Wednesday, 9 January 2019

مجھے کام بتاؤ ! میں کیا کروں؟ میں کس کو کھاؤں؟


مجھے کام بتاؤ ! میں کیا کروں؟ میں کس کو کھاؤں؟

.
اپنا کھانا مکمل ختم کرنا بھی سنت ہے اور پیٹ میں کچھ خالی جگہ چھوڑ دینا بھی سنت ہے۔ ہمارے ماحول میں ہم سب کا زور اس پہلی سنت پر ہی رہتا ہے اور دوسری سنت ہم میں سے اکثر کیلئے اجنبی ہے۔ یہ تو درست ہے کہ کھانا پلیٹ میں نکالنا ہی اتنا چاہیئے جتنا ہم باآسانی ختم کرسکیں۔ مگر کبھی کبھار ایسا ہوجاتا ہے کہ کوئی دوسرا ہماری پلیٹ بھر کر لادیتا ہے یا میزبان کچھ کباب وغیرہ زبردستی پلیٹ نیں ڈال دیتا ہے یا کسی ریسٹورنٹ میں توقع سے زیادہ کھانا آرڈر ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں ہمیں بچپن سے سنت کا کہہ کر ایسی تربیت دی گئی ہے کہ اگر پیٹ پھٹنے کو بھی آرہا ہو تب بھی ہم باقی کھانے کو حلق میں ٹھونس ٹھونس کر نگل لیتے ہیں۔ اگر پلیٹ پوری نہ ہو پائے تو والدین یا بڑوں کی جانب سے صومالیہ یا تھر وغیرہ کے قحط زدہ بچوں کی مثال دے کر شرمندہ کیا جاتا ہے کہ اپنا کھانا ختم کرو۔ (جیسے ہمارے زیادہ کھالینے سے ان کے پیٹ بھر جائیں گے؟) ہمارے نزدیک یہ اپروچ درست نہیں بلکہ اس دوسری اہم تر سنت کا خون ہے، جسکے مطابق ہمیں پیٹ کو خوراک سے لبالب نہیں بھرنا بلکہ بھوک کا ایک حصہ باقی رہنے دینا ہے۔ ایسی غیر متوقع صورت میں جب پیٹ بھرنے کے بعد بھی کھانا موجود ہو تو بہتر ہے کہ اسے پیک کروا کر گھر لے جائیں یا کسی ضرورتمند کو دے دیں یا پھر اسے کسی ایسے مقام پر ڈال دیں جہاں وہ جانوروں یا کیڑوں کی خوراک بن سکے. اگر بالفرض ایسی کوئی بھی صورت ممکن نہ ہو اور تھوڑا کھانا بحالت مجبوری بچ رہا ہو تو ہمارے نزدیک خوراک کو زبردستی حلق تک لاد لینے سے اس کا چھوڑ دینا افضل ہے. بس آئندہ کیلئے شرمندگی کے ساتھ، ایسی صورتحال سے اجتناب کی نیت کرلی جائے.
.
دھیان رہے ہمارا مقصد کھانا چھوڑنے یا ضرورت سے زیادہ پلیٹ بھر لینے کی حوصلہ افزائی قطعی نہیں بلکہ دو سنتوں کے مابین توازن برقرار رکھنے کا ہے. ایسی صورت سے بچنے کیلئے ایک فیصلہ جو میں نے حال ہی میں اپنایا وہ یہ ہے کہ اب میں برگر وغیرہ کے ساتھ چپس آرڈر نہیں کرتا. کیونکہ ایک سے زائد بار ایسا ہوا کہ میرا پیٹ اتنا بھر گیا کہ چپس ختم کرنا نہایت دشوار لگنے لگا. اسی طرح کے اقدام اپنے انفرادی تجربات کی روشنی میں ہم سب کرسکتے ہیں. اسی حوالے سے ایک لطیفہ یاد آگیا. کسی نے واقعہ سنایا کہ ایک شادی میں کسی مولوی صاحب نے بہت سا کھانا پلیٹ میں چھوڑ دیا
اب لوگ کہاں باز آتے ہیں ؟ فوری ٹوک دیا کہ ... 'مولانا پلیٹ صاف کرنا "سنت" ہے' ..
مولوی صاحب نے بیچارگی سے توند پر ہاتھ پھیرا اور لاچارگی سے منمنا کر بولے ... 'مگر جان بچانا "فرض" ہے'
.
====عظیم نامہ=====

No comments:

Post a Comment