موجودہ دور کی علمی بددیانتی
موجودہ دور میں علمی بددیانتی کی ایک بدترین صورت یہ سامنے آئی ہے کہ پہلے اپنی پسند کے مطابق نتیجہ طے کرلیا جاتا ہے اور اس کے بعد قران و حدیث میں موجود دلائل کو اپنے اخذ کردہ نتیجہ میں ڈھالنے کیلئے ہر غیر شرعی طریق کو بھی شرعی بنالیا جاتا ہے
.
کوئی آیت اس نتیجے سے متصادم نظر آئے تو فکر کی بات نہیں .. اس کی ایک نئی نویلی سوٹ کرتی ہوئی تفسیر پیش کر ڈالیں، کوئی حدیث اس نتیجے سے ٹکرائے تو گھبرائیے مت .. کبھی روایت تو کبھی درایت کی چھری اس پر چلا دیں، اگر پوری علمی روایت اور علماء کا اجماع اس کے خلاف جاتا محسوس ہو تو پریشانی کی کوئی بات نہیں .. اسے اکابر پرستی کا نام دے کر رونا ڈال دیں. لیجیئے جناب .. ہوگیا نا آپ کا نتیجہ ثابت ؟
.
اندھی تقلید کی دن رات مخالفت کریں مگر اپنی پسند کے اہل علم کی تقدیس میں سر تا پیر ڈوبے رہیں. برداشت کا درس دیں مگر اگر کوئی گستاخ آپ کی 'روشن خیال' رائے سے مختلف بات کرے تو اسے فوری گنوار کا تمغہ دے دیں. امت کے مقبول ترین فقہاء و علماء کا علمی تنقید کے نام پر بھرکس بنا ڈالیں لیکن اپنے چنیدہ اہل علم کی شان میں کوئی گستاخی کرے تو اس پر پنجے جھاڑ کر چڑھ دوڑیں. اجتہاد نہ ہونے کا دھکڑا پیش کریں اور پھر خود مجتہد کی کرسی سنبھال لیں
.
عزیزان من کسی کی نیک نیتی پر شک نہیں ہے مگر یہ طریق اور رویہ مناسب نہیں ہے. اگر صدیوں کے علمی جمود نے ایک انتہا کو جنم دیا ہے تو آج جدیدیت کے نام پر آپ دوسری انتہا کو کیوں جنم دے رہے ہیں ؟ دین کا راستہ اعتدال کا ہے جو دونوں انتہاؤں کے بین بین ہے. دین آسان ضرور ہے مگر اسے زبردستی آسان تر بنانا ہلاکت ہے. عقل کی اہمیت دین میں ثابت ضرور ہے مگر عقل کو دین کے تابع رکھنا ہی مومن سے مطلوب ہے. دین کے کسی بھی حکم کو اخذ کرنے کا واحد ماخذ قران و سنت ہے
.
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment