کیا ہوا جو آج سائنس کے پاس جواب نہیں ؟
کچھ منکرین خدا جب تخلیق کائنات کی کوئی سائنسی توجیہہ نہیں پیش کرپاتے تو
جھنجھلا کر کہتے ہیں کہ کیا ہوا جو آج سائنس کے پاس جواب نہیں ہے؟ مگر کل
ضرور ہوگا. جیسے فلاں اور فلاں بات کا جواب گزرے کل میں نہیں تھا مگر آج
سائنس کے پاس ہے. گویا ان عقلمندوں کے بقول کل سائنس یہ بھی بتائے گی کہ
کائنات کو یا انسان کو کس نے بنایا؟ اور کیوں بنایا؟ حالانکہ ایسا دعویٰ
سراسر خود کو اور دوسرے کو دھوکہ دینے کے مصداق ہے. یہ سائنس کا "ڈومین" ہے
ہی نہیں کہ وہ کون؟ اور کیوں؟ کی توجیہہ بیان کرسکے. نہ ہی
وہ اس سمت میں کام کررہی ہے. مذہب کے علاوہ اگر کوئی ان سوالات کو کھوجنے
کی سعی کرتا ہے تو وہ فلسفہ ہے سائنس نہیں. سائنس کا فوکس صرف اس حد تک
محدود ہے کہ وہ پہلے سے موجود مادی اصولوں کو دریافت کرے اور ان کی بنیاد
پر ہمیں یہ بتانے کی کوشش کرے کہ کائنات کیسے بنی؟ یا انسان کیسے اور کتنے
مراحل سے گزرا؟ وہ قطعی یہ نہیں بتاسکتی کہ کائنات یا انسان کو بنانے والا
کون ہے؟ کس نے بنایا؟ کیوں بنایا؟ - وہ صرف ان سوالوں سے یہ کہہ کر فرار
اختیار کرسکتی ہے کہ شائد یہ سب بناء بنانے والے کے بن گیا ہو؟ یا پھر
درخت، پھل، دریا، سمندر، جنگل، مٹی، سورج، چاند، آنکھیں، ناک، کان، دل،
گردے، دماغ ان سب کا تو متعین مقصد ہو مگر ان سب میں شاہکار تخلیق انسان کا
کوئی مقصد نہ ہو. وہ اپنے نت نئے رنگ برنگے مقصد کو خود ایجاد کرتا ہو.
الغرض سائنس نہ آج کیوں؟ اور کون؟ کا جواب دیتی ہے اور نہ ہی ہزار سال بعد
کبھی اس کا جواب دے سکتی ہے. سائنس سے اسکے دائرے سے باہر کی امید رکھنا
ایسا ہی غیر منطقی ہے کہ جیسے کوئی کہے کہ کل شعراء اور مصور مریخ پر جانے
والی سواری بنالیں گے یا کوانٹم مکینکس کے کچھ نئے اصول دریافت کریں گے.
.
====عظیم نامہ====
.
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment