Wednesday, 9 January 2019

سوال جواب


سوال جواب


سوال ١: رسول اللہ محبوب خدا اور وجہ تخلیق کائنات تھے۔ علم کا شہر تھے۔ ان کے پاس زیادہ علم تھا یا جبرئیل کے پاس؟

جواب: قران حکیم نے اسے موضوع ہی نہیں بنایا. نہ ہی بنانے کی ضرورت تھی. اس پر نہ ہماری آخرت کا مدار ہے اور نہ ہی دین کا کوئی حکم اس پر منحصر ہے. تخلیق کائنات قران حکیم کے بقول خلیفہ الارض اور جنات کے امتحان کیلئے برپا ہوئی جو درحقیقت اس ابدی کائنات کا فقط ضمیمہ ہے جہاں داخلہ اس عارضی کائنات کے امتحان میں کامیابی یا ناکامی کی صورت میں ہوگا.

سوال ٢: مجھے یقین ہے کہ رسول اللہ کے پاس زیادہ علم ہوگا کیونکہ وہ جبرئیل سے افضل تھے؟

جواب: قران حکیم میں افضلیت کا کوئی مقابلہ نہیں ہے. اللہ پاک نے درجات ضرور بنائے ہیں مگر ہمیں یہ ہدایت کردی ہے کہ ہم نبیوں میں بھی فرق نہ کریں. کئی احادیث مبارکہ بھی ایسی موجود ہیں جن میں کسی ایسے تقابل سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا. صحیح بخاری کی ایک حدیث کچھ یوں ہے لَا تُخَيِّرُوا بَيْنَ الْأَنْبِيَاءِ (انبیاء کو ایک دوسرے سے بہتر نہ بناؤ) یا اسی طرح صحیح بخاری کی ایک اور حدیث ہے لَا يَنْبَغِي لِعَبْدٍ أَنْ يَقُولَ أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى (کوئی بندہ میرے بارے میں یہ نہ کہے کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں)

سوال ٣: پھر جبرئیل رسول اللہ کو کیا پڑھانے آتا تھا؟ جو ہستی مادی کائنات کی تشکیل سے پہلے وجود رکھتی تھی، کیا اسے علم نہیں دیا گیا تھا؟

جواب: جبرئیل علیہ السلام اللہ سے پیغام پاکر اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منتقل فرماتے اور وہ اس امت کو. یہ اللہ رب العزت پر ہے کہ وہ علم کا کون سا حصہ کسے کس وقت عطا کرے؟ علم کی بہت سی جہتیں ایسی بھی ممکن ہیں جو صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا ہوئی ہوں اور جبرئیل علیہ السلام اس سے محروم ہوں. افضلیت کا پیمانہ اللہ پاک کے نزدیک کیا ہے؟ وہ وہی جانتا ہے. میرا رب ہی العلیم ہے اور وہ ہی یہ بھی بہتر جاننے والا ہے کہ کب کسے کتنا دیا جائے؟. قران حکیم کے بقول تو مادی کائنات کی تشکیل سے پہلے ہم سب ہی 'روحانی' وجود رکھتے تھے. عہد الست اسی کی روداد ہے. مگر آج ہماری جسمانی یادداشت اس کا مکمل ادراک نہیں رکھتی. صرف احساس رکھتی ہے. لہٰذا ایسی کسی بات کو دلیل بنا کر یہ استفسار عبث ہے. خاص کر تب جب قران حکیم نے خود بتادیا ہے کہ وحی کے ذرائع کیا ہیں؟

سوال 4: بعض تاریخ دانوں کے مطابق حضرت موسیٰ ساڑھے تین ہزار سال پہلے (پندرہ سو سال قبل مسیح) تشریف لائے تھے۔(جدید تاریخ داں کہتے ہیں کہ موسیٰ محض ایک کردار تھا، کوئی حقیقی شخصیت نہیں)حضرت داؤد نے ایک ہزار سال قبل مسیح اسرائیل پر حکمرانی کی۔ حضرت عیسیٰ اور رسول پاک کی حیات طیبہ کا دور ہمیں معلوم ہے۔سادہ سا سوال ہے کہ چاروں الہامی کتب فقط بائیس سو سال کے عرصے میں کیوں نازل کردی گئیں؟
یہ سوال اس لیے پیدا ہوا کہ ارتقا کی تاریخ بیان کرنے والے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ہوموسیپئنز یا ماڈرن ہیومن یا موجودہ انسانی نسل کی عمر ڈیڑھ سے دو لاکھ سال کے درمیان ہے۔ مان لیتے ہیں کہ ڈیڑھ لاکھ سال تک انسان کے پاس شعور نہیں تھا اس لیے اس کے باشعور ہونے کا انتظار کیا گیا۔لیکن انسانی شعور کو حقیقی ترقی تو گزشتہ سو سال میں ملی ہے۔پھر الہامی کتابوں کو ایک مخصوص مختصر مدت میں بھیجنے کا کوئی خاص سبب؟

جواب: گویا مسئلہ تاریخ دانوں کے متفرق اور بدلتے نتائج کا نہیں ہے. بلکہ سوال آپ کا سادہ سا اتنا ہے کہ " چاروں الہامی کتب فقط بائیس سو سال کے عرصے میں کیوں نازل کردی گئیں؟"
قران واشگاف الفاظ میں متعدد مقامات پر یہ اعلان کرتا ہے کہ اللہ رب العزت نے ہر دور اور ہر قوم میں اپنے رسول بھیجے. مثال کے طور پر سوره نحل میں کہا گیا کہ "اور ہم نے ہر قوم میں پیغمبر بھیجا کہ اللہ کی ہی عبادت کرو.." یا پھر سوره ابراہیم میں ارشاد ہے کہ "اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر وہ اپنی قوم کی زبان میں بولتا تھا .." .. غور کیجیے ، اگر صرف عربی زبان یا جزیرہ العرب میں ہی رسولوں کو بھیجنا مقصود ہوتا تو کبھی یہ الفاظ نہیں کہے جاتے کہ 'اپنی قوم کی زبان میں بولتا تھا' . گویا یہ ان چار کتابوں کے علاوہ بھی مختلف ادوار میں مختلف اقوام کی زبان میں صحائف نازل ہوتے رہے ہیں.

قران جہاں رہتی دنیا کے لئے ہدایت ہے وہاں یہ نکتہ سمجھنا ضروری ہے کہ اسکی براہ راست مخاطب عرب میں بسنے والی وہ اقوام ہیں جو دور نزول میں موجود تھی. لہٰذا یہ بات نہایت سادہ، عقلی اور سمجھ میں آنے والی ہے کہ قران میں صرف ان چند انبیاء کا تفصیلی ذکر ہوا ہے جن سے عرب کسی نہ کسی حوالے سے آگاہ تھے. وگرنہ قران میں کئی ایسے پیغمبروں کے نام مذکور ہیں جنکا علاقہ، قوم یا ملک نہیں بیان کیا گیا جیسے حضرت نوح علیہ السلام یا حضرت آدم علیہ السلام وغیرہ. ایک مشہور حدیث کے مطابق ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اس دنیا میں بھیجے گئے، جن میں سے صرف چند کا ذکر قران میں موجود ہے. یہ سوچنا بھی سراسر حماقت ہے کہ یہ ایک لاکھ سے زائد پیغمبر صرف عرب ہی میں آتے رہے.
مسلم محققین نے ہر دور میں تحقیق کر کے مختلف مشہور اشخاص کے پیغمبر ہونے کا امکان ظاہر کیا ہے. مثال کے طور پر کچھ تحقیق نگاروں نے عبادات اور تعلیمات کا تقابلی جائزہ لے کر 'زرتشت' کو پیغمبر کہا ہے جو ملک ایران میں آے تھے. اسی طرح مولانا شمس نوید عثمانی نے اپنی گراں قدر تصنیف میں ہندوؤں کے ویدوں کو پرکھہ کر بہت سے علمی ثبوت فراہم کئے ہیں جو اشارہ کرتے ہیں کہ ہندودھرم یا قوم دراصل نوح علیہ السلام کی امّت ہیں. ان کےابتدائی صحائف میں ایک عظیم شخصیت کا ذکر آتا ہے جس کا نام 'مانو' ہے ، سنسکرت کے اعتبار سے دراصل یہ نام 'مہا نوح' بنتا ہے یعنی 'عظیم نوح' ! .. یہی نہیں بلکے مہا نوح سے وابستہ ایک پورا واقعہ بھی درج ہے جو ایک عذاب والے سیلاب کے آنے اور کشتی می سوار ہونے کی پوری روداد بیان کرتا ہے. بہرحال یہ تحقیقات چونکہ قران اور تاریخ میں واضح انداز میں موجود نہیں ہیں اس لئے تحقیق کی بنیاد پر صرف علمی قیاس قایم کیا جاسکتا ہے. انہیں حتمی درجہ دینا ممکن نہیں ہے مگر یہ تحقیقات بلند آواز میں اعلان کر رہی ہیں کہ الله عزوجل نے ہر امّت میں ہدایت کے لئے اپنے نبی بھیجے. اب اس باشعور انسان کا آغاز جو انسانیت کا جوہر رکھتا ہو، اسکی عمر اس کائنات میں جتنی بھی رہی ہو. قران مجید کے مطابق ان میں پیغمبر بھیجے جاتے رہے.
.
====عظیم نامہ====

No comments:

Post a Comment