Friday, 4 March 2016

فصوص الحکم



فصوص الحکم


الحمدللہ ثم الحمدللہ ، شیخ محی الدین ابن عربی کی معروف ترین کتاب 'فصوص الحکم' کا مطالعہ اپنے اختتام کو پہنچا. شیخ کو ان کے چاہنے والے شیخ اکبر کا لقب دیتے ہیں.اگر قائدانہ صلاحیتوں کی بنیاد پر محمد علی جناح کو 'قائد اعظم' تسلیم کیا جاتا ہے تو تصوف کے رموز و معارف بیان کرنے میں شیخ محی الدین ابن عربی کو 'شیخ اکبر' پکارنا میرے لئے کسی قباحت کا باعث نہیں. یہ ایک مشکل کتاب ہے جسے سمجھنے کیلئے لازم ہے کہ قاری پہلے سے قران مجید کو پڑھ چکا ہو، احادیث کے صحت و ضعف کا تصور رکھتا ہو اور علم تصوف کے بنیادی عقائد و اصطلاحات سے واقف ہو. تب ہی وہ شیخ کی اس تصنیف سے استفادہ بھی کرسکے گا اور ان سے اختلاف کا حق بھی رکھے گا. کتاب کا ترجمہ مولانا عبدالقدیر صدیقی صاحب نے فرمایا ہے. مترجم اس شدید خوف میں مبتلا نظر آتے ہیں کہ قاری شیخ کی بات کو کفر کہہ کر انکی تکفیر نہ کرنے لگے. لہٰذا وہ ساری کتاب میں اپنی توجیہات اس حد تک بیان کرتے ہیں کہ یہ فرق کرنا کٹھن ہوجاتا ہے کہ کون سی بات شیخ نے کہی اور کہاں مترجم صاحب اپنی بیان کرنے لگے. اس روش نے کتاب کی صحت کو بری طرح متاثر کیا ہے اور اسی وجہ سے مجھ پر اتنی کوفت طاری ہوئی کہ دو بار کتاب کا مطالعہ ترک کرنا پڑا. بہرحال کوئی سو صفحات کے بعد طبیعت نے اس ثقم کو تسلیم کرلیا. 

.


شیخ ابن عربی نے اس میں مختلف انبیاء کے قصص بیان کئے ہیں جو قران و حدیث میں مذکور ہیں. اس بیان میں وہ واقعات و شخصیات کی عارفانہ تفسیر کرتے ہیں جسے تفسیر نہیں بلکہ تعبیر کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے. ان تعبیرات کی بنیاد بڑی حد تک شیخ کے اپنے کشف، الہام اور تفکر پر ہے. اب ظاہر ہے کہ کسی کے ذاتی کشف کو حقیقی مطلوب سمجھ لینا شرعی اعتبار سے درست نہیں. لہٰذا ایک علم رکھنے والا قاری خود کو ان سے اختلاف کرنے پر مجبور پاتا ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شیخ کی فکر کسی طالب پر کئی رموز کھول دیتی ہے جو شاید روایتی مطالعہ سے ممکن نہیں. شیخ کسی بات کے ان پہلوؤں اور زاویوں کو سامنے لاتے ہیں جنہیں عام اذہان سوچنے سے قاصر ہوا کرتے ہیں. شیخ بلاشبہ ایک نہایت زہین انسان ہیں جو حریصانہ حد تک روحانیت کے اسرار سیکھنے سکھانے کا شوق رکھتے ہیں. کتاب کے آغاز میں محسوس ہوتا ہے کہ گویا وہ ایک فلسفی ہیں جن میں کوئی صوفی چھپا بیٹھا ہے مگر بعد میں احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنی حقیقت میں ایک صوفی ہیں جن میں ایک فلسفی پوشیدہ ہے. شیخ کچھ شرعی اصطلاحات جیسے 'نبی' وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں اور اس کے اعتباری معنی مراد لیتے ہیں. اگر قاری کو ان کے اس لفظ سے متعلق حقیقی مراد کی خبر نہ ہو تو وہ اس اعتباری معنی کو ہی شیخ کا حقیقی مدعا سمجھ بیٹھتا ہے اور پھر اس کا نتیجہ تکفیر کی صورت میں برآمد ہوتا ہے. اسلئے لازم ہے کہ ان کی تفصیلی کتاب 'فتوحات مکیہ' پر بھی قاری کی نظر ہو. بارہا ایسے مقامات آئے جہاں میں نے عقائد و تفصیلات میں شیخ کی کسی رائے کو جزوی یا کلی طور پر مسترد کردیا مگر یہ اعتراف نہ کرنا بددیانتی ہوگا کہ اس تصنیف نے مجھے سوچ کے نئے زاویئے فراہم کئے.

1 comment:

  1. This comment has been removed by a blog administrator.

    ReplyDelete