمان والو تم بھی درود بھیجتے رہو اور برابر سلام کرتے رہو"
.
اگر درود شریف کا جائزہ لیا جائے تو یہ امر کھل کے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ اپنے معنوں اور حقیقت دونوں کے اعتبار سے ایک دعا ہے. ایک ایسی دعا جس میں ہم رب کائنات سے یہ التجا کرتے ہیں کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر مزید رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائیں. ہم جانتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ سب سے بلند ہے اور انہیں اپنے رب کی اونچی ترین نعمتیں حاصل ہیں مگر اس کے باوجود بھی ہمیں ان کیلئے درود کی صورت دعا کی ترغیب دی گئی ہے. اسکی کئی وجوہات ہیں، جن میں سے دو اہم ترین ہیں. پہلی یہ کہ رب کریم کی عطا کی کوئی حد نہیں، وہ بلند ترین مقام کو بھی مزید سے مزید بلندی عطا کرسکتے ہیں. لہٰذا کیا مضائقہ ہے؟ کہ ہمارے درور کو بہانہ بنا کر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل کو مزید رفعتیں عطا کردی جائیں. (گو میرا رب کسی سبب کے بغیر بھی عطا کرنے پر یقیناّ قادر ہیں) دوسری وجہ یہ کہ دعا فقط تقاضہ ہی نہیں ہوتی بلکہ جس کیلئے دعا کی جارہی ہے اس سے تعلق کا اظہار بھی ہوتی ہے. آپ اپنی اولاد یا والدین کیلئے دعا کرتے ہیں، وجہ یہ ہے کہ وہ آپ کے دل کے قریب ہیں. درود کے ذریعے بندہ مومن کا اپنے محسن آقا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قلبی تعلق مظبوط تر ہوتا جاتا ہے. اسکی ایک مثال یا دلیل یہ بھی ہے کہ ہم خوب واقف ہیں کہ ہمارے ذکر و تسبیح سے اللہ عزوجل کی شان میں اضافہ یا کمی نہیں ہوتی لیکن پھر بھی ہمیں اللہ اکبر اور دیگر کلمات و عبادات کے ذریعے رب کی بڑائی بیان کرنے کا حکم دیا گیا ہے. تاکہ اسی بہانے ہمارا تعلق اپنے خالق سے قریب تر ہوتا جائے. دعا ہمیشہ مانگی جاتی ہے پڑھی نہیں جاتی. افسوس یہ ہے کہ ہمیں درود پڑھنا تو سکھا دیا گیا لیکن مانگنا کسی نے نہ سکھایا. ضرورت ہے اس امر کی کہ درود کے الفاظ ادا کرتے ہوے یہ حقیقت ملحوظ رہے کہ ہم اپنے پروردگار سے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل کیلئے رحمت و برکت کی دعا مانگ رہے ہیں. یہ سوچ و سمجھ ان الفاظ میں اپ کی دلچسپی اور لطف دونوں کو کئی گنا بڑھا دیگی.
.
ایک اور پہلو جو ہماری توجہ کا طالب ہے وہ یہ کہ جب ہم اس درود میں ' آل رسول ' کا ذکر کرتے ہیں تو اہل علم کی ایک رائے کے مطابق اس سے مراد محض رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان نہیں ہوتا بلکے اپنے وسیع معنوں میں یہ لفظ تمام امت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا احاطہ کرتا ہے. یہ قرآن اور عربی دونوں کا اسلوب ہے کہ لفظ ' آل ' سے مراد قبیلہ یا امّت بھی ہوتا ہے. اسی لیے قرآن پاک میں جب فرعون کے ماننے والو کا ذکر ہوا تو انہیں ' آل فرعون ' کہہ کر مخاطب کیا گیا. لہٰذا آئندہ جب ہم درود میں آل رسول کا ذکر کریں تو یہ جانتے ہوئے کریں کہ اسمیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان والے بھی شامل ہیں اور تمام امتی بشمول میں خود بھی شامل ہوں. یہ سوچ جہاں آپ کے قلب کو مزید فرحت دے گی کہ گنہگار ہی سہی لیکن میں بھی امتی ہوں وہاں یہ درود پاک کے الفاظ سے آپ کے زندہ تعلق کو تقویت دے گی. ان شاء اللہ. آئیے ایک بار صدق دل سے درود پڑھ لیتے ہیں.
.
====عظیم نامہ====
جزاکم اللہ خیرا
ReplyDelete