'میٹا فزکس' یعنی 'مابعد الطبیعات' علم کیا ہے؟
.اس عنوان پر قلم کشائی سے قبل ہماری دانست میں کچھ تمہید لکھنا بہتر ہے. بحیثیت مسلمان ہم سب قران حکیم کو اللہ رب العزت کا کلام مانتے ہیں. قران مجید میں سورہ الفاتحہ درحقیقت دعا ہے اور پھر سورہ البقرہ سے لے کر سورہ الناس تک سارا کا سارا قران اس دعا کا جواب ہے. گویا سورہ الفاتحہ میں ہم 'ہدایت' کا سیدھا راستہ مانگتے ہیں اور سورہ البقرہ کے آغاز ہی میں یہ بتادیا جاتا ہے کہ یہ قران ہر صاحب تقویٰ یعنی متقین کیلئے ہدایت ہے. پھر اسکے فوری بعد ان متقین کے ایمانی خواص بتائے جاتے ہیں. کیسی عجیب بات ہے؟ کہ سب سے پہلا 'آرٹیکل آف فیتھ' یعنی پہلا ایمانی تقاضہ یہ نہیں بتایا گیا کہ جو اللہ پر ایمان لاتے ہیں یا رسولوں پر ایمان لاتے ہیں یا کتابوں پر ایمان لاتے ہیں یا آخرت پر ایمان لاتے ہیں یا فرشتوں اور تقدیر پر ایمان لاتے ہیں. بلکہ کہا گیا کہ الَّذِيۡنَ يُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَيۡبِ - "جو 'غیب' پر ایمان لاتے ہیں". گویا آسان الفاظ میں جو سب سے پہلا تقاضہ قران حکیم ہدایت دینے کیلئے اپنے قاری سے کرتا ہے، وہ یہ کہ وہ تسلیم کرے کہ اسکے موجود جسمانی حسی ادراک سے پرے بھی کچھ غیبی حقیقتیں موجود ہیں یا موجود ہوسکتی ہیں. دھیان رہے کہ غیب پر ایمان سے مراد ہے بناء دیکھے ایمان لانا، بناء سمجھے لانا ایمان لانا ہرگز نہیں. ایمان بالغیب اس یقین کا نام ہے جو مشاہدے یا حسی ادراک کے زریعے نہیں بلکہ غوروفکر کے نتیجے میں جڑ پکڑتا ہے. یہ حاضر سے غائب کو جاننا ہے، یہ معلوم سے نامعلوم کو محسوس کرنے کا سفر ہے. سالک دلائل کا تقابلی موازنہ کرکے ، ایک شعوری ارتقاء کے زریعے کسی شے کے بارے میں علمی راۓ قائم کرتا ہے. یہ راۓ کیونکہ استدلال و تدبر کا نتیجہ ہوتی ہے اسلئے سالک کو ایک خاص قلبی و ذہنی سکون فراہم کرتی ہے. آسان الفاظ میں کہیں تو صاحب ایمان اس پر پوری طرح قائل ہوجاتا ہے. قران حکیم اپنی اصطلاح میں اس علمی نتیجے سے حاصل کردہ یقین کو 'علم الیقین' کے نام سے موسوم کرتا ہے. اب دیانت کا تقاضا یہی ہے کہ اسکا عمل بھی اسکے ایمان کا عکس بن جاۓ ورنہ ایسا ایمان ہوکر بھی کوئی حقیقی معنی نہیں رکھتا . اگر وہ ایسا کرتا ہے تو ایمان دار کہلاتا ہے اور نہیں کرتا تو بے ایمان قرار پاتا ہے.
.
اب آتے ہیں اصل موضوع کی جانب، یعنی 'میٹا فزکس' یا 'مابعد الطبیعات' کا علم ہے کیا؟ - 'میٹا فزکس' دراصل فلسفہ کی ایک اہم ترین شاخ ہے اور جو ان سوالات و حقائق پر غور کرتی ہے، جن کے شافی جوابات دینے سے فزکس یعنی طبیعاتی علوم قاصر رہے ہیں. کائنات کا اولین محرک کیا تھا؟ موت کے بعد شعور کا کیا معاملہ ہے؟ وقت کی کیا حقیقت ہے؟ زمان و مکان میں اصل ربط کیا ہے؟ ذہن کیا ہے؟ ذہن اور دماغ میں کیا فرق ہے؟ ذہن اور جسم کا رشتہ کیا ہے؟ اس کائنات کا مقصد کیا ہے؟ یہ اور اس جیسے ان گنت موضوعات ایسے ہیں کہ جن کے جواب دینے سے یا تو سائنس بالکل عاجز نظر آتی ہے کہ یہ اسکے ڈومین یعنی دائرے سے ہی باہر ہیں یا پھر ایسے جوابات دیتی ہے جو کسی طور بھی شافی نہیں مانے جاسکتے. یہ اور بات کہ مادیت پسندی کے اس سیلاب میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو خود کو اسی محدود حسی ادراک یا 'امپیریکل ایویڈنس' تک کے خول میں قید رکھنا پسند کرتی ہے. ان کے نزدیک انسان یا کائنات کا کوئی متعین مقصد نہیں. ان کی ذہانت کے پیچھے کوئی ذہانت بطور خالق نہیں. باپ کی شفقت سے لے کر ماں کی ممتا تک بس ایک 'کیمکل کمپوزیشن' سے زیادہ کچھ نہیں. پچھلی صدیوں میں فزیکل سائنسز کے ذریعے ہونے والی غیر معمولی ترقی نے ان کے لہجوں میں ایک خاص طرح کی رعونت پیدا کردی ہے، جو ہر اس علم یا کوشش پر استہزاء کا رویہ اپناتی ہے جو سائنس کے موجود اصولوں سے باہر یا مختلف ہو. اس علمی تکبر پر خود کچھ سائنسدان جیسے 'مشیو کاکو' آواز اٹھا رہے ہیں. ان کے مطابق سائنسی حلقوں پر آج کل ایک ایسی اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جہاں موجود سائنسی اصولوں کو چیلنج کرنا یا اس سے مختلف کچھ اور امکانات کو ماننا گالی بنا دیا گیا ہے.
.
فلسفے کے علاوہ 'میٹا فزکس' یا 'مابعد الطبیعات' سے وابستہ ان ہی موضوعات کو مذہب بھی مخاطب بناتا ہے. مذہب فلسفے کے برعکس جوابات کی بنیاد متفرق بدلتی انسانی عقول کے برعکس وحی پر رکھتا ہے. وہ اس کائنات کے خالق کا تعارف فراہم کرتا ہے، اس کائنات کی مقصدیت بتاتا ہے، انسانی نفس کی تفصیل فراہم کرتا ہے، غیبی حقائق جیسے ملائکہ یا حیات بعد الموت وغیرہ سے پردہ اٹھاتا ہے. ہم جانتے ہیں کہ رب نے ایک ہی دین ہمیشہ جاری کیا مگر انسانی اختلاف نے بہت سے نئے مذاہب کو جنم دے دیا. گو ہر تحقیق کرنے والا یہ جان لیتا ہے کہ ان تمام مذاہب کا فراہم کردہ مقدمہ اور مابعد الطبیعات سے متعلق جوابات مکمل تو نہیں مگر معمولی فرق کیساتھ بڑی حد تک آپس میں مماثلت رکھتے ہیں. جو اسی حقیقت کا مظہر ہے کہ اپنی اصل میں یہ ایک ہی مشترک الہامی پیغام ہے. جیسا مضمون کے آغاز میں ہم نے بیان کیا کہ بطور مسلمان ہم غیب پر ایمان رکھتے ہیں. گویا جب بعد از تحقیق جب دلائل و براہین سے ہم پر یہ ثابت ہوگیا کہ قران حکیم انسانی تحریر نہیں بلکہ الہامی کلام ہے، تب اس میں موجود غیبی خبروں کو ہم نے تسلیم کرلیا ہے. قران مجید میں جابجا انسانی حواسوں پر محیط 'ادراک' کو محدود بتا کر غیبی خبر دی گئی ہے. جیسے سورہ القدر میں جب شب قدر کی غیبی قوت کا بیان ہوا تو قاری سے استفسار ہوا کہ وَمَآ اَدْرَاكَ مَا لَيْلَـةُ الْقَدْرِ - اور تمہیں کیا ادراک کہ شب قدر کیا ہے؟ ... اسی طرح روز قیامت کے وقت القارعہ کا بیان ہوا تو کہا گیا وَمَآ اَدْرَاكَ مَا الْقَارِعَةُ - اور تمہیں کیا ادراک کہ کھڑکھڑانے والی کیا ہے؟ ... دوسرے الفاظ میں جگہ جگہ غیب کی خبر دیتے ہوئے سمجھایا گیا ہے کہ ہمارا حسی ادراک ان کی تفصیل جاننے سے قاصر ہے.
.
====عظیم نامہ====
بہت اچھی تحریر۔ میں میٹا فزکس کے متعلق کچھ اور پڑھنا اور سیکھنا چاہتا ہوں۔ اگر آپ اس معاملے میں رہنمائی کر دیں گے تو نوازش ہوگی۔میری کوشش ہے کہ میں اردو میں اسکو پڑھوں تا کہ سمجھنے میں آسانی ہو۔شکریہ
ReplyDeleteماشا اللہ میں نے آج ہی میٹا فزکس کے بارے میئں سوچا کہ یہ کیا ہے اس پر گوگل کا پہلا جواب یہ تحریری تھی۔۔تاہم تمہید سے آگے بھی جستجو ہے
ReplyDeleteآپ نے بہترین انداز میں میٹا فزکس کے بارے میں لکھا اور اسے ہمارے بنیادی نظریات یعنی اسلام سے مربوط کرتے ہوئے شکوک سے بھی بچایا۔۔بہت شکریہ
ReplyDelete