Friday, 4 March 2016

دارالامتحان


دارالامتحان



اس دارالامتحان میں حق و باطل کی غیبی کشمکش روز اول سے جاری ہے. جہاں ایک جانب ابلیس کی شیطانی طاقتیں ہیں جو انسان کیلئے برائی کے ممکن دروازے کھولتی ہیں اور دوسری جانب وہ ملکوتی قوتیں ہیں جو انسان کو دین پر استقامت رکھنے میں مدد دیتی ہیں. دونوں مقابل قوتیں اپنے مؤقف کی تبلیغ کرتی رہتی ہیں. ابلیس کھلا دشمن ہے اور اسے یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ روز قیامت تک انسانوں کو بھٹکانے کی کوشش کرتا رہے. دوسری جانب ملائک جو فطری و روحانی طاقتوں پر مامور ہیں، انہوں نے سجدہ کرکے یہ وعدہ و اظہار کردیا ہے کہ وہ اس خلیفہ الارض بنی آدم کی ہر ممکن معاونت کریں گے. یہ سمجھنا ضروری ہے کہ شیطانی طاقتوں کی تبلیغ جارحانہ نوعیت کی ہوتی ہے ، جب کے ملائکہ کی مدد مدافعانہ انداز سے انسان کو سہارا دیتی ہے. اس انداز تبلیغ کے فرق کو سمجھ لینے سے دونوں قوتوں کی بہترین معرفت حاصل ہوجاتی ہے. جس سے توقعات کا طے کرنا اور اسی نسبت سے دفاعی حکمت عملی ترتیب دینا آسان ہوجاتا ہے. ان دونوں قوتوں کی دعوت کا حقیقی مخاطب انسان کا نفس ہے، جس میں ارادہ و اختیار کی آزادی کے ساتھ اچھائی اور برائی دونوں کے داعیات الہام کردیئے گئے ہیں. اگر ابلیس نہ بھی ہوتا ، تب بھی انسان نفسانی خواہشات کیلئے گناہ کا ارتکاب کرتا. شیطان صرف برائی کی ایک اضافی دعوت کا ذریعہ ہے. یہ نفس ہی تو تھا جس نے خود ابلیس کو رب تعالیٰ کے سامنے سرکشی پر مجبور کیا تھا. یہ بھی جان لیں کہ ابلیس تو ضرور شیطان ہے مگر ہر شیطان ابلیس نہیں ہے. ہر وہ انسان اور جن شیطان کہلاتا ہے جو ابلیس کے مشن کو اپنالے. 
.
انسانی نفس کا ایک حصہ نفس امارہ ہے جو حیوانی و شہوانی خواہشوں سے مغلوب ہو کر برائی کی ترغیب دیتا ہے اور نفس کا دوسرا حصہ نفس لوامہ ہے جو مدافعت کرتے ہوئے برائی پر نفس کو ملامت کرتا ہے. شیاطین انسان کو نفس امارہ کے ذریعے ورغلاتے ہیں اور ملائک نفس لوامہ کو تقویت پہنچاتے ہیں. شیطانی قوتیں آپ سے گن پوائنٹ پر کوئی کام نہیں کرواتی بلکہ آپ میں پہلے سے موجود شہوات و خواہشات کو بھڑکا کر برائی اپنانے کی صرف دعوت دیتی ہے. البتہ قران مجید میں یہ صراحت بھی موجود ہے کہ اگر کوئی سرکش شخص الله کے ذکر سے بلکل غافل ہو جائے تو اس پر شیطان اپنا تسلط قائم کرلیتا ہے. قران کے الفاظ سورہ الزخرف میں کچھ یوں ہیں 
.
'اور جو کوئی خدا کی یاد سے آنکھیں بند کرکے (یعنی تغافل کرے) ہم اس پر ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں تو وہ اس کا ساتھی ہوجاتا ہے'
.
ایسا شخص پھر اپنے نفس کا غلام بن کر رہ جاتا ہے. اسی کو قران حکیم کی سورہ الفرقان میں کچھ یوں بھی کہا گیا ہے کہ 'کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے خواہش نفس کو معبود بنا رکھا ہے ؟ ..' 
.
ایسا انسانی نفس خیر سے محروم ہو کر اور نفس امارہ سے مغلوب ہو کر مرنے کے بعد ایک حدیث کے مطابق 'نفس خبیثہ' بن جاتا ہے. اس کے برعکس وہ انسان جو نفس لوامہ کی سن کر تزکیہ نفس کرتا رہتا ہے تو اس پر فرشتوں کی جانب سے سکینت کا نزول ہوتا ہے اور مرنے کے بعد اسے 'نفس المطمئنہ' کا لقب دیا جاتا ہے اور رب العزت اس سے کچھ یوں مخاطب ہوتے ہیں 
.
اے اطمینان پانے والے نفس (۲۷)
اپنے پروردگار کی طرف لوٹ چل۔ تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی (۲۸)
تو میرے (ممتاز) بندوں میں شامل ہو جا (۲۹)
اور میری بہشت میں داخل ہو جا (۳۰)
سورة الفَجر
.
====عظیم نامہ====

No comments:

Post a Comment