Friday, 11 March 2016

عمل اہم ہے یا نیت ؟



عمل اہم ہے یا نیت ؟



.
امت مسلمہ کے دو ممتاز ترین محدثین امام بخاری اور امام مسلم نے اپنے اپنے پیش کردہ احادیث کے مجموعہ کا آغاز جس حدیث سے کیا ، اس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ 
.
"اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے"
.
دین کی بنیادی تعلیم رکھنے والا ہر طالبعلم اس امر سے خوب واقف ہے کہ وہ عمل جو صالح نیت سے خالی ہو یا جس کی نیت میں کھوٹ ہو .. ایسا عمل چاہے اپنے ظاہر میں کیسا ہی دلفریب کیوں نہ نظر آئے؟ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں مقبول نہیں ہوسکتا. لیکن میرے عزیز جان رکھیئے ، اس پیغام سے احقر درجہ میں بھی یہ اخذ کرنا درست نہیں کہ عمل کے ظاہر اور اسکے کرنے نہ کرنے کی کوئی اہمیت نہیں. دین ظاہر و باطن کی یکجائی کا نام ہے. باطن کا اہم ہونا ظاہر کے غیراہم ہونے کی دلیل ہرگز نہیں ہے. اگر ایسا ہوتا تو اسلامی عبادات و معاملات کی پوری عمارت منہدم ہوجاتی. اگر معاملہ صرف نیت یا باطن کا ہوتا تو اس دنیا میں ہمیں بھیجنے کا کوئی مقصد باقی نہیں رہتا. اسی حقیقت کی بنیاد پر دنیا کو 'دار العمل' سے تعبیر کیا جاتا ہے. جیسے ہمیں اپنی نیت کی تذکیر کی ضرورت ہے، ٹھیک ویسے ہی ہمیں اپنے عمل کا ظاہر بھی درست رکھنا ہے.
.
کچھ بھلے مانس کہتے ہیں کہ "اگر ہماری نیت ٹھیک ہے تو ہم لازمی بخشے جائیں گے". یہ دعویٰ اپنے جزو میں تو درست ہے کہ رب الکریم کے ہاں واقعی نیت کو دیکھا جائے گا مگر اپنے کل کے حساب سے فاسد بات ہے. اگر محض نیت کا درست ہونا ہی ٹھیک ہے تو پھر کیا ہمیں 'رابن ھڈ' بن جانا چاہیئے؟ رابن ھڈ ایک ایسا ڈاکو تھا جو امیروں سے مال لوٹ کر غریبوں میں بانٹ دیتا تھا. نیت تو اسکی بھی بہت اچھی تھی. یا پھر ہمیں وہ خود کش بمبار بن جانا چاہیئے جو اپنی دانست میں اسلام کی سربلندی کیلئے مسافروں کی بس کو اڑا دیتا ہے؟ نیت کے اخلاص میں تو اسکی بھی کوئی کمی نہیں. 
.
میرے رفیق ! جان لو، ہم صرف نیت کے تزکیہ کو موضوع بناکر عمل کی درستگی سے غافل نہیں رہ سکتے. کبھی سوچا کہ ہر مسلمان پرعلم حاصل کرنا فرض کیوں کیا گیا ہے ؟ صرف اسلئے کہ وہ کسی عمل کے ارتکاب سے قبل اس عمل کے درست ہونے نہ ہونے کا فیصلہ کرسکے. یہ جان سکے کہ اس عمل کو شرعی اعتبار سے انجام دینا کیسے ہے؟ کن شرائط کو ملحوظ رکھنا ہے ؟ کن محرمات کا لحاظ کرنا ہے؟ .. اب اگر کوئی شخص عقل رکھنے اور کثیر مواقع ہونے باوجود کسی عمل کے بارے میں علم حاصل نہ کرے اور نتیجہ میں غلط عمل یا غلط طریق سے عمل انجام دے دے تو کیا ایسا شخص الله کی بارگاہ میں جواب دہ نہیں ہوگا؟ کیا اس کا یہ عذر کافی ہوگا کہ میری نیت تو ٹھیک تھی؟ 
.
ہمارا حساب روز آخر ہر اس پیمانے سے کیا جائے گا جس کے ہم مکلف تھے. ہمارا رب لطیف و خبیر ہے ، وہ ہر انسان کی کوشش، مواقع، صلاحیت، نیت اور عمل سب کا جائزہ لے کر اپنا فیصلہ سنائے گا. لہٰذا اس سراب سے باہر آجایئے کہ محض نیت کی پاکیزگی ہی کافی ہے
.
شائد کے اتر جائے ، ترے دل میں میری بات ؟
.
====عظیم نامہ====

No comments:

Post a Comment