Wednesday, 9 January 2019

روحانی تجربہ


روحانی تجربہ

.
یوں تو روحانیت کے مسافر کو غیبی دنیا کے کچھ کمالات حاصل ہوجانا یا مختلف روحانی وارداتوں کا تجربہ ہو جانا کوئی اجنبی بات نہیں ہے. مگر آج ہمارا موضوع وہ خاص نفسی تجربہ ہے جو اس راہ کے بیشمار مسافروں میں قدر مشترک بن کر رہا ہے. پھر چاہے وہ مسلم صوفی ہوں، ہندو سادھو ہوں، عیسائی مسٹک ہوں، یہودی کبلھا ماہرین ہوں، بدھ مت کے بھکشو ہوں یا پھر دور جدید کے اسپریچولسٹ ہوں. سب کے سب اس تجربے کو اپنے روحانی سفر میں اہم ترین مقام کے طور پر دیکھتے ہیں. ان سب کے نزدیک یہ تجربہ ان کے سالوں پر محیط مراقبوں، مجاہدوں اور ریاضتوں کا حاصل ہے. اس تجربے میں انہیں حقیقت کا وہ ادراک حاصل ہوجاتا ہے جس کے وہ متلاشی رہے. صوفیاء کے یہاں اس کشف یا تجربے کو 'فنا فی الوجو'د کے عقیدے سے منسلک کیا جاتا ہے. بدھ مت کے پیرو اسے 'نروان' کی اصطلاح سے تعبیر کرتے ہیں، ہندو یوگی اسے کبھی 'موکشا' اور کبھی 'تیسری آنکھ' کا کھل جانا پکارتے ہیں. مغرب میں مراقبوں یعنی میڈی ٹیشن سے اس کیفیت کا تجربہ مختلف ناموں جیسے 'یونٹی' وغیرہ سے موسوم کیا جاتا ہے. گویا نام مختلف ہیں. مراقبوں اور ریاضتوں کے انداز جدا ہیں. مگر نتیجہ وہی ایک تجربہ ہے جو بلاتفریق سالک کو حاصل ہوجاتا ہے. اس روحانی واردات کو علامہ اقبال نے اپنے فلسفیانہ خطبات میں 'مذہبی تجربے' کے نام سے بیان کیا ہے. گو راقم کے نزدیک اسے 'نفسی تجربہ' کہنا زیادہ مناسب ہے. ہم یہاں کوشش کریں گے کہ ان نکات کو لکھ دیں جسکی گواہی اس تجربے کے حاملین دیا کرتے ہیں.
.
١. . تجربے میں شاہد اور مشاہدے کا فرق اوجھل ہوجاتا ہے. گویا جو دیکھ رہا ہے اور جسے دیکھا جارہا ہے، ان دونوں میں امتیاز باقی نہیں رہتا. بقول شاعر
یہاں ہونا .... نہ ہونا ہے
اور نہ ہونا، عین ہونا ہے !

.
٢. زمان و مکان کا فرق مٹ کر 'حقیقت' کا کلی ادراک ہوتا ہے. وہ شعور جو آج تک حقیقت کو 'جزو جزو' کرکے سمجھتا اور دیکھتا آیا تھا. اچانک حقیقت کو مربوط 'کل' کی صورت میں مشاہدہ کرلیتا ہے. اپنے وجود سمیت سارے جزو اس ایک کل میں ایسے ضم ہوجاتے ہیں کہ تفریق کرنا ممکن نہیں رہتا. گویا ہر طرح کی دوئی ماند پڑ کر ایک برتر واحد میں گھل جاتی ہے. بقول شاعر
وہ اپنی لامکانی میں رہیں مست !
مجھے اتنا بتادیں، 'میں' کہاں ہوں؟
.

٣. انسانی ذہن کی ساخت ایسی ہے کہ دوئی برقرار رکھے بغیر وہ حق بیان نہیں کرسکتا. اس دوئی کے مٹ جانے سے حقیقت کا جو روپ سامنے آتا ہے. وہ ہر اعتبار سے اتنا منفرد اور اجنبی ہوتا ہے کہ تجربہ کرنے والا خود کو اسکے بیان سے عاجز و قاصر پاتا ہے. جس کی مثل شعور نے پہلے دیکھی ہی نہ ہو اور جس کی تفصیل کو کبھی الفاظ کی پوشاک ملی ہی نہ ہو. اس تجربے کو بیان کرنا ایسا ہی ہے جیسے اس شخص کو شہد کا ذائقہ سمجھایا جائے جس نے کبھی کوئی مٹھاس نہ چکھی ہو. گویا اس تجربے کا شافی ابلاغ ممکن نہیں ہوتا اور جس کا ابلاغ ممکن نہ ہو اس کا ادراک بھی کبھی اجتماعی قبولیت حاصل نہیں کرپاتا. مستقبل میں بھی اگر اسے سمجھنے کا کوئی مبہم سا امکان ہوسکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ انسانی نفس کی پنہاں حقیقتوں کے بیان کیلئے کوئی ایسا ذریعہ علم میسر آجائے جس طرح کا علم 'میتھمیٹکس' یعنی حساب کی صورت میں فزیکل سائنسز کو حاصل ہوگیا. یوں وہ ان تجربات کو بھی 'ایکویشن' کی صورت میں بیان کرنے پر قادر ہوسکے جنہیں فقط لفظ سے سمجھنا محال تھا.
.
٤. یہ تجربہ بھلے درجہ ابلاغ کے تقاضے پورے نہ کرسکے مگر اپنے شاہد و ناظر کو اپنی حقانیت کے بارے میں آخری درجے پر اطمینان دے دیتا ہے. گویا تجربہ کرنے والے کو یہ اشکال لاحق نہیں ہوتا کہ وہ کسی نفسی و ذہنی دھوکے کا شکار ہوا ہے. بلکہ وہ اسے حقیقت کے جوہر کے طور پر قبول کرتا ہے اور اسے شعور کی اس پرت سے متعلق کرتا ہے جس کا کھلنا ارتکاز و مجاہدات سے ممکن ہے. دھیان رہے کہ یہ نفسی تجربہ فقط روایتی مذہبی اذہان کو ہی پیش نہیں آیا ہے بلکہ دیگر نامور شخصیات بھی اس کی شہادت دیتی رہی ہیں. جیسے دور حاضر میں رجنیش اور سدھ گرو جیسے غیر مذہبی اسپرچولسٹ یا پھر 'جم کیری' اور 'عرفان خان' جیسے نامور اداکار. قارئین کیلئے شائد یہ بات بھی دلچسپ ہو کہ علامہ اقبال کی طرح مولانا وحید الدین خان بھی اپنے ایسے ہی تجربے کو بیان کر چکے ہیں.
.
====عظیم نامہ====

No comments:

Post a Comment