Friday, 18 March 2016

علم کی حقیقت



علم کی حقیقت

مشکوٰة شریف کی ایک حدیث میں مرقوم ہے کہ ”طلب العلم فریضة علی کل مسلم“ یعنی "علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پرفرض ہے۔" 
.
کئی علماء کے نزدیک یہاں علم سے مراد فقط دین کے عقائد و احکامات کا علم ہے مگر کئی عارفین کے نزدیک عارف علم کو دنیا اور دین میں تقسیم نہیں کرتا. اس کے نزدیک تو علم کی ہر صورت بلواسطہ یا بلاواسطہ خدا ہی سے جوڑنے والی ہے. البتہ دھیان رہے کہ علم اگر عمل و کردار سے تصدیق نہ پائے تو پھر وہ علم ہے ہی نہیں بلکہ محض معلومات ہے.  
.
اگر غور کیجیئے تو علم کو چار اقسام میں منقسم کیا جاسکتا ہے. ان میں سے پہلی دو تو وہ ہیں جو خالص الله کی جانب سے ودیعت و عطا ہوتی ہیں اور دوسری دو اقسام وہ ہیں جن کا حصول انسانی صلاحیتوں کے مؤثر استعمال سے مشروط ہوتا ہے. علم کی یہ چار اقسام راقم کے الفاظ میں کچھ یوں بیان کی جاسکتی ہیں 
.
١. علم وجدان 
--------------
.
اس سے مراد وہ علم ہے جس کا شعور من جانب الله ہماری فطرت میں الہام کردیا گیا ہے. یہ ایک باطنی احساس ہے جو جب خارج کے کسی مظہر کو اپنے مطابق پاتا ہے تو لپک کر قبول کرلیتا ہے. اسلام کو اسی رعایت سے دین فطرت کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے. وجہ یہی ہے کہ اس دین کے عقائد انسانی فطرت سے مکمل مطابقت رکھتے ہیں لہٰذا جب انہیں سامع یا قاری کو پیش کیا جاتا ہے تو اسے یہ پیغام اپنے ہی دل کی آواز محسوس ہوتا ہے. "دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا ... میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی مرے دل میں ہے" . گر ہماری فطرت میں کوئی تقاضہ پہلے سے موجود نہ ہو تو پھر کسی خارجی پیغام کو سمجھانا ایسا ہی ہے کہ ایک شخص کو پیاس نہ لگی ہو اور آپ زبردستی اسے پانی پلانے لگیں. ایسے میں اسکا جسم پانی اگل دیگا کیونکہ اس میں طلب ہی نہیں ہے. اس حقیقت کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ ایک حدیث میں فطرت کے لفظ کو اسلام کے لفظ کا متبادل بیان کیا گیا ہے. لہٰذا بخاری و مسلم کی متفقہ علیہ  حدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:  " ہر بچہ فطرت (اسلام) پر ہی پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی، یا مجوسی بنا لیتے ہیں  ... " اور بھی بہت سی آیات و احادیث اسی حقیقت کی غماز ہیں.
.
اس موقع پر ضروری ہے کہ ہم اس علم وجدان کی چند مثالوں پر غور کرلیں. پہلی مثال وجود خدا کو ماننا ہے. قران حکیم کے لطیف بیان کے مطابق انسانی اجسام میں منتقلی سے قبل ہماری ارواح سے عہد الست لے گیا اور یوں خدا کی گواہی ہم میں الہام کردی گئی. 
.
"اور اے نبی، لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جبکہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا "کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟" انہوں نے کہا "ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں" یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ "ہم تو اس بات سے بے خبرتھے"  (سورہ الاعراف ١٧٢)

تاریخ انسانی اس بات پر گواہ ہے کہ انسان نے ہر دور میں اور ہر علاقے میں ایک برتر ہستی کے تصور کو تسلیم کیا ہے. خدا کا تصور صرف گردوپیش سے پیش نہیں ہوتا، الله کا تصور ہم محض تجربات و مشاہدات سے نہیں پاتے ، یہ ایک فکری مغالطہ ہے. حقیقت یہ ہے کے اس کی کونپل فطرت کی گود میں پروان پاتی ہے یہ اندر سے باہر کا سفر شروع کرتا ہے. یہی وجہ ہے کہ ایک بچہ  چاہے وہ امریکہ میں  پیدا ہوا ہو یا پاکستان میں ، چین سے تعلق رکھتا ہوں یا افریقہ کے زولو قبیلے سے .. وہ اپنے والدین سے بچپن میں یہ سوال ضرور کرتا ہے کہ  مجھے کس نے بنایا ؟ یا میں کہاں سے آیا؟  . آپ اسے کہتے ہیں کہ میں نے تمہیں  درخت سے توڑ لیا یا ایک فرشتہ ہمیں دے گیا یا  مارکیٹ سے خرید لیا. آپ اس بچے کو مطمئن کرنے کیلئے جو بھی جواب دیں، مگر اس کا یہ معصوم سوال اس حقیقت کا اعلان کر رہا ہے کہ خدا کے وجود کی طلب انسان کے اندر فطری طور پر موجود ہے . انسانی رویوں پر کی جانے والی بہت سی تحقیقات ، جن میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی حالیہ تحقیق بھی شامل ہے ، وہ سب یہی بتاتی ہیں کہ انسان میں فطری و جبلی طور پر ایسے داعیات موجود ہیں جو اسے ایک خدا پر ایمان رکھنے پر آمادہ کرتے ہیں. تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ سخت ترین ملحد بھی انتہائی مشکل حالت میں بے اختیار ایک برتر ہستی کو پکار اٹھتا ہے
.
دِل کے آئینے میں ہے تصویر یار 
جب ذرا گردن جھکائی .. دیکھ لی 
.
اسی وجدانی علم کی دوسری مثال خیر و شر کا تعین ہے. سورہ الشمس میں ارشاد باری تعالیٰ ہے " اور قسم ہے انسان کے نفس کی اور جس نے اسے درست کیا۔  پھر اسے فجو ر و تقویٰ ( خیر و شر) کا الہام کیا۔"  یہی وجہ ہے کہ پوری انسانیت بلاتفریق وقت و نسل کے کچھ مسلمات کو خیر اور کچھ کو شر تسلیم کرتی آئی ہے. ان مسلمات میں کوئی ادنیٰ درجہ کا اختلاف بھی پیدا نہیں ہوتا. جیسے ہر انسان یہ جانتا ہے کہ جھوٹ بولنا شر اور سچ بولنا خیر کی قدر ہے یا پھر کسی بے گناہ کی جن تلف کرنا اسے اذیت دینا شر اور کسی معصوم کی جان بچا لینا خیر ہے. اسی طرح ماں میں اولاد کے لئے مامتا کا جذبہ انسانی فطرت میں الہام ہے لہٰذا اس کی گواہی ہم ہر ماں کی انمول محبت کی صورت میں ہم روز دیکھتے ہیں. یہ درست ہے کہ کبھی ایسی سنسنی خیز خبر بھی سننے کو مل جاتی ہے کہ ایک ماں نے اپنے سگے بچہ کو مار مار کر قتل کردیا. یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہر ماں میں مامتا الہام شدہ ہے تو پھر ایسا کیسے ممکن ہوا؟ ذرا دقت نظر سے دیکھیں تو بات نہ صرف سمجھ آجاتی ہے بلکہ اس افسوسناک واقعہ کا 'خبر' بن جانا خود اس کی دلیل دکھائی دیتا ہے کہ یہ اقدام انسان کی مجموعی فطرت کے خلاف تھا. تب ہی تو اسے خبر سمجھا گیا. اب غور کیا جائے گا کہ کیا اس ماں کی ذہنی حالت درست تھی ؟ یا وہ کون سے غیرمعمولی عوامل تھے جس نے اس کی فطرت کو اس درجہ مسخ کرڈالا ؟ استثنیٰ ہر معاملے میں ہمیشہ موجود ہوتی ہے مگر ان معاملات میں کلیہ یہی ہے کہ استثنات کو بنیاد بنا کر عموم کا حکم نہیں لگایا جاسکتا. اس کا فیصلہ تو انسانوں کے سواد اعظم کو مدنظر رکھ کر ہی کیا جائے گا. پھر یہ بھی ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ اگر کوئی شخص کسی فطری تقاضہ کا انکار کر دے تو عین وقت انکار وہ اپنے ہی کسی عمل سے اس کا اقرار بھی کرنے پر مجبور ہوتا ہے. مثال کے طور پر ایک انسان آدم خور ہوجاتا ہے اور برملا کسی انسان کو قتل کرکے کھالینا شر تسلیم نہیں کرتا. ٹھیک اسی وقت اگر اسے یہ معلوم ہو کہ کوئی دوسرا آدم خور ہوکر اسے مار دینا چاہتا ہے تو وہ کبھی اسے اپنے لئے قبول نہیں کرتا. حالانکہ اگر فی الواقع یہ عمل اسکی نظر میں خیر تھا تو اسے معترض نہ ہونا چاہیئے تھا. غرض انسان اپنی فطرت سے انکار تو کردیتا ہے مگر فرار حاصل نہیں کرپاتا. اس کا دل یہ خوب جانتا ہے کہ اس کا کیا ہوا عمل خیر ہے یا شر ؟ اسی کو حدیث میں اس اسلوب میں کہا گیا کہ 'اپنے دل سے فتویٰ لو‘ اور یہ کہ ’گناہ وہ ہے جو تمہارے دل کو کھٹکے چاہے تمہیں فتویٰ دینے والوں نے فتویٰ کیوں نہ دے دیا ہو‘
.
جان لیجیئے کہ یہ فطری الہام یا علم وجدان ہر انسان کے شعور میں پیوست ہے اور اس کی حیثیت حاکم نہ بھی ہو تو مقدم ضرور ہے. اگر فطرت میں یہ علم نہ موجود ہوتا تو دین پر عمل کرنا تو کجا خدا کی صفاتی معرفت بھی ہمارے لئے ممکن نہ تھی. ہمارے علم کی حدود ہمیں خدا کی صفات کو جاننے تک محدود رکھتی ہیں. ہم خدا کی ذات کو ليس كمثله شئ کی بنیاد پر نہیں جان سکتے مگر صفات بھی ذات سے علیحدہ نہیں ہوا کرتیں. ان صفات کا ٹھیک علم ہی معرفت کا دروازہ کھولتا ہے. الله کی صفات کو سمجھنے کیلئے لازم ہے کہ انسان اپنی صفات پر نظر کرے. رب تعالیٰ نے ہماری فطرت میں اپنی صفات کا بشری استعداد کے مطابق شعور بھی رکھا ہے اور عکس بھی. اگر رحم کی صفت ہماری فطرت میں پنہاں نہ ہوتی تو ہم کبھی رب کے رحمٰن و رحیم ہونے کو نہ سمجھ سکتے. اگر انسانی فطرت میں علم و حکمت کی صفت موجود نہ ہوتی تو ہم کبھی رب کے علیم و حکیم ہونے کو نہ سراہتے. مختصر یہی کہ انسانی فطرت یا علم وجدان غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے. خود شناسی ہی خدا شناسی تک لے جاتی ہے. شائد یہی وجہ ہے کہ ایک معروف روایت ضعیف ہونے کے باوجود اہل علم کی جانب سے ہمیشہ پیش کی جاتی رہی ہے مَنْ عَرَفَ نَفْسَہ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہ' - "جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا۔"
.
اسی طرح ہر بچہ پیدا ہوتے ہی دور و قریب کا فرق جانتا ہے. محبت اور نفرت سے واقف ہوتا ہے. خوشی اور غم کو محسوس کرتا ہے. یہ سب اسے کوئی سکھاتا نہیں ہے بلکہ وہ اس دنیا میں یہ سب سیکھ کر آتا ہے. ہر انسان میں ایک جمالیاتی حس بھی فطری طور پر موجود ہوتی ہے لہٰذا وہ شکل و صورت سے لے کر کلام و سماعت میں خوبصورتی تلاش کرتا ہے. ایسی ہی اور بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں جن سے فطرت میں مضمر اس علم کی مختلف جہتیں منکشف ہوتی نظر آتی ہیں جو انسان کا حقیقی شاکلہ ترتیب دیتی ہیں
.
علم وحی
=====
.
یہ علم کی وہ برتر قسم ہے جو الله عزوجل کبھی براہ راست اور کبھی اپنے ملائکہ کے ذریعے پیغمبر کو عطا کرتے ہیں. پھر پیغمبر کی زبان سے یہ پیغام مخاطبین تک منتقل ہوتا ہے. اس علم کے حصول کا یہی واحد راستہ اور طریق ہے. اس کے علاوہ محض عقلی موشگافی یا تجرباتی ریاضت سے اس کا حصول نہیں کیا جاسکتا. انسانوں کی ہدایت کیلئے الله نے ہر دور میں ایسے پیغمبروں کو معبوث کیا ہے جو وحی ربانی کو صحائف کی صورت میں منتقل کرتے رہے. کسی انسان کیلئے ممکن نہیں کہ وہ اللہ سے کلام

No comments:

Post a Comment