Friday, 29 July 2016

روحانی ماہر


روحانی ماہر



گھر سے آفس تک کے سفر میں مجھے اتنا وقت میسر ہوتا ہے کہ میں کسی نہ کسی علمی سرگرمی کو اپنا سکوں. پھر چاہے وہ کتاب پڑھنا ہو، کوئی لیکچر سننا ہو یا پھر کسی بات پر غور و فکر کرنا. دوران سفر میں وقت نکال پاتا ہوں. ایسی ہی ایک شب آفس سے گھر واپسی پر پیدل جا رہا تھا اور ذہن کسی خاص آیت قرانی پر غور میں مشغول تھا. ایسی حالت میں جب مگن ہوتا ہوں تو کئی بار ایسا ہوا ہے کہ مجھ سے میرے جاننے والو نے شکوہ کیا کہ ہم آپ کو آوازیں دیتے رہے اور آپ نے سر اٹھا کر بھی نہ دیکھا. خیر تو میں کہہ رہا تھا کہ میں کسی آیت پر غور کرتا ہوا خراماں خراماں گھر جارہا تھا جب کسی نے بلکل سر پر آکر مجھے تحکمانہ انداز میں مخاطب کیا. ... "فکر نہ کرو ، جلد تمھاری مشکل آسان ہوجائے گی" .... میں نے چونک کر اپنی داہنی جانب دیکھا تو کم و بیش میرا ہی ہم عمر ایک انسان مجھ سے مخاطب تھا. شیو بڑھی ہوئی، بال الجھے ہوئے، کپڑے بے ہنگم اور صحت خستہ. میں نے اس سے مسکرا کر پوچھا .. "آپ نے مجھ سے کچھ کہا؟" .. اس شخص نے اسی شاہانہ شان سے اثبات میں سر ہلایا اور دہرایا ... "فکر نہ کرو ، جلد تمھاری مشکل آسان ہوجائے گی" .... میں نے مسکراتے ہوئے تعجب سے پوچھا کہ "کیسی مشکل؟" .. اس نے کہا .. "وہی زندگی کی مشکل جس کے بارے میں تم ابھی ابھی سوچ رہے تھے" ... میں نے بدستور مسکراتے ہوئے کہا ... "میں تو کسی زندگی کی مشکل کے بارے میں نہ سوچ رہا تھا، بلکہ ایک آیت قرانی پر تدبر کررہا تھا" ... اب میرا یہ عزیز سٹپٹایا .. پھر سنبھل کے اسی تحکمانہ بھاری آواز میں کہا ... " فکر نہ کرو میں جانتا ہوں کہ تم بہت پریشان ہو، تمہاری ساری پریشانیوں کا علاج ہے میرے پاس" ... میں دھیمے سے ہنسا اور بولا کہ ... "بہت شکریہ بھائی مگر میں تو الحمدللہ ذرا سا بھی پریشان نہیں بلکہ پوری طرح پرسکون ہوں" ... اب اس بھائی کے چہرے پر شدید الجھن کے آثار تھے، اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اب مجھے کیا کہے؟ شائد یہ بات اس کے تصور میں بھی نہ تھی کہ اس کا مخاطب کسی بھی پریشانی اور تکلیف کا شکوہ نہیں رکھتا .. کچھ دیر سوچ کر بولا .. "مجھے روحانیت عطا کی گئی ہے اور میں تمہارے مسائل حل کرسکتا ہوں" ... میں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے وہی جواب دہرا دیا کہ ... "میں تو پہلے ہی اللہ کی رحمتوں سے سرشار ہوں ... البتہ تم مجھے یہ بتاؤ کہ تمھیں یہ کس نے بتایا کہ تمھیں روحانیت عطا ہوئی ہے؟" ... اب اس نے تفصیل بتائی جس کے مطابق ان کے گاؤں میں کوئی پیر صاحب تھے جنہوں نے اس کے سینے میں روحانیت منتقل کردی ہے اور اب وہ اپنا ہاتھ کسی کے بھی سینے پر رکھ کر اسے خوشی سے سرشار کرسکتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس نے پوری شدومد سے میرے سینے پر ہاتھ رکھ کر دبایا اور پھر اعتماد سے فخریہ پوچھا ۔۔۔"کیسا محسوس ہوا؟"۔۔۔ میں نے مسکرا کر جواب دیا ۔۔۔ "بلکل ویسا ہی جیسا آپ کے ہاتھ رکھنے سے پہلے محسوس ہورہا تھا"۔۔۔ میرے اس بھائی کے چہرے پر شدید بیچارگی تھی۔ 
.
میں نے اسے سمجھایا کہ روحانیت کوئی ایسی جادوئی شے نہیں جو عبادات و معاملات میں درستگی کے بغیر کسی پیر یا مولوی سے عطا ہوجائے. میں نے اس سے پوچھا کہ کیا تم نے کبھی اللہ کی کتاب کو سمجھ کر پڑھا ہے تو اس نے تذبذب سے نفی میں سر ہلادیا. میں نے سمجھایا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ تم دین اسلام میں روحانیت کا حصول کرنا چاہو اور اس کلام کو کبھی سمجھو ہی نہیں جو تمہارے رب نے نازل کیا ہے؟ میں اسے کافی دیر سمجھاتا رہا. اسے بھی میری باتیں کسی حد تک سمجھ آنے لگی تھیں مگر شاید ابھی بھی اس کا ذہن اپنے روحانی ماہر نہ ہونے کا اقرار نہ کرپارہا تھا. لہٰذا بولا کہ میں تمھیں آیات قرانی کا ایک ایسا طاقتور وظیفہ دیتا ہوں جس سے تمھاری ہر مراد پوری ہوسکے گی. یہ کہہ کر اس نے اللہ کے دو متفرق صفاتی نام بیان کرکے مجھے صبح شام اسے مخصوص تعداد میں پڑھنے کا تقاضہ کیا. میں نے مسکرا کر کہا کہ ٹھیک ہے میں انہیں پڑھ لوں گا مگر کیا تم مجھ سے وعدہ کرتے ہو کہ کتاب الہی سمجھ کر پڑھو گے؟ اس نے ارادہ کیا اور شائد چاہا کہ میں اسے مزید کچھ قران حکیم کے بارے میں بیان کروں. میں دیر تک اسے قران کا پیغام سمجھاتا رہا. جب بات مکمل ہوگئی تو ساتھ ہی اس نے خود پر چڑھی روحانیت کی نقاب بھی اتار پھینکی. میں نے اس کے حالات پوچھے تو قریب قریب روتے ہوئے اس نے اپنی زندگی کی اذیتیں بتانا شروع کیں. اس نے بتایا کہ کیسے کیسے اسے اس کے سگوں نے دھوکہ دیا اور ذلیل کیا. یہ بیان کرتے ہوئے کبھی وہ نم دیدہ اور کبھی غصہ سے آگ بگولہ ہوجاتا. اسی دوران جذبات میں اس نے پنجابی اور اردو دونوں زبانوں میں بھرپور تلفظ کے ساتھ ماں بہن کی گالیاں بھی دیں. وہ شخص جو کچھ دیر پہلے میری ہر اذیت دور کرنے کا روحانی علاج بتانا چاہتا تھا اور جسے خود پر ایک کامل صوفی ہونے کا گمان تھا، اس وقت مجھے شدید کرب میں مبتلا ایک ہارا ہوا انسان نظر آرہا تھا. جاتے ہوئے اس نے میرا نمبر لیا اور رخصت ہوگیا. دوسرے دن اس کی کال آئی اور اس نے پھر ملنے کی درخوست کی. جس پر ہم ایک بار پھر ملے. اس بار وہ بولنے سے زیادہ سننا چاہتا تھا. یہ اس سے آخری ملاقات تھی. اور مجھے امید ہے کہ وہ کم ازکم روحانی ہونے کے اس دھوکے سے باہر آگیا تھا جس نے اس کے طرز تخاطب کو متکبرانہ بنا رکھا تھا. افسوس ہے کہ آج میرے ملک میں ہر دوسرا شخص روحانیت کی دکان کھولے بیٹھا ہے اور سادہ مزاج لوگوں کو بے سر پیر کے جادوئی علاج، وظیفے وغیرہ تجویز کررہا ہے. ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں کے اخلاق اور معاملات میں درستگی لائی جائے. انہیں تفرقہ کی آگ سے نکالا جائے اور انہیں قران حکیم سمجھنے پر راغب کیا جائے. 
.
====عظیم نامہ====

ایک وضاحت


ایک وضاحت 



آپ احباب واقف ہیں کہ میں ایک عرصے سے سوشل میڈیا پر تحریریں لکھتا رہا ہوں. یہ تحریریں میرے لئے مباحثہ نہیں بلکہ اظہار کا ذریعہ ہیں. میں پوری دیانت سے وہی لکھنے کی کوشش کرتا ہوں جو اپنے قلب کی گہرائی میں محسوس کرتا ہوں. میں آپ سے یہ وعدہ کرسکتا ہوں کہ میں صرف وہی لکھوں گا جسے پورے اخلاص سے حق سمجھتا ہوں مگر میں آپ سے یہ وعدہ نہیں کرسکتا کہ صرف وہی لکھوں گا جسے آپ حق سمجھتے ہیں. میرے نزدیک محض الفاظ کا مداری بن کر واہ واہ سمیٹنا ایک کریہہ عمل ہے اور اکثر صورتوں میں گناہ ہے. یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ سوشل میڈیا کے اس سفر میں کبھی تو مجھ پر فلسفیانہ گتھیاں بیان کرنے کا جنون رہا اور کبھی ادبی جائزے پیش کرنے کا شوق. کبھی سیاسی تجزیات میری تحریر کو جکڑے رہے تو کبھی دینی مباحث بیان کرتا رہا. کبھی اپنے سفری تجربات کو زیر قلم لایا تو کبھی اصلاحی نصیحتیں لکھتا رہا. پچھلے دنوں علمی شخصیات کا تعارفی سلسلہ پیش کیا تھا اور اب کچھ عرصے سے اپنی ایسی 'آپ بیتیاں' بیان کررہا ہوں جن سے مجھے زندگی کے سبق حاصل ہوئے. 
.
کچھ احباب کو یہ شک ہونے لگا ہے کہ ان 'آپ بیتیوں' کی آڑ میں شائد میں کہانیاں گھڑ رہا ہوں اور کچھ کو یہ فکر ہونے لگی ہے کہ اس بیان سے میرا مقصد اپنی پارسائی کے ڈنکے بجوانا ہے. آج میں آپ کو اس تحریر کے ذریعے یہ اطمینان دلانا چاہتا ہوں کہ میں اللہ سے ہزار بار پناہ مانگتا ہوں کہ اپنی تحریروں سے جھوٹ پھیلاؤں اور میں اپنے رب سے ہزار بار پناہ طلب کرتا ہوں کہ خود کو نیک سمجھنے کی غلط فہمی پالوں. میں تو سر تا پیر گناہوں سے پلید ایک ایسا شخص ہوں جو فرائض کی پابندی بھی مشکل سے کرپاتا ہے. جس طرح کہتے ہیں کہ قبر کا حال صرف مردہ جانتا ہے، ویسے ہی اپنے برے حال سے میں خوب واقف ہوں. یہ تو رب العزت کا خاص کرم ہے کہ اس نے مجھ جیسوں کا پردہ رکھا ہے. آپ سب کو بھی میں بناء کسی بناوٹی عجز کے پوری صداقت سے یہ مشورہ دیتا ہوں کہ فیس بک کی تحریروں کے دھوکے میں آکر مجھ جیسے سیاہ کار کو نیک سمجھنے کی غلطی ہرگز نہ پالیں. بلکہ مجھے ایک ایسا گنہگار حساس انسان تصور کریں جو اپنے احساسات کو تحریر کرنے پر مجبور ہے. رہی بات ان حالیہ 'آپ بیتیوں' کی تو اطمینان رکھیں کہ یہ فی الواقع اپنی اصل میں سچ ہیں. یہ تو ضرور ہے کہ تفصیل کے بیان میں معمولی کم و بیشی ہوجانا لازمی امر ہے یا لکھاری کی یادداشت کا کسی مقام پر چوک جانا یا دانستہ کسی پہلو کو حذف کرکے بہتر الفاظ سے بدل دینا تحریر کا حصہ ہوا کرتا ہے. مگر یہ سب واقعات اپنی اصل میں قریب قریب ایسے ہی وقوع پزیر ہوئے ہیں جیسے راقم نے بیان کئے ہیں. 
.
میرا ماننا ہے کہ مومن کی زندگی میں 'انہونی' یا 'حسن اتفاق' نام کی کوئی شے نہیں ہوتی. وہ اس حقیقت کی معرفت پاچکا ہوتا ہے کہ زندگی کے خارج و باطن میں ہونے والی ہر واردات، ہر حادثہ، ہر واقعہ دراصل قادر المطلق کے 'گرینڈ پلان' ہی کا ایک چھوٹا سا جزو ہے. اس کا ہونا یا تو خالص 'امر الہی' کا ظہور ہے یا پھر 'اذن خداوندی' کا تقاضہ. سادہ الفاظ میں کوئی واقعہ یا تو رب العزت کے حکم کو براہ راست پورا کرتا ہے یا پھر دار الامتحان میں حاصل عارضی آزادی کا شاخسانہ ہوتا ہے. ایسی آزادی جو آزاد ہوکر بھی منشاء خداوندی کی پابند ہے. پس ایسی 'آپ بیتیاں' اور 'محیر العقل' واقعات صرف میری زندگی سے متعلق ہرگز نہیں ہیں بلکہ ان سے ہر انسان کی زندگی مزین ہوتی ہے. خوش نصیب وہ ہے جو ان واقعات کے پیچھے کارفرما مشیت الہی کا ادراک کرسکے اور اپنے لئے سبق اخذ کرسکے. 
.
====عظیم نامہ====

عید قربان


عید قربان



تقریباً گیارہ برس بعد پاکستان میں عید قربان منانا نصیب ہوا. دل میں ٹھان لیا تھا کہ خوشی منانے کے ساتھ ساتھ اس بار قربانی کے عمل کو قریب سے محسوس کرنے کی سعی کی جائے گی. ایک ماہ پہلے ہی گھر والوں کو یہ بتا دیا کہ اس دفعہ میں خود جاکر جانور (گائے) لاؤں گا، اسکا خیال رکھوں گا اور پھر اپنے ہاتھ سے چھری پھیروں گا. اب یہ بول تو دیا مگر سارا وقت ذہن پر دباؤ رہا. آج تک کسی جانور کو ذبح نہ کیا تھا، کسی کی ایسے جان نہ لی تھی ، سوچ کر بھی ہاتھ شل ہونے لگتے. طبیعت کی نرمی اور مہذب بننے کی کوشش نے میرا دل کسی سہمی ہوئی چڑیا جیسا کردیا تھا. کئی بار خیال آیا کہ یہ چھری پھیرنے والا ارادہ ترک کردوں مگر پھر کوئی کان میں ہلکے سے سرگوشی کرتا .."قربانی کی روح کو محسوس کرنا ذبح کے بناء ممکن نہیں".. خود کو بار بار ڈھارس دیتا کہ میاں اگر ایسا نازک دل رکھو گے تو بوقت ضرورت اللہ کے حکم پر جہاد و قتال کیسے کرو گے؟
.
خیر جناب وقت گزرتا گیا اور قربانی کا دن سامنے آگیا. میں نے خاص تاکید کی کہ چھری پھیرتے ہوئے کوئی تصویر نہ لی جائے. مجھے انٹرنیٹ پر ذبیحہ کی خون سے لت پت تصاویر دیکھ کر ہمیشہ کوفت ہوتی ہے. میں حیران ہوتا ہوں کہ کوئی کیسے کسی جاندار کو موت دیتے ہوئے پوز مار کے تصویریں بنا سکتا ہے یا تصویر اتار سکتا ہے؟ میری گزارش یہی ہوا کرتی ہے کہ ایسی تصویر لگا کر اپنے حیوان ہونے کا ثبوت نہ دیں. بہرحال وہ وقت آگیا جب جانور کو زمین پر لٹا دیا گیا اور میرے ہاتھ میں ایک نہایت تیز چھری دے دی گئی. میں اللہ کا نام لے کر مقبول دعائیں پڑھتا ہوا اسکی گردن پر آیا. لوگ حیران تھے کہ اتنا بڑا جانور بناء کسی مزاحمت کے زمین پر بناء تنگ کئے گرگیا اور اب بناء کسی احتجاج کے سکون سے لیٹا ہوا ہے. جیسے زبان حال سے کہہ رہا ہو .. "میرے آقا جلدی سے مجھے ذبح کردیجیۓ". میں نے کانپتے ہاتھوں سے چھری گردن پر رکھ دی. یہ وہ لمحہ تھا جب میرے ذہن میں ایک جھماکا ہوا ، پہلی بار یہ محسوس ہوا کہ ذبح کرنے والا بھی میں ہوں اور ذبح ہونے والا بھی میں ہی ہوں. پہلی بار حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی سنت نظر آئی. ایک طرف وہ باپ ہے جو اللہ کے حکم کی تعمیل میں اپنے لخت جگر کی گردن پر چھری رکھتا ہے تو دوسری جانب وہ بیٹا ہے جو مشیت الہی کے لئے اپنی گردن پیش کردیتا ہے. یہ تسلیم و رضا کا وہ اعلی مقام تھا ٰجہاں شعور و ادراک کے پر جل جاتے ہیں. اس ایک لمحے میں اس حوالگی کا عکس اپنے سینے میں محسوس کیا اور پورے اطمینان و سکون سے چھری چلا دی. کوئی پھر میرے کان میں کہہ رہا تھا : "اللہ اکبر. اللہ اکبر. لا الہ الا اللہ. واللہ اکبر. اللہ اکبر. وللہ الحمد."
.
====عظیم نامہ====

Wednesday, 27 July 2016

اب معجزات نہیں ہوتے


اب معجزات نہیں ہوتے



شادی کے بعد کے ابتدائی سالوں میں میرے مالی حالات مستحکم نہیں تھے. جتنا کماتا تھا ، اس سے الحمدللہ بس ضروریات زندگی کی گاڑی چل رہی تھی. میں، میری بیوی اور میری بیٹی ایک چھوٹے سے نہایت خستہ حال فلیٹ میں مقیم تھے. یہ فلیٹ سستا ضرور تھا مگر اس کی حالت یہ تھی کہ ایک بوسیدہ قبرستان سے ملا ہوا اور بے ہنگم درخت سے گھرا ہوا تھا. دیواروں میں پانی سے سیلن اتر آئی تھی اور گھر میں ہیٹنگ یعنی گھر گرم کرنے کا انتظام نہ ہونے کے برابر تھا. رات کے دوران جب سردی بڑھ جاتی تو اکثر میری بیٹی روتے ہوئے اٹھ کر شکایت کرتی کہ اس کے پیروں میں درد ہورہا ہے. میں اور میری بیوی اٹھ کر اسے ایک اور کمبل اوڑھاتے اور اس کے پیر دابتے رہتے. یہاں تک کہ وہ دوبارہ سو جائے. اس تنگی کے باوجود ہمیں سکون اور خوشی کی دولت ایسے ہی میسر تھی جیسے الحمدللہ آج میسر ہے. لیکن ایک بہتر گھر میں رہنے کی خواہش میرے دل میں ضرور دفن تھی. ان ہی دنوں علاقے میں ایک زبردست فلیٹس کی اسکیم کا اعلان کیا گیا. یہ فلیٹس قیمت میں دوسرے گھروں سے بہت زیادہ مہنگے مگر سہولیات سے مزین تھے. میرے دل میں کسی ندیدے بچے کی طرح یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کاش کبھی میں بھی ان فلیٹس میں رہ سکوں. تعمیر کی ابتدا میں وہاں تین جناتی قامت کی کرینیں لگائی گئیں. میں جب اپنی فیملی کے ساتھ ان کے پاس سے گزرتا تو اپنی بیٹی سے مخاطب ہو کر کہتا کہ "یہ سب سے بڑی والی کرین میں ہوں، یہ درمیانی والی کرین تمھاری ماما ہیں اور یہ چھوٹی والی کرین تم ہو" میرے اس بار بار کئے جانے والے مذاق سے چڑ کر میری بیٹی جواب دیتی کہ "او گاڈ آپ کو تو ہمیشہ ایک ہی جوک کرنا ہوتا ہے". میں مسکرا دیتا مگر اگلی بار پھر بے ساختہ یہی جملہ اسے کہتا. 
.
تعمیر کا کام آگے بڑھا تو دل سے مجبور ہوکر ایک روز میں قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فلیٹس میں چھپ کر داخل ہوگیا تاکہ انہیں اندر سے دیکھ سکوں. یہاں فلیٹوں کے چھ بڑے بڑے بلاکس تھے اور ان میں سینکڑوں کی تعداد میں فلیٹس تھے. ان بلاکس میں جو بلاک مجھے سب سے دلنشین لگا، میں اس میں کود گیا اور پھر اپنے پسندیدہ پہلے فلور پر پہنچا. اس فلور پر آٹھ فلیٹس موجود تھے. ان میں سے جو فلیٹ مجھے سب سے بہتر جگہ پر لگا، میں اس میں چھپ کر اندر چلا گیا. دو کمروں کا یہ فلیٹ مجھے اپنے دل سے بہت قریب محسوس ہوا. کافی دیر گزرارنے کے بعد اپنا دل تھامے واپس آگیا اور اپنی بیگم کو روداد سنائی. اسے بھی شوق ہوا تو میری حماقت کی حد دیکھیئے کہ مزدوروں اور سیکورٹی سے چھپ کر اسے بھی وہاں لے گیا. اپنا دیکھا ہوا فلیٹ اسے دکھایا اور دونوں ایک دوسرے سے تعریفیں کرتے یہ کہتے واپس آگئے کہ کتنا اچھا ہوتا اگر ہم یہاں رہ پاتے؟ .. اسی طرح کچھ اور دن گزرے اور فلیٹس کی تعمیر اپنے اختتام کو پہنچ گئی. ایک روز بہت صبح مجھے فون آیا. دوسری طرف گورنمنٹ کونسل کی کوئی خاتون مخاطب تھیں. انہوں نے بتایا کہ گورنمنٹ نے ایک اسکیم کے تحت ان سینکڑوں نئے فلیٹس میں سے چند گنتی کے فلیٹس خرید لئے ہیں جو وہ ان لوگوں کو دے رہی ہے جنہوں نے گورنمنٹ گھروں کیلئے درخوست دے رکھی تھی. آپ کی درخوست ہمارے پاس موجود ہے تو کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم وہاں موجود ایک فلیٹ آپ کو دے دیں اور آپ موجودہ کرائے سے کافی کم کرائے پر وہاں شفٹ ہوجائیں ؟ .. میں نے بوکھلاتے ہوئے خوشی سے نہال ہوکر لڑکھڑاتی آواز میں جواب دیا کہ ضرور 
.
اسی روز ہمیں دعوت دی گئی کہ ہم جا کر اپنا فلیٹ دیکھ لیں. وہاں بھاگم بھاگ پہنچے تو چھ بلاکس میں سے اسی بلاک میں، سات فلوروں میں سے اسی فلور پر اور سینکڑوں فلیٹوں میں سے وہی فلیٹ ہمارے نام نکلا تھا. آج الحمدللہ ثم الحمدللہ میں کوئی سات آٹھ برس سے اسی فلیٹ میں بخوشی مقیم ہوں اور اپنے رب کی عطا کو سوچ کر شکرگزار ہوں. میں حیران ہوتا ہوں جب لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ دعا کی کوئی حقیقت نہیں. میں مسکرا دیتا ہوں جب لوگ مصر ہوتے ہیں کہ اب معجزات نہیں ہوتے. اللہ اکبر. اللہ اکبر. لا الہ الا اللہ. واللہ اکبر. اللہ اکبر. وللہ الحمد.
.
====عظیم نامہ====

Tuesday, 26 July 2016

او - شٹ

او - شٹ



میری نوکری کی نوعیت ایسی ہے کہ اس میں ٹیکنکل سافٹ ویئر سے متعلق مسائل سلجھانا ہوتے ہیں. ظاہر ہے کہ بعض مسائل اتنے پیچیدہ یا ٹیڑھے ہوا کرتے ہیں کہ جنہیں سلجھانے کی ناکام کوشش کرتے کرتے انسان کو شدید غصہ آجائے. لہٰذا یہ عام بات ہے کہ اچانک میرا کوئی ساتھی اٹکے ہوئے مسئلے کو مادر پدر گالیاں دینے لگتا ہے یا اونچی آواز میں اپنی ہی کسی حماقت کو کوسنے لگتا ہے یا پھر جھنجھلا کر میز پر گھونسہ دے مارتا ہے. باقی ساتھی چونکہ اس ذہنی اذیت کو سمجھتے ہیں، اسلئے برا ماننے کی بجائے وہ ایک دوسرے کو آنکھ مار کر مسکراتے رہتے ہیں. میری اپنی عادت یہ ہے کہ جب کسی الجھاؤ میں گرفتار ہوں تو اپنے سر کے بال نادانستہ طور پر سختی سے تھام لیتا ہوں. یہی وجہ ہے کہ میری والدہ یا میری بیگم ایک لمحہ میں یہ جان لیتے ہیں کہ کب میں کسی ذہنی مشکل میں گرفتار ہوں؟بہرحال آج صبح کام کرتے ہوئے ایک غیرمتوقع مشکل پر بے اختیار زبان سے انگریزی کا لفظ 'شٹ' ادا ہوگیا. یہ کہتے ہی محسوس ہوا کہ سب مجھے حیرت سے دیکھ رہے ہیں. میں نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا تو مینجر سمیت اردگرد کے سب ساتھی آنکھیں پھاڑے مجھے گھور رہے تھے. ساتھ بیٹھا گورا مخاطب ہوا 'عظیم ! کیا تم نے ابھی ابھی لفظ 'شٹ' بولا ہے؟؟!!' .. میں نے سٹپٹا کر شرمندگی سے ہاں میں سر ہلادیا اور معذرت کی تو سب ہنس کر کہنے لگے کہ ہمیں اسلئے بہت حیرت ہوئی کہ کبھی تمہاری زبان سے اسطرح کا گندہ لفظ نہیں سنا ورنہ ہم سب تو بڑی گالیاں بھی مزے سے دے لیتے ہیں. یہ سن کر مجھے شرمندگی اور خوشی دونوں کا احساس ایک ساتھ ہوا. شرمندگی اس بات کی کہ آج میں ایسا لفظ کہہ گیا ہوں جو تہذیب کے خلاف ہے اور خوشی اس امر کی کہ میرے ساتھیوں نے اب تک اس ضمن میں مجھ سے خیر اخذ کیا تھا. الحمدللہ. اس تازہ واقعہ سے میں نے یہ سبق لیا ہے کہ لوگ چاہے بظاہر کتنے ہی لاتعلق نظر آئیں مگر آپ کے افکار و کردار ان پر ایک مخفی اثر ضرور مرتب کرتے ہیں. اللہ رب العزت مجھے اور آپ کو خیر عطا فرمائیں اور ہم سب سے خیر ہی کا صدور فرمائیں. آمین 
.
====عظیم نامہ====

چھوٹی سی نیکی


چھوٹی سی نیکی



پچھلے دسمبر ایک روز جب انگلینڈ میں شدید برف باری ہو رہی تھی اور ہر کسی کو سردی نے جکڑ رکھا تھا تو میں نے اپنی آفس کی کھڑکی سے دیکھا کہ میرا ایک ساتھی اس منجمد کردینے والی ہوا میں باہر دستانے چڑھائے اور ہاتھ میں بیلچہ تھامے راستے سے لوگوں کیلئے برف کے انبار صاف کررہا ہے. میں حیرت سے ٹھٹھرتا ہوا اسے دیکھتا رہا، کچھ دیر بعد جب اس سے ملاقات ہوئی تو پوچھا کہ تم تو میری طرح انجینئر ہو پھر تمہارے ذمہ اس سردی میں یہ سخت کام کس نے لگادیا؟. اس نے مسکرا کر جواب دیا کہ "یہ میری آج کی چھوٹی سی نیکی ہے".
.
چند روز پہلے آفس کے کچن میں رکھا ڈش واشر خراب ہوگیا. نتیجہ یہ ہوا کہ صفائی کرنے والو کیلئے برتنوں کے انبار لگنے لگے. دن کے اختتام پر کام ختم کرکے جب میں گھر جانے لگا تو دیکھا کہ ایک سینئر مینجر آستینیں چڑھائے سارے برتن مانجھ مانجھ کر دھو رہی ہے. میری استفسار کرتی نظروں کو دیکھا تو مسکرا کر مخاطب ہوئی کہ "یہ میری آج کی چھوٹی سی نیکی ہے".
.
ایسے ہی ان گنت مشاہدوں سے مجھے یہ سمجھ آنے لگا کہ نیکی صرف یہ نہیں کہ میں دو رکعت نماز زیادہ پڑھ لوں یا چندے کے ڈبے میں چند روپے ڈال آؤں بلکہ برتر نیکی یہ ہے کہ ایسے مواقع تلاش کروں جہاں مخلوق کے خاموشی سے کام آسکوں، کسی کی اذیت کم کرسکوں. کچھ روز پہلے ہمارے فلیٹس کی لفٹ خراب ہوگئی، جس کے بغیر کچرا نیچے لے جانا محال تھا. گھر کا کچرا پھینکنے کے لئے نکلا تو دیکھا کہ ایک پڑوسی خاتون نے بھی اپنا بہت سا کچرا باہر رکھ رکھا ہے. میں نے اس کا کچرا بھی ساتھ اٹھا لیا. پھر اس خیال سے کہ کچرے والے کو مشکل نہ ہو، ان کچرے کے بڑے بڑے بستوں کو گرہ لگا کر باندھ دیا. ظاہر ہے کہ اس سے میرے ہاتھ خراب ہوگئے. ساتھ چلتی ہوئی ایک کم عمر بچی نے حیرت سے میری طرف دیکھا تو بے اختیار میرے منہ سے نکلا "یہ میری آج کی چھوٹی سی نیکی ہے".
.
====عظیم نامہ====

ثقلین مشتاق سے ایک ملاقات


ثقلین مشتاق سے ایک ملاقات



.
کچھ سال پہلے ہماری مقامی مسجد میں پاکستان سے آئی ایک تبلیغی جماعت نے قیام کیا. اس جماعت میں سابقہ کرکٹرز ثقلین مشتاق اور محمد یوسف بھی شامل تھے. نماز مغرب کے بعد بھائی ثقلین مشتاق نے ایک پراثر اور سادہ اسلوب میں درس دیا. جس میں انہوں نے اپنے دین کے سفر کے بارے میں بھی واقعات سنائے اور ساتھ ہی تفصیل سے نماز، روزہ، تسبیحات، صدقات، تلاوت، تبلیغ وغیرہ کے فضائل بھی بیان کئے. جب آپ کا بیان ختم ہوا تو مجھے اپنے ایک دوست کے ساتھ ان سے گفتگو کا موقع حاصل ہوا. صدق دل سے شکریہ ادا کرنے کے بعد میں نے ان سے قدرے سپاٹ انداز میں کچھ یوں کہا کہ " ثقلین بھائی آپ نے ماشاللہ اتنی دیر خوبصورت گفتگو کی جس میں آپ نے اپنے سننے والو کو دعوت و تبلیغ سمیت تقریبا ہر عبادت و نیکی کی ترغیب دی. مگر مجھے افسوس ہوا کہ اس سارے وقت میں ایک بار بھی آپ نے مخاطبین کو قران حکیم سمجھنے کی رغبت نہیں دلائی جو بلاشبہ فہم دین کے لئے سب سے ضروری ہے" 
.
گو میں نے اپنا یہ اعتراض تہذیب کو ملحوظ رکھ کر ہی پیش کیا تھا مگر اس کی نوعیت خاصی ناقدانہ تھی. مجھے قوی توقع تھی کہ ایک عام سے انسان کی ایسی غیر متوقع تنقید پر ثقلین بھائی جیسے مشہور و معروف انسان غصہ میں کوئی سخت جواب دے سکتے ہیں. لیکن اس وقت مجھے خوشگوار حیرت ہوئی جب توقع کے برعکس ان کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور وہ پوری ندامت سے بولے کہ آپ کی بات واقعی درست ہے. مجھے واقعی لوگوں کو قران حکیم سے جڑنے کی ترغیب دینی چاہیئے تھی. پھر بولے کہ اب جو لندن میں دیگر مقامات پر مجھے گفتگو کرنی ہے، میں وہاں ضرور اسے شامل کروں گا. ان کے لہجے سے ان کا اخلاص اور سچائی پوری طرح سے چھلک رہے تھے. میں جو کچھ لمحہ پہلے ناقدانہ ذہن سے مخاطب تھا، اب دل کی گہرائی میں ان کیلئے محبت کا جذبہ محسوس کرنے لگا. مومن کا یہ خاصہ ہے کہ اسے جب خیر کی دعوت دی جائے یا دینی اعتبار سے اس کی کسی غلطی کی تصحیح کی جائے تو وہ کسی انا پرست کی طرح اپنی ہتک محسوس نہیں کرتا بلکہ فوری اپنی غلطی سے رجوع کرتا ہے اور شکرگزار ہوتا ہے. 
.
====عظیم نامہ====

Friday, 22 July 2016

ترکی کا مختصر تفریحی سفر اور اس کی روداد


ترکی کا مختصر تفریحی سفر اور اس کی روداد 




.الحمدللہ .. ترکی میں سات روز کی تعطیل گزار کر گزشتہ رات انگلینڈ واپسی ہوگئی. جب گیا تھا تو رنگت ایک عام پاکستانی کی مانند نیم گندمی تھی مگر اب جو لوٹا ہوں تو ویسٹ انڈیز کا کورٹنی واش نظر آرہا ہوں. گویا اصطلاحی نہ سہی مگر لغوی اعتبار سے منہ کالا کروا کر واپسی ہوئی ہے. لکھنے کو اتنا کچھ ہے کہ تفصیل سے لکھوں تو شائد ایک مختصر سفر نامہ بن جائے مگر اتنا لکھنے کا نہ ارادہ ہے نہ ہمت. البتہ یہ لکھنے میں کوئی مبالغہ نہیں ہوگا کہ یہ میری اب تک کی زندگی کا سب سے پرسکون اور یادگار سفر رہا ہے. مجھے دور یا نزدیک سے جاننے والو کو بجا طور پر مجھ سے یہ امید ہوا کرتی ہے کہ میں ان جگہوں پر جانا ہی پسند کرتا ہوں گا جہاں تاریخ یا فسلفے کا سامان ہو یا پھر چکا چوند کردینے والی تعمیرات ہوں مگر حقیقت یہ ہے کہ میرے نزدیک مثالی و من پسند جگہیں وہ ہیں جہاں اردگرد قدرت کے فطری مظاہر ہوں، جو شہر کی مصنوعیت سے دور ہو، جہاں لوگ سادہ مزاج ہوں، جہاں ہریالی ہو، جہاں شفاف سمندر ہو، جہاں ٹھیلوں سے سجے بازار ہوں، جہاں چائے قہوے کے ڈھابے ہوں. یہی کچھ ذہن میں سجا کر میں ترکی کے ایک ایسے ہی علاقہ میں مقیم تھا جسے الانیہ انطالیہ کہا جاتا ہے. گو میرا قیام ایک خوبصورت فائیو اسٹار ریسورٹ میں تھا جو سوئمنگ پول، جکوزی، شفاف ترین نیلے ساحل سمندر، ان گنت پکوان، انواع و اقسام کے مشروب، آرام دہ کمروں جیسی بیشمار سہولیات سے لبریز تھا. مگر ہوٹل سے باہر کا علاقہ نہایت سادہ اور فطرت کے سحر انگیز مظاہر سے مزین نظر آتا تھا. ترکی واقعی ایک ایسا ملک ہے جو مجموعہ اضداد ہے. جو ایک طرف عظیم اسلامی تاریخ سے مالا مال ہے تو دوسری طرف رومن امپائر کے باقیات کو پوری شان سے سموئے ہوئے ہے. جو ایک جانب مغرب کی فحش روایات کو خود میں جگہ دیئے ہوئے ہے تو دوسری جانب اسلام کی شرم و حیاء کا بھی پوری شدت سے معترف ہے. جہاں ایک طرف یورپی بننے کے جنون میں ہر حد پھلانگ لینے کی خواہش ہے تو دوسری طرف فرد و معاشرے میں احیاء اسلام کی بھرپور تمنا ہے. جہاں ایک جانب فلک بوس حسین عمارتیں ہیں تو دوسری جانب گاؤں کی پرسکون زندگی بھی دھیمے سے مسکرا رہی ہے. جہاں ایک طرف آئینے کی مانند بیشمار شفاف جھرنے اور سمندر ہیں تو دوسری طرف ایسی ایسی جدید سہولیات میسر ہے جنہیں دیکھ کر جنت کا گمان ہو. جہاں ایک جانب ہوٹلوں سے میوزک کا شور نکل رہا ہے تو دوسری جانب مساجد سے اذانوں کی دل نشین آواز بھی گونج رہی ہے. جہاں ایک طرف ہر پکوان حلال ہے وہاں شراب کی دکانیں بھی عام کھلی ہوئی ہیں. (یہ اور بات کہ انگلینڈ کی طرح مجھے ایک بھی شخص شراب کے نشے میں دھت نہیں نظر آیا) گویا اگر میں غالب کے اس مصرعہ 'بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے' کو ترکی کے تناظر میں پیش کروں تو کچھ ایسی صورت ہو کہ 'مجموعہ اضداد ہے ترکی میرے آگے'. دھیان رہے کہ راقم نے اب تک استنبول یا انقرہ جیسے نمائندہ شہروں کا سفر نہیں کیا ہے بلکہ اس کا سفر انطالیہ، الانیہ، ایوسلار، انسیکم اور پاموککالے تک محدود رہا ہے. 
.
ترکی کے بارے میں ایک اور نہایت فرحت انگیز بات یہ ہے کہ اس کی عوام بڑی تعداد میں پاکستانی عوام سے محبت کرتی ہے. میرے دل سے یہ دعا نکلتی ہے کہ اللہ میرے وطن پاکستان کو ایسی ہی عزت دنیا کے تمام ممالک میں عطا کرے جیسی عزت اسے ترکی کی عوام میں حاصل ہے. مجھے جانے سے پہلے کئی لوگوں نے یہ نصیحت کی تھی کہ خود کو برٹش مت بتانا بلکہ پاکستانی کہنا. جیسے ایک امریکی عزیز نے مجھے اپنا واقعہ بتایا کہ جب تک وہ خود کو امریکی کہتا رہا لوگ اس سے واجبی سا سلوک کرتے رہے لیکن جیسے ہی اس نے کسی کے کہنے پر خود کو پاکستانی بتایا تو ہر کوئی مدد کیلئے سبقت لینے لگا. یہی معاملہ میرے ساتھ بھی پیش آیا. اکثر دکانداروں کو جب معلوم ہوتا کہ میں پاکستانی ہوں تو وہ نہایت خوش ہو کر اشارے سے سمجھاتے کہ "ترکی پاکستانی برادر". حیرت انگیز طور پر میرے لئے قیمتیں کم کردیا کرتے اور کئی لوگوں نے مجھے صرف اسلئے مفت تحفے دیئے کہ میں پاکستانی ہوں. آپ اگر میری اس بات پر یقین نہ کریں تو میں سمجھ سکتا ہوں کیونکہ اگر مجھ پر نہ بیتی ہوتی تو میں کبھی یقین نہ کرتا. ترکی کے لوگ اپنے وطن سے شدید محبت کرتے ہیں. امریکہ کے بعد یہ دوسرا ایسا ملک ہے جہاں میں نے کثیر تعداد میں ملک کے جھنڈے لگے دیکھے اور لوگوں کو قومی ترانوں پر جذباتی ہوتے محسوس کیا. ترکی میں یورو کرنسی بھی اتنی ہی مقبول ہے جتنی ان کی اپنی کرنسی لیرا. کچھ تصاویر اور ناموں سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ ان کے یہاں ملا نصیرالدین، علی بابا اور الہ دین کے کردار ابھی بھی مقبول ہیں. معلوم نہیں کا میرا یہ احساس کتنا درست ہے؟ مگر مجھے بہت سے لوگوں میں رینگنے والے جانوروں سے رغبت نظر آئی. جیسے ایک ترک عورت اچانک مجھ سے پوچھنے لگی کہ کیا پاکستان میں کوبرا سانپ ہوتے ہیں؟ پھر اپنے ہاں پائے جانے والے سانپ کی اقسام بتانے لگی. اسی طرح کئی دکانوں پر چھپکلی کے ربر والے کھلونے نظر آئے، اسی طرح مجھے کم از کم تین لوگوں کے پاس ایک بڑی چھپکلی جسے شائد اردو زبان میں "گوہ" کہتے ہیں پلی ہوئی نظر آئی جسے وہ ہاتھ میں لے کر سہلاتے رہتے. ایک کے ساتھ میں نے تصویر بھی کھینچوائی. بازار میں ایک نیلی آنکھ جیسا نشان ہر جگہ نظر آیا۔ فریج میگنٹ ہو یا استعمال کے برتن یا پھر سجانے کی کوئی دیگر چیزیں سب پر یہ نیلی آنکھ سی نظر آتی ہے۔ ترک عوام کا ماننا ہے کہ اس کے ذریعے بری نظر اور منفی اثرات کو دور کیا جاسکتا ہے۔ ایک دکان مالک نے مجھے یہ نشان تحفہ کے طور پر بھی دیا۔ ترک لوگ اپنی زبان ہی میں بات کرتے ہیں اور مجھے بہت کم لوگ ایسے ملے جو انگریزی بول سکتے ہوں. ترکی کے عوام صحیح معنوں میں صفائی پسند ہیں اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ ان جگہوں پر بھی کچرا نہیں پھینکتے جہاں حکومت کی جانب سے بھی کوئی اہتمام نہ کیا گیا ہو. اس لحاظ سے مجھے ترک عوام برطانوی عوام سے زیادہ صفائی پسند معلوم ہوئے. ہر کام نہایت مستعدی اور منظم انداز میں انجام دیا جاتا ہے مگر خوبصورتی یہ ہے کہ یہ نظام مغربی ممالک کی طرح پیچیدہ نہیں بلکہ بہت سادہ معلوم ہوتا ہے. مجھے بمشکل تمام صرف ایک جگہ کچھ کاغزات پر دستخط کرنے پڑے ورنہ ہر جگہ بس مرحلہ وار کام انجام دے دیا جاتا. اس آسان نظام نے مجھے موجودہ مدینہ کی یاد دلائی. 
.

میرے ترکی پہنچنے کے فوری بعد ہی وہ حالیہ تاریخی واقعہ ہوا جس میں فوج کے ایک باغی گروہ نے اردغوان کی حکومت الٹنے کی ناکام کوشش کی. عوام نے جس مثالی انداز میں اس کوشش کو ناکام بنایا اس سے آپ سب بخوبی واقف ہیں. ترک عوام اس وقت دو بڑے گروہوں میں منقسم ہے. پہلا گروہ وہ ہے جو مغرب کے رنگ میں پوری طرح رنگ کر یورپی کہلانے کا متمنی ہے اور دوسرا گروہ وہ ہے جو یورپی بننا تو چاہتا ہے مگر اپنے اسلامی تشخص کو قائم رکھ کر. یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ترکی کی عوام میں اسلام سے قربت بڑھ رہی ہے اور اب ان کا مجموعی شعور ایک بار پھر اسی رفعت کا متمنی ہے جو کبھی خلافت عثمانیہ کی صورت میں ان کا خاصہ تھی. میں پوری دیانتداری سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ ترک عوام نے میرے دل کو اپنے اخلاق سے جیت لیا ہے. ایسے اخلاق جو برصغیر پاک و ہند میں عوامی سطح پر مفقود ہیں اور جن کا عکس مجھے عرب ممالک میں بلکل نظر نہیں آیا. چار ایسے مواقع آئے جو مجھے اپنے اس مختصر سفر میں سب سے زیادہ دل نشین لگے. پہلا موقع جب میں نے زندگی میں پہلی بار سمندر کے بیچ "اسکوبا ڈائیونگ" یعنی غوطہ زنی کی اور سمندر کی گہرائی میں موجود مخلوقات کو دیکھا. دوسرا موقع جب ایک قزاقی انداز کے نہایت خوبصورت جہاز میں پانچ گھنٹے ہمیں سمندر سے گزارا گیا جہاں میں نے دو رنگ کر پانیوں کو جدا جدا دیکھا اور دونوں پانیوں میں سے گزرا. قران مجید کی اس آیت کو یاد کیا جس میں دو پانیوں کو جدا کرنے کا ذکر ہے. لوگوں کو پہاڑوں پر چڑھ کر سمندر میں چھلانگیں لگاتے دیکھا. تیسرا موقع پاموککالے کا وہ ہوشربا پہاڑی مقام جس کے معنی ترکی زبان میں 'روئی کا محل' ہیں. جہاں کاربونیٹ سمندری معدنیات کے سفید پہاڑ قدرتی زینوں کے ساتھ موجود ہیں اور جہاں قدم قدم پر ان ہی معدنیات سے بھرپور چھوٹے چھوٹے گرم پانی کے تالاب ہیں. بہت امکان ہے کہ آپ نے اس ناقابل یقین مقام کو انگریزی یا ہندی فلموں میں دیکھ رکھا ہو. پاموککالے سےواپسی پر بس میں کوئی آٹھ مختلف ممالک کے لوگ سوارتھے. سب پرلازم تھا کہ اپنی زبان میں کوئی گانے کے بول سنائے جسے سب انجوائے کریں. اپنی باری آئی تو بچاؤ کی کوئی صورت نہ پاکر پرانا گانا "کو-کو-کورینا" سنایا اور چوتھا موقع "ہایرہ پولس" رومی سلطنت کا وہ تاریخی پر ہیبت پنڈال جہاں پندرہ ہزار عوام کیلئے گلیڈیٹرز کے مقابلے کروائے جاتے تھے. لکھنے کو بہت کچھ ہے مگر تحریر اختصار کی کوشش کے باوجود طویل ہوچکی لہٰذا اسی پر اکتفا کرتا ہوں. کچھ تصاویر بھی ان شاء للہ جلد شیئر کروں گا. 
.
====عظیم نامہ====

ترکی کا مختصر تفریحی سفر اور اس کی روداد


ترکی کا مختصر تفریحی سفر اور اس کی روداد 




.الحمدللہ .. ترکی میں سات روز کی تعطیل گزار کر گزشتہ رات انگلینڈ واپسی ہوگئی. جب گیا تھا تو رنگت ایک عام پاکستانی کی مانند نیم گندمی تھی مگر اب جو لوٹا ہوں تو ویسٹ انڈیز کا کورٹنی واش نظر آرہا ہوں. گویا اصطلاحی نہ سہی مگر لغوی اعتبار سے منہ کالا کروا کر واپسی ہوئی ہے. لکھنے کو اتنا کچھ ہے کہ تفصیل سے لکھوں تو شائد ایک مختصر سفر نامہ بن جائے مگر اتنا لکھنے کا نہ ارادہ ہے نہ ہمت. البتہ یہ لکھنے میں کوئی مبالغہ نہیں ہوگا کہ یہ میری اب تک کی زندگی کا سب سے پرسکون اور یادگار سفر رہا ہے. مجھے دور یا نزدیک سے جاننے والو کو بجا طور پر مجھ سے یہ امید ہوا کرتی ہے کہ میں ان جگہوں پر جانا ہی پسند کرتا ہوں گا جہاں تاریخ یا فسلفے کا سامان ہو یا پھر چکا چوند کردینے والی تعمیرات ہوں مگر حقیقت یہ ہے کہ میرے نزدیک مثالی و من پسند جگہیں وہ ہیں جہاں اردگرد قدرت کے فطری مظاہر ہوں، جو شہر کی مصنوعیت سے دور ہو، جہاں لوگ سادہ مزاج ہوں، جہاں ہریالی ہو، جہاں شفاف سمندر ہو، جہاں ٹھیلوں سے سجے بازار ہوں، جہاں چائے قہوے کے ڈھابے ہوں. یہی کچھ ذہن میں سجا کر میں ترکی کے ایک ایسے ہی علاقہ میں مقیم تھا جسے الانیہ انطالیہ کہا جاتا ہے. گو میرا قیام ایک خوبصورت فائیو اسٹار ریسورٹ میں تھا جو سوئمنگ پول، جکوزی، شفاف ترین نیلے ساحل سمندر، ان گنت پکوان، انواع و اقسام کے مشروب، آرام دہ کمروں جیسی بیشمار سہولیات سے لبریز تھا. مگر ہوٹل سے باہر کا علاقہ نہایت سادہ اور فطرت کے سحر انگیز مظاہر سے مزین نظر آتا تھا. ترکی واقعی ایک ایسا ملک ہے جو مجموعہ اضداد ہے. جو ایک طرف عظیم اسلامی تاریخ سے مالا مال ہے تو دوسری طرف رومن امپائر کے باقیات کو پوری شان سے سموئے ہوئے ہے. جو ایک جانب مغرب کی فحش روایات کو خود میں جگہ دیئے ہوئے ہے تو دوسری جانب اسلام کی شرم و حیاء کا بھی پوری شدت سے معترف ہے. جہاں ایک طرف یورپی بننے کے جنون میں ہر حد پھلانگ لینے کی خواہش ہے تو دوسری طرف فرد و معاشرے میں احیاء اسلام کی بھرپور تمنا ہے. جہاں ایک جانب فلک بوس حسین عمارتیں ہیں تو دوسری جانب گاؤں کی پرسکون زندگی بھی دھیمے سے مسکرا رہی ہے. جہاں ایک طرف آئینے کی مانند بیشمار شفاف جھرنے اور سمندر ہیں تو دوسری طرف ایسی ایسی جدید سہولیات میسر ہے جنہیں دیکھ کر جنت کا گمان ہو. جہاں ایک جانب ہوٹلوں سے میوزک کا شور نکل رہا ہے تو دوسری جانب مساجد سے اذانوں کی دل نشین آواز بھی گونج رہی ہے. جہاں ایک طرف ہر پکوان حلال ہے وہاں شراب کی دکانیں بھی عام کھلی ہوئی ہیں. (یہ اور بات کہ انگلینڈ کی طرح مجھے ایک بھی شخص شراب کے نشے میں دھت نہیں نظر آیا) گویا اگر میں غالب کے اس مصرعہ 'بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے' کو ترکی کے تناظر میں پیش کروں تو کچھ ایسی صورت ہو کہ 'مجموعہ اضداد ہے ترکی میرے آگے'. دھیان رہے کہ راقم نے اب تک استنبول یا انقرہ جیسے نمائندہ شہروں کا سفر نہیں کیا ہے بلکہ اس کا سفر انطالیہ، الانیہ، ایوسلار، انسیکم اور پاموککالے تک محدود رہا ہے. 
.
ترکی کے بارے میں ایک اور نہایت فرحت انگیز بات یہ ہے کہ اس کی عوام بڑی تعداد میں پاکستانی عوام سے محبت کرتی ہے. میرے دل سے یہ دعا نکلتی ہے کہ اللہ میرے وطن پاکستان کو ایسی ہی عزت دنیا کے تمام ممالک میں عطا کرے جیسی عزت اسے ترکی کی عوام میں حاصل ہے. مجھے جانے سے پہلے کئی لوگوں نے یہ نصیحت کی تھی کہ خود کو برٹش مت بتانا بلکہ پاکستانی کہنا. جیسے ایک امریکی عزیز نے مجھے اپنا واقعہ بتایا کہ جب تک وہ خود کو امریکی کہتا رہا لوگ اس سے واجبی سا سلوک کرتے رہے لیکن جیسے ہی اس نے کسی کے کہنے پر خود کو پاکستانی بتایا تو ہر کوئی مدد کیلئے سبقت لینے لگا. یہی معاملہ میرے ساتھ بھی پیش آیا. اکثر دکانداروں کو جب معلوم ہوتا کہ میں پاکستانی ہوں تو وہ نہایت خوش ہو کر اشارے سے سمجھاتے کہ "ترکی پاکستانی برادر". حیرت انگیز طور پر میرے لئے قیمتیں کم کردیا کرتے اور کئی لوگوں نے مجھے صرف اسلئے مفت تحفے دیئے کہ میں پاکستانی ہوں. آپ اگر میری اس بات پر یقین نہ کریں تو میں سمجھ سکتا ہوں کیونکہ اگر مجھ پر نہ بیتی ہوتی تو میں کبھی یقین نہ کرتا. ترکی کے لوگ اپنے وطن سے شدید محبت کرتے ہیں. امریکہ کے بعد یہ دوسرا ایسا ملک ہے جہاں میں نے کثیر تعداد میں ملک کے جھنڈے لگے دیکھے اور لوگوں کو قومی ترانوں پر جذباتی ہوتے محسوس کیا. ترکی میں یورو کرنسی بھی اتنی ہی مقبول ہے جتنی ان کی اپنی کرنسی لیرا. کچھ تصاویر اور ناموں سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ ان کے یہاں ملا نصیرالدین، علی بابا اور الہ دین کے کردار ابھی بھی مقبول ہیں. معلوم نہیں کا میرا یہ احساس کتنا درست ہے؟ مگر مجھے بہت سے لوگوں میں رینگنے والے جانوروں سے رغبت نظر آئی. جیسے ایک ترک عورت اچانک مجھ سے پوچھنے لگی کہ کیا پاکستان میں کوبرا سانپ ہوتے ہیں؟ پھر اپنے ہاں پائے جانے والے سانپ کی اقسام بتانے لگی. اسی طرح کئی دکانوں پر چھپکلی کے ربر والے کھلونے نظر آئے، اسی طرح مجھے کم از کم تین لوگوں کے پاس ایک بڑی چھپکلی جسے شائد اردو زبان میں "گوہ" کہتے ہیں پلی ہوئی نظر آئی جسے وہ ہاتھ میں لے کر سہلاتے رہتے. ایک کے ساتھ میں نے تصویر بھی کھینچوائی. بازار میں ایک نیلی آنکھ جیسا نشان ہر جگہ نظر آیا۔ فریج میگنٹ ہو یا استعمال کے برتن یا پھر سجانے کی کوئی دیگر چیزیں سب پر یہ نیلی آنکھ سی نظر آتی ہے۔ ترک عوام کا ماننا ہے کہ اس کے ذریعے بری نظر اور منفی اثرات کو دور کیا جاسکتا ہے۔ ایک دکان مالک نے مجھے یہ نشان تحفہ کے طور پر بھی دیا۔ ترک لوگ اپنی زبان ہی میں بات کرتے ہیں اور مجھے بہت کم لوگ ایسے ملے جو انگریزی بول سکتے ہوں. ترکی کے عوام صحیح معنوں میں صفائی پسند ہیں اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ ان جگہوں پر بھی کچرا نہیں پھینکتے جہاں حکومت کی جانب سے بھی کوئی اہتمام نہ کیا گیا ہو. اس لحاظ سے مجھے ترک عوام برطانوی عوام سے زیادہ صفائی پسند معلوم ہوئے. ہر کام نہایت مستعدی اور منظم انداز میں انجام دیا جاتا ہے مگر خوبصورتی یہ ہے کہ یہ نظام مغربی ممالک کی طرح پیچیدہ نہیں بلکہ بہت سادہ معلوم ہوتا ہے. مجھے بمشکل تمام صرف ایک جگہ کچھ کاغزات پر دستخط کرنے پڑے ورنہ ہر جگہ بس مرحلہ وار کام انجام دے دیا جاتا. اس آسان نظام نے مجھے موجودہ مدینہ کی یاد دلائی. 
.
میرے ترکی پہنچنے کے فوری بعد ہی وہ حالیہ تاریخی واقعہ ہوا جس میں فوج کے ایک باغی گروہ نے اردغوان کی حکومت الٹنے کی ناکام کوشش کی. عوام نے جس مثالی انداز میں اس کوشش کو ناکام بنایا اس سے آپ سب بخوبی واقف ہیں. ترک عوام اس وقت دو بڑے گروہوں میں منقسم ہے. پہلا گروہ وہ ہے جو مغرب کے رنگ میں پوری طرح رنگ کر یورپی کہلانے کا متمنی ہے اور دوسرا گروہ وہ ہے جو یورپی بننا تو چاہتا ہے مگر اپنے اسلامی تشخص کو قائم رکھ کر. یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ترکی کی عوام میں اسلام سے قربت بڑھ رہی ہے اور اب ان کا مجموعی شعور ایک بار پھر اسی رفعت کا متمنی ہے جو کبھی خلافت عثمانیہ کی صورت میں ان کا خاصہ تھی. میں پوری دیانتداری سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ ترک عوام نے میرے دل کو اپنے اخلاق سے جیت لیا ہے. ایسے اخلاق جو برصغیر پاک و ہند میں عوامی سطح پر مفقود ہیں اور جن کا عکس مجھے عرب ممالک میں بلکل نظر نہیں آیا. چار ایسے مواقع آئے جو مجھے اپنے اس مختصر سفر میں سب سے زیادہ دل نشین لگے. پہلا موقع جب میں نے زندگی میں پہلی بار سمندر کے بیچ "اسکوبا ڈائیونگ" یعنی غوطہ زنی کی اور سمندر کی گہرائی میں موجود مخلوقات کو دیکھا. دوسرا موقع جب ایک قزاقی انداز کے نہایت خوبصورت جہاز میں پانچ گھنٹے ہمیں سمندر سے گزارا گیا جہاں میں نے دو رنگ کر پانیوں کو جدا جدا دیکھا اور دونوں پانیوں میں سے گزرا. قران مجید کی اس آیت کو یاد کیا جس میں دو پانیوں کو جدا کرنے کا ذکر ہے. لوگوں کو پہاڑوں پر چڑھ کر سمندر میں چھلانگیں لگاتے دیکھا. تیسرا موقع پاموککالے کا وہ ہوشربا پہاڑی مقام جس کے معنی ترکی زبان میں 'روئی کا محل' ہیں. جہاں کاربونیٹ سمندری معدنیات کے سفید پہاڑ قدرتی زینوں کے ساتھ موجود ہیں اور جہاں قدم قدم پر ان ہی معدنیات سے بھرپور چھوٹے چھوٹے گرم پانی کے تالاب ہیں. بہت امکان ہے کہ آپ نے اس ناقابل یقین مقام کو انگریزی یا ہندی فلموں میں دیکھ رکھا ہو. پاموککالے سےواپسی پر بس میں کوئی آٹھ مختلف ممالک کے لوگ سوارتھے. سب پرلازم تھا کہ اپنی زبان میں کوئی گانے کے بول سنائے جسے سب انجوائے کریں. اپنی باری آئی تو بچاؤ کی کوئی صورت نہ پاکر پرانا گانا "کو-کو-کورینا" سنایا اور چوتھا موقع "ہایرہ پولس" رومی سلطنت کا وہ تاریخی پر ہیبت پنڈال جہاں پندرہ ہزار عوام کیلئے گلیڈیٹرز کے مقابلے کروائے جاتے تھے. لکھنے کو بہت کچھ ہے مگر تحریر اختصار کی کوشش کے باوجود طویل ہوچکی لہٰذا اسی پر اکتفا کرتا ہوں. کچھ تصاویر بھی ان شاء للہ جلد شیئر کروں گا. 
.
====عظیم نامہ====

Wednesday, 13 July 2016

درود شریف


درود شریف


درود شریف عربی کا نہیں فارسی کا لفظ ہے. عربی میں اس کا متبادل لفظ ' الصلاة على النبي' ہے. یہ واحد ذکر ہے جو انسان، ملائکہ اور رب العزت سب میں رائج ہے اور جس کی نسبت اور حکم کواللہ پاک نے خود سے جوڑ کر صادر کیا ہے.
.
(اِنَّ اللہَ وَ مَلَائِکَتَہُ یُصَلّوْنَ عَلی النَّبِیْ یَا ایُّہا الَّذِیْنَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْماً) سورہ احزاب آیت ۵۶۔
بیشک اللہ اور اس کے فرشتے پیغمبر (اور ان کی آل پر) درود بھیجتے ہیں تو اے ایمان والو تم بھی درود بھیجتے رہو اور برابر سلام کرتے رہو"
.
اگر درود شریف کا جائزہ لیا جائے تو یہ امر کھل کے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ اپنے معنوں اور حقیقت دونوں کے اعتبار سے ایک دعا ہے. ایک ایسی دعا جس میں ہم رب کائنات سے یہ التجا کرتے ہیں کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر مزید رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائیں. ہم جانتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ سب سے بلند ہے اور انہیں اپنے رب کی اونچی ترین نعمتیں حاصل ہیں مگر اس کے باوجود بھی ہمیں ان کیلئے درود کی صورت دعا کی ترغیب دی گئی ہے. اسکی کئی وجوہات ہیں، جن میں سے دو اہم ترین ہیں. پہلی یہ کہ رب کریم کی عطا کی کوئی حد نہیں، وہ بلند ترین مقام کو بھی مزید سے مزید بلندی عطا کرسکتے ہیں. لہٰذا کیا مضائقہ ہے؟ کہ ہمارے درور کو بہانہ بنا کر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل کو مزید رفعتیں عطا کردی جائیں. (گو میرا رب کسی سبب کے بغیر بھی عطا کرنے پر یقیناّ قادر ہیں) دوسری وجہ یہ کہ دعا فقط تقاضہ ہی نہیں ہوتی بلکہ جس کیلئے دعا کی جارہی ہے اس سے تعلق کا اظہار بھی ہوتی ہے. آپ اپنی اولاد یا والدین کیلئے دعا کرتے ہیں، وجہ یہ ہے کہ وہ آپ کے دل کے قریب ہیں. درود کے ذریعے بندہ مومن کا اپنے محسن آقا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قلبی تعلق مظبوط تر ہوتا جاتا ہے. اسکی ایک مثال یا دلیل یہ بھی ہے کہ ہم خوب واقف ہیں کہ ہمارے ذکر و تسبیح سے اللہ عزوجل کی شان میں اضافہ یا کمی نہیں ہوتی لیکن پھر بھی ہمیں اللہ اکبر اور دیگر کلمات و عبادات کے ذریعے رب کی بڑائی بیان کرنے کا حکم دیا گیا ہے. تاکہ اسی بہانے ہمارا تعلق اپنے خالق سے قریب تر ہوتا جائے. دعا ہمیشہ مانگی جاتی ہے پڑھی نہیں جاتی. افسوس یہ ہے کہ ہمیں درود پڑھنا تو سکھا دیا گیا لیکن مانگنا کسی نے نہ سکھایا. ضرورت ہے اس امر کی کہ درود کے الفاظ ادا کرتے ہوے یہ حقیقت ملحوظ رہے کہ ہم اپنے پروردگار سے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل کیلئے رحمت و برکت کی دعا مانگ رہے ہیں. یہ سوچ و سمجھ ان الفاظ میں اپ کی دلچسپی اور لطف دونوں کو کئی گنا بڑھا دیگی.
.
ایک اور پہلو جو ہماری توجہ کا طالب ہے وہ یہ کہ جب ہم اس درود میں ' آل رسول ' کا ذکر کرتے ہیں تو اہل علم کی ایک رائے کے مطابق اس سے مراد محض رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان نہیں ہوتا بلکے اپنے وسیع معنوں میں یہ لفظ تمام امت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا احاطہ کرتا ہے. یہ قرآن اور عربی دونوں کا اسلوب ہے کہ لفظ ' آل ' سے مراد قبیلہ یا امّت بھی ہوتا ہے. اسی لیے قرآن پاک میں جب فرعون کے ماننے والو کا ذکر ہوا تو انہیں ' آل فرعون ' کہہ کر مخاطب کیا گیا. لہٰذا آئندہ جب ہم درود میں آل رسول کا ذکر کریں تو یہ جانتے ہوئے کریں کہ اسمیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان والے بھی شامل ہیں اور تمام امتی بشمول میں خود بھی شامل ہوں. یہ سوچ جہاں آپ کے قلب کو مزید فرحت دے گی کہ گنہگار ہی سہی لیکن میں بھی امتی ہوں وہاں یہ درود پاک کے الفاظ سے آپ کے زندہ تعلق کو تقویت دے گی. ان شاء اللہ. آئیے ایک بار صدق دل سے درود پڑھ لیتے ہیں.
.
====عظیم نامہ====

رمضان سے متعلق مشورہ


رمضان سے متعلق مشورہ



اگر آپ بھی میری طرح ان سوگوار افراد میں شامل ہیں جو یہ رنج محسوس کرتے ہیں کہ اس رخصت ہوتے ہوئے ماہ رمضان سے وہ کچھ ایسا خاطر خواہ نہ حاصل کرسکے جو بقیہ زندگی کے لئے خیر کا باعث بن سکے تو ایک قیمتی مشورہ پیش ہے۔ قبل اسکے کہ رمضان ہم سے رخصت ہو جلدازجلد کوئی چھوٹی سی سورہ یا اس کے مساوی کوئی بھی آسان سی تین آیات ترجمہ کیساتھ حفظ کرلیں۔ یہ حفظ کردہ آیات ان شاء اللہ نہ صرف روز آخرت اس بات کی گواہ ہونگی کہ ہم نے انہیں 2016 کے رمضان مبارک میں یاد کیا تھا بلکہ اپنی روزمرہ کی نمازوں میں ان کی تلاوت بھی اجر و خیر کا سبب بنے گی۔ ساتھ ہی ان کے ترجمے پر مسلسل غور ہمیں قران حکیم سے مزید نزدیک کردے گا۔ نمونے کے طور پر سورہ الفجر کی یہ آخری آیات درج کردیتا ہوں جو ہر مومن کے خواب کی تکمیل ہیں۔ 
۔
يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ( 27 ) فجر - الآية 27
اے اطمینان پانے والے نفس!
۔
ارْجِعِي إِلَىٰ رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً ( 28 ) فجر - الآية 28
اپنے پروردگار کی طرف لوٹ چل۔ تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی
۔
فَادْخُلِي فِي عِبَادِي ( 29 ) فجر - الآية 29
تو میرے (ممتاز) بندوں میں شامل ہو جا
۔
وَادْخُلِي جَنَّتِي ( 30 ) فجر - الآية 30
اور میری بہشت میں داخل ہو جا
۔
====عظیم نامہ=====

اسلام کو بطور دین سب سے زیادہ نقصان کس نے دیا؟


اسلام کو بطور دین سب سے زیادہ نقصان کس نے دیا؟



اسلام کو بطور دین جتنا نقصان مذہبی تفرقہ اور قران حکیم سے دوری نے پہنچایا ہے. اس کا عشر عشیر بھی یہود، نصاریٰ، ملحدین، میڈیا، زائونسٹ، سیاستدان اور دیگر مل کر نہ پہنچا سکے. دشمن اگر سازش کرتا ہے تو کوئی حیرت نہیں کہ دشمن اگر سازش نہ کرے تو دشمن ہی کیوں کہلائے؟ صدمہ تو ان کوڑھ مغزوں پر ہے جو آج بھی اپنی توانائی دیگر کلمہ گو مسالک و فرقوں کی تکفیر میں لگاتے ہیں. حیرت تو ان فالج زدہ اذہان پر ہے جو آج بھی امت کو یکجا کرنے کی فکر کے بجائے نفرت کے بیج بو رہے ہیں. غصہ تو اس اپاہج سوچ پر ہے جو عالم اسلام کو جلتا بلکتا دیکھ کر بھی احیاء دین کی جانب مائل نہیں. 
.
====عظیم نامہ====

دو معصوم مگر پرمغز سوالات




ہمارے ایک منہ بولے بھانجے کے دو معصوم مگر پرمغز سوالات

.
سوال : "اگر میں خود اپنا ہاتھ نہ ہلاؤں تو کیا اللہ تعالٰی کن کہہ کے میرا ہاتھ ہلا سکتے ہیں ؟"
.
جواب: جی احمد بیٹا .. عام طور پر اللہ پاک نے ہم پر کوشش کرنا فرض کیا ہے اور ہاتھ ہلانے کیلئے بھی ہمیں کوشش لازمی کرنی ہوگی اور اگر ہم کوشش نہیں کریں گے تو زیادہ امکان یہی ہے کہ اللہ پاک ہاتھ کو خود بخود نہیں ہلنے دیں گے مگر صرف کوشش کافی نہیں ہے. اگر اللہ چاہیں تو ہمارا ہاتھ ہمارا مرضی کے بناء بھی بلکل ہلا سکتے ہیں اور اسی طرح اگر ہاتھ ہلانا چاہو تو اللہ اسے ہلنے سے روک سکتے ہیں. دیکھو کتنے لوگ ہیں جن کے ہاتھ کو اچانک فالج ہوجاتا ہے تو وہ چاہ کر بھی اپنا ہاتھ نہیں ہلا پاتے. ایسے ہی کبھی کبھار ہاتھ یا پاؤں سن ہوجایا کرتا ہے اور ہمیں اسے اٹھانا بھی مشکل ہوتا ہے یا اٹھا ہی نہیں پاتے. ایسے ہی زیادہ تر انسان مرنا نہیں چاہتے لیکن جب اللہ چاہتے ہیں تو انہیں مرنا پڑتا ہے. اسی طرح تم، میں اور ہم سب اللہ ہی کی مرضی سے تو پیدا ہوتے ہیں ورنہ ہم نے نہ تو کوئی ایپلیکیشن دے رکھی تھی نہ ہی ہم نے خود اپنے آپ کو پیدا کیا. الله پاک کا اس دنیا میں قانون یہ ہے کہ وہ کسی کو ذریعہ بنا کر کام کرتے ہیں جیسے تمہارا پیدا ہونا تمہارے والدین کے ذریعہ ہوا مگر جب چاہیں تو ذریعہ بناء بھی پیدا کرسکتے ہیں جیسے حضرت عیسیٰ ع بناء والد کے اور حضرت آدم ع بنا والد والدہ کے پیدا ہوئے. اسی طرح ایک اور قانون اس دنیا میں اللہ پاک کا یہ بھی ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ہم دعا اور کوشش دونوں کریں. جیسے تم اسکول میں پاس ہونے کیلئے اللہ سے دعا بھی کرتے ہو مگر ساتھ ہی پوری کوشش بھی کرتے ہو. اگر کوئی بھی ایک کام نہ کرو گے تو بہت ممکن ہے کہ امتحان پاس نہ کر سکو اور اگر کر بھی لو تو مرضی کے نمبر نہ آسکیں یا کوئی اور مشکل ہوجائے. 
.
سوال: "شیطان ہر وقت بڑے آئیڈیاز دیتا ہے تو اللہ تعالی نے اسکو کیوں بنایا تھا؟"
.
جواب: احمد بیٹے .. بہت سے برے انسان بھی ہر وقت برے آئیڈیا دیتے رہتے ہیں. اسی لئے میں تمھیں کہتا ہوں کہ ہمیشہ اچھے دوست بناؤ تو وہ تمھیں اچھے کام کی طرف بلائیں گے اور اگر برے دوستوں میں بیٹھو گے تو وہ چاہیں گے کہ اپنے ساتھ ساتھ تم سے بھی برے کام کروائیں تاکہ جب کوئی سزا ملے تو وہ اکیلے نہ رہیں بلکہ تم بھی ان کے ساتھ سزا پاؤ. لیکن اب کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان برے لوگوں کو کیوں بنایا؟ ظاہر ہے کہ نہیں. کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اللہ نے آپ کو اور باقی سب کو اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کی آزادی دی ہے اور وہ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کون اپنی مرضی سے اچھی باتیں کرتا ہے اور کون بری. اللہ نے کسی انسان کو برا نہیں بنایا مگر کچھ انسان اپنی مرضی سے برے بن گئے اور سب کو برائی کی طرف بلانے لگے. اب اس میں آپ کے اللہ میاں کا کیا قصور؟ یہ تو ان لوگوں کا فالٹ ہوا نا؟ . ٹھیک ایسے ہی اللہ نے شیطان کو برا نہیں بنایا تھا ، وہ اپنی مرضی سے برا بن گیا اور بجائے اپنی غلطی پر اللہ سے معافی مانگنے کے ، وہ یہ کہنے لگا کہ اب خود بھی برا کرتا رہوں گا اور دوسروں کو بھی برائی کے آئیڈیا دیتا رہوں گا تاکہ میرے ساتھ باقی لوگوں کو بھی سزا ملے. اب تم اگر عقلمند ہو تو شیطان سے کبھی دوستی نہیں کرو گے اور اس کی بات کبھی نہیں مانو گے اور اگر کبھی غلطی سے یا دھوکے سے کوئی بات مان گئے تو اللہ سے فوری توبہ کر لو گے. اب دیکھو تمہاری کلاس میں سب بچوں کو اللہ نے اچھا ذہن دیا ہے مگر ان میں سے کچھ اچھے بچے اپنی مرضی سے محنت کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں اور کچھ بچے صرف شرارتیں کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں. اب کسی بچے کی محنت نہ کرنے کا الزام ہم اسکول کو یا ٹیچر کو تو نہیں دیتے کہ انہوں نے اس بچے کو ایڈمشن کیوں دیا؟ بلکہ کہتے ہیں کہ اس بچے کا اپنا قصور ہے. ایسے ہی کسی برے انسان کے برے ہونے یا شیطان کے برا ہونے کا الزام بھی اللہ پاک پر نہیں ہے بلکہ برے انسان یا شیطان پر ہے. اللہ میاں نے تو اس سمیت سب کو آزادی دی تھی مگر اس نے خود آزادی کا اچھا استعمال چھوڑ کر غلط استعمال کیا.
.
====عظیم نامہ====

جنت و دوزخ کے فیصلے


جنت و دوزخ کے فیصلے




باکسر محمد علی ؟ .. ارے وہ تو میلکم ایکس کے ساتھیوں میں سے تھے .. بد عقیدہ کافر 
قوال امجد صابری ؟ .. ارے وہ تو میراثی تھے .. بدعقیدہ مشرک 
فلاحی کارکن عبدالستار ایدھی ؟ .. ارے وہ تو انسانی اعضاء کا خفیہ کاروبار کرتے تھے .. بد عقیدہ فاسق
سائنسدان عبدالقدیر خان ؟ .. ارے وہ تو ملکوں کو راز بیچتے رہے ہیں .. بد عقیدہ منافق 
.
جنت میں تو صرف اور صرف 'ہم' جائیں گے جن کا واحد کام مفت تجزیئے پیش کرنا ہے اور سب کی جنت و دوزخ کے فیصلے سنانا ہے


.
====عظیم نامہ=====

قیمتی راز کی بات


قیمتی راز کی بات




آج آپ کو ایک قیمتی راز کی بات اس نیت سے بتاتا ہوں کہ شائد کسی قاری کو عمل کی توفیق حاصل ہو. ایک ایسا عمل جس کے انمول ہونے کی پورے شرح صدر سے گواہی دیتا ہوں. 
.
آپ کے وہ عزیز و اقارب جو بڑھاپے کی آخری دہلیز کو چھو چکے ہیں یا کسی جان لیوا بیماری میں عرصے سے مبتلا ہیں ، ان احباب کی ایک فہرست مرتب کرلیں. اب ایک ایک کرکے ان سب کے پاس وقت گزارنے کا اہتمام کیجیئے. کم از کم ایک پورا دن ان میں سے ہر ایک کے ساتھ گزاریئے. اس ملاقات میں آپ نے بولنا بہت کم ہے اور سننا بہت زیادہ ہے. انہیں موقع دیجیئے کہ وہ آپ کو اپنی زندگی کے تلخ و شیریں تجربات سنائیں. آپ بس پوری توجہ سے ان کی بات سمجھیئے اور بناء بحث میں پڑے محبت سے موزوں سوالات کیجیئے. ان سے دریافت کریں کہ بڑھاپے یا اس مہلک بیماری سے انہیں کیا کیا سبق حاصل ہوئے؟ اور آخر میں پورے خلوص سے ان سے درخوست کریں کہ کہ وہ آپ کو کوئی ایسی نصیحت کریں جو آپ کی کردار سازی یا دین کیلئے معاون ہو. واپسی پر جو کچھ سنا یا سیکھا اسے کاغذ اور ذہن دونوں کی تختیوں پر ہمیشہ کیلئے ثبت کرلیجیئے. اسی طرح وہ بے ضرر سے پاکیزہ نفوس جو آپ کے حلقہ احباب میں موجود ہیں اور جو نصیحتیں کرنے کی بجائے خاموشی سے دین پر عمل پیرا رہتے ہیں. ان کے پاس بھی اسی طرح وقت گزاریئے اور ان سے کم از کم ایک نصیحت خاص اپنے لئے حاصل کیجیئے. میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر دیانتداری سے آپ نے اس عمل کو اپنایا تو حکمت کا ایسا بیش بہا خزانہ حاصل ہوگا اور وہ قیمتی ترین نصیحتیں نصیب ہونگی جو شاید عمر بھر کی ریاضت بھی نہ دے پاتی.
.
====عظیم نامہ=====

ایک مشورہ



ایک مشورہ


.
اللہ رب العزت کا احسان ہے کہ نماز اور روزے جیسی عبادات کے ذریعے حقوق اللہ کا کچھ نہ کچھ باقاعدہ اہتمام روزانہ کی بنیاد پر ہم سب مسلمان کر پاتے ہیں. البتہ حقوق العباد کے حوالے سے کوئی باقاعدہ اہتمام ہم میں سے اکثر نہیں کر پاتے. مشورہ ہے کہ یہ ارادہ کر لیجیئے کہ ہر روز کوئی بھی ایک نیکی کم از کم پورے شعور اور ہوش و حواس سے انجام دیں گے. پھر ہر رات سونے سے قبل اس نیکی کو یاد کر کے اللہ کا صدق دل سے شکر ادا کریں گے کہ ان ہی کی توفیق سے یہ موقع ہمیں میسر ہوا.شعوری طور پر انجام دی گئی اس نیکی کی نوعیت بظاہر کتنی ہی معمولی کیوں نہ معلوم ہو مگر اسے حقوق العباد سے متعلق ہونا چاہیئے اور اس کی انجام دہی حتی الامکان حد تک خفیہ ہو . یعنی یہ عمل خالص آپ کے اور آپ کے رب کے درمیان راز رہے. ضروری نہیں ہے کہ ہر بار کسی کی مالی مدد ہی کی جائے بلکہ کبھی کسی بیمار کی عیادت کرلینا، کسی کی تدفین میں عملی حصہ لینا، کسی کی صلاح کروادینا، راستے کی کسی رکاوٹ کو صاف کردینا، کسی کے گھر کی شفٹنگ میں مدد کردینا، کسی دکھی انسان کو محبت سے حوصلہ دینا، کسی کی نوکری کیلئے کوشش کرنا، کسی بچے کو کچھ اچھا سبق پڑھا دینا، کسی کو اپنی سواری پر لفٹ دے دینا، کسی کیلئے بس میں اپنی جگہ خالی کردینا اور ایسے ہی لاتعداد مواقع ایسے ہیں جو باآسانی ہر انسان کو روز میسر آسکتے ہیں. بس ارادہ و اخلاص چاہیئے. ذرا چشم تصور سے سوچیئے کہ اگر میں اور آپ روز ایک حقوق العباد کی نیکی کا عمل اپنی عادت بنالیں تو ایک ایک کرکے روز محشر ہمارے پاس کتنے ایسے گواہ موجود ہوں گے جو ان شاء اللہ ہمارے حق میں گواہی دیں سکیں گے؟
.
(نوٹ: اس مشورے کی پہلی مخاطب میری اپنی ذات ہے) 
.
====عظیم نامہ====

کیا رشتے آسمانوں پر بنتے ہیں؟


کیا رشتے آسمانوں پر بنتے ہیں؟ 





سوال:
بھائی کیا رشتے آسمانوں پر بنتے ہیں؟ اگر ہاں تو ہمارے والدین اچھا رشتہ ڈھونڈنے کی اتنی کوشش کیوں کرتے ہیں؟ جو نصیب میں ہے وہ تو خود ہی مل جائے گا؟
۔
جواب:
کیسے مزاج ہیں بہن کے ؟
۔
ایک لطیفہ ہے کہ جوڑے بنتے آسمانوں میں ہیں مگر ذلیل زمین پر ہوتے ہیں۔ 
۔
خیر یہ تو مزاح کی بات ہے۔ سنجیدہ جواب یہ ہے کہ صرف رشتے ہی نہیں بلکہ ہر معاملہ جیسے رزق، شفا، کامیابی وغیرہ آسمانوں میں ہی طے ہوتا ہے۔ مگر یہ طے ہونا تقدیر میں مختلف واقعات، عوامل، کوشش اور دعا وغیرہ سے مشروط ہوتا ہے۔ اب مثال کے طور پر تقدیر میں کچھ یوں لکھا ہوسکتا ہے کہ یہ اللہ کی بندی اگر فلاں وقت دعا کرے گی اور اتنی کوشش کرے گی تو اس کا فلاں کام ہوجائے گا اور اگر نہیں کرے گی تو نہیں ہوگا۔ یہ بھی لکھا ہوسکتا ہے کہ کوشش کے باوجود بھی یہ کام نہیں ہوگا مگر اس کوشش اور دعا کے بدلے اس پر سے فلاں مصیبت ہٹا لی جائے گی اور فلاں کام آسان کردیا جائے گا اور روز آخرت فلاں اجر دیا جائے گا۔ تقدیر میں کس وقت کیا لکھا ہے؟ یہ اللہ کا علم ہے جسے ہم بندے حتمی طور پر نہیں جان سکتے۔ البتہ ہم یہ جانتے ہیں کہ شریعت نے ہمیں کوشش اور دعا کا مکلف کیا ہے۔ نتیجہ بہرکیف اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اطمینان رکھیں کہ آپ کی محنت اور دعا اللہ پاک کی مجموعی مصلحت کی وجہ سے اس وقت رنگ نہ بھی لائے تب بھی وہ ضائع نہ کی جائے گی اور کسی دوسرے وقت اس کا اجر آپ کو حاصل ہوجائے گا۔ پھر یہ قوی امکان تو ہے ہی کہ اللہ پاک آپ کی محنت و دعا کا متوقع نتیجہ آپ کو عطا کردیں۔ بس یہ یاد رکھیں کہ اپنی پوری کوشش کرنا ہم پر فرض ہے۔ اب دیکھیئے یہ اللہ کے علم میں ہے کہ آپ فلاں کلاس میں پاس ہونگی یا فیل مگر اچھے سے پڑھائی کرنا آپ پر فرض ہے۔ اللہ پاک جانتے ہیں کہ فلاں مریض صحت یاب ہوگا کہ نہیں مگر علاج کروانا اس پر لازم ہے۔ اللہ پاک واقف ہیں کہ فلاں کیلئے کتنا رزق طے ہے مگر اسکے لئے ہاتھ پائوں مارنا اس پر فرض ہے۔ ٹھیک ایسے ہی اللہ پاک کو خوب پتہ ہے کہ کس کا جوڑا کس سے بننا ہے مگر اسکے لئے کوشش ضروری ہے۔ امید ہے کہ کچھ بات واضح ہوئی ہوگی۔ واللہ اعلم بلصواب
۔
====عظیم نامہ====

Thursday, 7 July 2016

عید کی نماز نہ پڑھ سکا



عید کی نماز نہ پڑھ سکا ..


.
یہ آج سے کم و بیش بارہ سال پہلے کی بات ہے. انگلینڈ میں میرا پہلا رمضان اور پہلی عید تھی. فطری طور پر گھر سے دوری کی وجہ سے دل پر شدید اداسی نے ڈیرہ ڈال رکھا تھا. یوں تو غم روزگار چلتی سانس تک ساتھ لگا ہوا ہے مگر میرے لئے وہ ابتدائی دن سخت ترین تھے. مجھے صرف اپنے پیٹ کیلئے نہیں کمانا تھا بلکہ یونیورسٹی فیس کی خطیر رقم بھی جمع کرنا تھی. چنانچہ شب و روز مزدوری کرتا تھا یا اپنی پڑھائی میں مصروف رہتا تھا. رمضان کیسے گزرا؟ کب عید آگئی؟ کچھ پتہ نہ لگا. عید کے دن بھی مجھے کام پر جانا تھا، اگر چھٹی کرتا تو نہ صرف درشت مزاج باس کی ناراضگی کا خدشہ تھا بلکہ مالی نقصان بھی لازمی ہوتا. جیسا کہا کہ ان دنوں ایک ایک پیسہ بچانا میرے لئے نہایت اہم تھا. حد یہ تھی کہ کچھ دن تک تو صرف ایک وقت کھانا کھاتا اور باقی وقت سستے بسکٹ کھا کر پیٹ کو سہارا دیتا. بہت غور کے بعد فیصلہ کیا کہ چھٹی کرنے کی بجائے کام پر جلدی پہنچ جاؤں گا اور وہاں قریب کی مسجد میں عید الفطر کی نماز ادا کرلوں گا. یہی سوچ کر عید کے روز بہت صبح گھر سے جانے کیلئے نکل گیا مگر قسمت یہ رہی کہ اس دن غیر معمولی رش کی وجہ سے راستہ طویل تر ہوتا چلا گیا. بھاگم بھاگ ہانپتا کانپتا مسجد پہنچا تو دروازے پر ایک بڑا سا تالا منہ چڑا رہا تھا. میرے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا اور پردیس میں پہلی بار میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے. اسی وقت پاکستان سے بڑے بھائی کا فون آیا جنہوں نے چہکتے ہوئے عید مبارک کہا. ساتھ ہی کہا کہ اس آواز کو پہچانو اور اتنا کہہ کر فون کسی اور کو دے دیا. دوسری طرف سے ایک توتلی سی معصوم آواز میں کسی نے مجھے چاچو پکارا. وہ ننھا سا بھتیجا جسے میں کچھ ماہ پہلے خاموش چھوڑ کر آیا تھا، اب بولنے لگا تھا اور پہلی بار اس نے مجھے چاچو کہہ کر پکارا تھا. میں ہچکیوں سے رویا. بڑے بھائی پریشان ہو کر ڈھارس بندھاتے رہے اور میری زبان سے یہی جملہ ادا ہوتا رہا کہ "بھائی میں نے عید کی نماز نہیں پڑھی !" .. پردیس کے اپنے غم ہوا کرتے ہیں جن کی شدت پتھر کا قلب بھی چیر سکتی ہے. یہ اور بات کہ کچھ وقت گزرنے کے بعد وہ ان غموں پر مسکرانے کی ایکٹنگ سیکھ لیتا ہے.
.
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج،
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
.
====عظیم نامہ=====

Tuesday, 5 July 2016

شعوری یا غیرشعوری نفاق


شعوری یا غیرشعوری نفاق



مومن ہمیشہ اپنا جائزہ لیتا رہتا ہے کہ اس میں شعوری یا غیرشعوری نفاق تو موجود نہیں ؟ یہی حقیقت ہے جسے حضرت حسن بصریؒ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: 
.
’’نفاق کا خوف مومن ہی کو ہوتا ہے، اور نفاق سے بے خوف تو منافق ہی رہتا ہے۔‘‘ 
.
قران و حدیث دونوں کے مطابق منافق جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہونگے. اس آیت کو پڑھیں: 
.
"یقین جانو کہ منافق جہنم کے سب سے نیچے طبقے میں جائیں گے اور تم کسی کو اُن کا مدد گار نہ پاؤ گے" (7:145)
.
یعنی ابوجہل جیسے مشرکین سے بھی نیچے کا درجہ منافقین کیلئے ہے. سوشل میڈیا پر مجھ سمیت تمام لکھاریوں کو یہ سوچنا چاہیئے کہ خدا نخواستہ ایسا تو نہیں کہ ہماری تحریر تو تقویٰ سے دھلی ہو مگر ہمارا کردار منافقت سے تعفن زدہ ہو. الله پاک مجھے اور آپ سب کو اپنی نیتوں کی تذکیر کی توفیق دے. آمین 
.
====عظیم نامہ====

بہترین منصوبہ


 بہترین منصوبہ


11 ستمبر کے بعد مغربی ذریعہ ابلاغ نے جائز اور ناجائز طریقے استعمال کرکے اسلام پر دہشتگردی کا لیبل چسپاں کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے. مگر اس پروپیگنڈے کے نتیجے میں بہت سے غیر مسلم قران کے مطالع کی جانب راغب ہوگئے اور نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام پہلے سے کہیں زیادہ تیزی سے پھیلنے لگا. آج یہ مغرب اور پوری دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذھب بن چکا ہے. میڈیا نے ایک اور آواز لگائی کہ اسلام عورتوں پر بہت ظلم کرتا ہے، نتیجہ یہ نکلا کہ غیرمسلم عورتوں نے اسلام میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے کھوجنا شروع کردیا اور آج ساٹھ فیصد سے زیادہ تعداد نومسلم خواتین کی ہے. آج پھر وہ پوری قوت کے ساتھ سیکولر نظام کو نافذ کرنا چاہتا ہے تاکہ اسلامی نظم حکومت کا کوئی تصور پنپ نا سکے. لیکن ایران ہو یا افغانستان ، بنگلادیش ہو یا لبنان ، مصر ہو یا پھر شام. آج ہر جانب سے انکی خواہش کے برخلاف خلافت کی صدا آ رہی ہے. میرے رب نے قران میں سچ کہا ہے کہ انہوں نے الله کے خلاف منصوبہ بنایا تو الله نے بھی انکے خلاف منصوبہ بنایا اور یقینن الله سب سے بہترین منصوبہ بنانے والا ہے.

====عظیم نامہ====