Thursday, 7 July 2016

عید کی نماز نہ پڑھ سکا



عید کی نماز نہ پڑھ سکا ..


.
یہ آج سے کم و بیش بارہ سال پہلے کی بات ہے. انگلینڈ میں میرا پہلا رمضان اور پہلی عید تھی. فطری طور پر گھر سے دوری کی وجہ سے دل پر شدید اداسی نے ڈیرہ ڈال رکھا تھا. یوں تو غم روزگار چلتی سانس تک ساتھ لگا ہوا ہے مگر میرے لئے وہ ابتدائی دن سخت ترین تھے. مجھے صرف اپنے پیٹ کیلئے نہیں کمانا تھا بلکہ یونیورسٹی فیس کی خطیر رقم بھی جمع کرنا تھی. چنانچہ شب و روز مزدوری کرتا تھا یا اپنی پڑھائی میں مصروف رہتا تھا. رمضان کیسے گزرا؟ کب عید آگئی؟ کچھ پتہ نہ لگا. عید کے دن بھی مجھے کام پر جانا تھا، اگر چھٹی کرتا تو نہ صرف درشت مزاج باس کی ناراضگی کا خدشہ تھا بلکہ مالی نقصان بھی لازمی ہوتا. جیسا کہا کہ ان دنوں ایک ایک پیسہ بچانا میرے لئے نہایت اہم تھا. حد یہ تھی کہ کچھ دن تک تو صرف ایک وقت کھانا کھاتا اور باقی وقت سستے بسکٹ کھا کر پیٹ کو سہارا دیتا. بہت غور کے بعد فیصلہ کیا کہ چھٹی کرنے کی بجائے کام پر جلدی پہنچ جاؤں گا اور وہاں قریب کی مسجد میں عید الفطر کی نماز ادا کرلوں گا. یہی سوچ کر عید کے روز بہت صبح گھر سے جانے کیلئے نکل گیا مگر قسمت یہ رہی کہ اس دن غیر معمولی رش کی وجہ سے راستہ طویل تر ہوتا چلا گیا. بھاگم بھاگ ہانپتا کانپتا مسجد پہنچا تو دروازے پر ایک بڑا سا تالا منہ چڑا رہا تھا. میرے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا اور پردیس میں پہلی بار میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے. اسی وقت پاکستان سے بڑے بھائی کا فون آیا جنہوں نے چہکتے ہوئے عید مبارک کہا. ساتھ ہی کہا کہ اس آواز کو پہچانو اور اتنا کہہ کر فون کسی اور کو دے دیا. دوسری طرف سے ایک توتلی سی معصوم آواز میں کسی نے مجھے چاچو پکارا. وہ ننھا سا بھتیجا جسے میں کچھ ماہ پہلے خاموش چھوڑ کر آیا تھا، اب بولنے لگا تھا اور پہلی بار اس نے مجھے چاچو کہہ کر پکارا تھا. میں ہچکیوں سے رویا. بڑے بھائی پریشان ہو کر ڈھارس بندھاتے رہے اور میری زبان سے یہی جملہ ادا ہوتا رہا کہ "بھائی میں نے عید کی نماز نہیں پڑھی !" .. پردیس کے اپنے غم ہوا کرتے ہیں جن کی شدت پتھر کا قلب بھی چیر سکتی ہے. یہ اور بات کہ کچھ وقت گزرنے کے بعد وہ ان غموں پر مسکرانے کی ایکٹنگ سیکھ لیتا ہے.
.
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج،
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
.
====عظیم نامہ=====

No comments:

Post a Comment