عید قربان
تقریباً گیارہ برس بعد پاکستان میں عید قربان منانا نصیب ہوا. دل میں ٹھان لیا تھا کہ خوشی منانے کے ساتھ ساتھ اس بار قربانی کے عمل کو قریب سے محسوس کرنے کی سعی کی جائے گی. ایک ماہ پہلے ہی گھر والوں کو یہ بتا دیا کہ اس دفعہ میں خود جاکر جانور (گائے) لاؤں گا، اسکا خیال رکھوں گا اور پھر اپنے ہاتھ سے چھری پھیروں گا. اب یہ بول تو دیا مگر سارا وقت ذہن پر دباؤ رہا. آج تک کسی جانور کو ذبح نہ کیا تھا، کسی کی ایسے جان نہ لی تھی ، سوچ کر بھی ہاتھ شل ہونے لگتے. طبیعت کی نرمی اور مہذب بننے کی کوشش نے میرا دل کسی سہمی ہوئی چڑیا جیسا کردیا تھا. کئی بار خیال آیا کہ یہ چھری پھیرنے والا ارادہ ترک کردوں مگر پھر کوئی کان میں ہلکے سے سرگوشی کرتا .."قربانی کی روح کو محسوس کرنا ذبح کے بناء ممکن نہیں".. خود کو بار بار ڈھارس دیتا کہ میاں اگر ایسا نازک دل رکھو گے تو بوقت ضرورت اللہ کے حکم پر جہاد و قتال کیسے کرو گے؟
.
خیر جناب وقت گزرتا گیا اور قربانی کا دن سامنے آگیا. میں نے خاص تاکید کی کہ چھری پھیرتے ہوئے کوئی تصویر نہ لی جائے. مجھے انٹرنیٹ پر ذبیحہ کی خون سے لت پت تصاویر دیکھ کر ہمیشہ کوفت ہوتی ہے. میں حیران ہوتا ہوں کہ کوئی کیسے کسی جاندار کو موت دیتے ہوئے پوز مار کے تصویریں بنا سکتا ہے یا تصویر اتار سکتا ہے؟ میری گزارش یہی ہوا کرتی ہے کہ ایسی تصویر لگا کر اپنے حیوان ہونے کا ثبوت نہ دیں. بہرحال وہ وقت آگیا جب جانور کو زمین پر لٹا دیا گیا اور میرے ہاتھ میں ایک نہایت تیز چھری دے دی گئی. میں اللہ کا نام لے کر مقبول دعائیں پڑھتا ہوا اسکی گردن پر آیا. لوگ حیران تھے کہ اتنا بڑا جانور بناء کسی مزاحمت کے زمین پر بناء تنگ کئے گرگیا اور اب بناء کسی احتجاج کے سکون سے لیٹا ہوا ہے. جیسے زبان حال سے کہہ رہا ہو .. "میرے آقا جلدی سے مجھے ذبح کردیجیۓ". میں نے کانپتے ہاتھوں سے چھری گردن پر رکھ دی. یہ وہ لمحہ تھا جب میرے ذہن میں ایک جھماکا ہوا ، پہلی بار یہ محسوس ہوا کہ ذبح کرنے والا بھی میں ہوں اور ذبح ہونے والا بھی میں ہی ہوں. پہلی بار حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی سنت نظر آئی. ایک طرف وہ باپ ہے جو اللہ کے حکم کی تعمیل میں اپنے لخت جگر کی گردن پر چھری رکھتا ہے تو دوسری جانب وہ بیٹا ہے جو مشیت الہی کے لئے اپنی گردن پیش کردیتا ہے. یہ تسلیم و رضا کا وہ اعلی مقام تھا ٰجہاں شعور و ادراک کے پر جل جاتے ہیں. اس ایک لمحے میں اس حوالگی کا عکس اپنے سینے میں محسوس کیا اور پورے اطمینان و سکون سے چھری چلا دی. کوئی پھر میرے کان میں کہہ رہا تھا : "اللہ اکبر. اللہ اکبر. لا الہ الا اللہ. واللہ اکبر. اللہ اکبر. وللہ الحمد."
.
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment