ثقلین مشتاق سے ایک ملاقات
.
کچھ سال پہلے ہماری مقامی مسجد میں پاکستان سے آئی ایک تبلیغی جماعت نے قیام کیا. اس جماعت میں سابقہ کرکٹرز ثقلین مشتاق اور محمد یوسف بھی شامل تھے. نماز مغرب کے بعد بھائی ثقلین مشتاق نے ایک پراثر اور سادہ اسلوب میں درس دیا. جس میں انہوں نے اپنے دین کے سفر کے بارے میں بھی واقعات سنائے اور ساتھ ہی تفصیل سے نماز، روزہ، تسبیحات، صدقات، تلاوت، تبلیغ وغیرہ کے فضائل بھی بیان کئے. جب آپ کا بیان ختم ہوا تو مجھے اپنے ایک دوست کے ساتھ ان سے گفتگو کا موقع حاصل ہوا. صدق دل سے شکریہ ادا کرنے کے بعد میں نے ان سے قدرے سپاٹ انداز میں کچھ یوں کہا کہ " ثقلین بھائی آپ نے ماشاللہ اتنی دیر خوبصورت گفتگو کی جس میں آپ نے اپنے سننے والو کو دعوت و تبلیغ سمیت تقریبا ہر عبادت و نیکی کی ترغیب دی. مگر مجھے افسوس ہوا کہ اس سارے وقت میں ایک بار بھی آپ نے مخاطبین کو قران حکیم سمجھنے کی رغبت نہیں دلائی جو بلاشبہ فہم دین کے لئے سب سے ضروری ہے"
.
گو میں نے اپنا یہ اعتراض تہذیب کو ملحوظ رکھ کر ہی پیش کیا تھا مگر اس کی نوعیت خاصی ناقدانہ تھی. مجھے قوی توقع تھی کہ ایک عام سے انسان کی ایسی غیر متوقع تنقید پر ثقلین بھائی جیسے مشہور و معروف انسان غصہ میں کوئی سخت جواب دے سکتے ہیں. لیکن اس وقت مجھے خوشگوار حیرت ہوئی جب توقع کے برعکس ان کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور وہ پوری ندامت سے بولے کہ آپ کی بات واقعی درست ہے. مجھے واقعی لوگوں کو قران حکیم سے جڑنے کی ترغیب دینی چاہیئے تھی. پھر بولے کہ اب جو لندن میں دیگر مقامات پر مجھے گفتگو کرنی ہے، میں وہاں ضرور اسے شامل کروں گا. ان کے لہجے سے ان کا اخلاص اور سچائی پوری طرح سے چھلک رہے تھے. میں جو کچھ لمحہ پہلے ناقدانہ ذہن سے مخاطب تھا، اب دل کی گہرائی میں ان کیلئے محبت کا جذبہ محسوس کرنے لگا. مومن کا یہ خاصہ ہے کہ اسے جب خیر کی دعوت دی جائے یا دینی اعتبار سے اس کی کسی غلطی کی تصحیح کی جائے تو وہ کسی انا پرست کی طرح اپنی ہتک محسوس نہیں کرتا بلکہ فوری اپنی غلطی سے رجوع کرتا ہے اور شکرگزار ہوتا ہے.
.
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment