Wednesday, 9 January 2019

تاریخ انسانی ایک کونسپریسی تھیوری

تاریخ انسانی ایک کونسپریسی تھیوری


بدھ مت مذہب کے بانی 'گوتم بدھا' کا نام کسی کیلئے اجنبی نہیں ہے. آپ سے منسوب اقوال حکمت کا ایک خزانہ معلوم ہوتے ہیں اور ساری دنیا میں لوگ ان سے سبق اخذ کرتے ہیں. مگر آپ کو جان کر شائد حیرت ہو کہ کچھ محققین کا یہ دعویٰ ہے کہ گوتم بدھا نام کا کوئی انسان تاریخ میں موجود نہیں رہا اور ان سے منسوب تعلیمات و اقوال یا احوال زندگی لوگوں نے خود گھڑ لئے ہیں. ان سے منسوب باتیں یا کتب فی الواقع ان ہی کی ہیں؟ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں. کچھ کا کہنا یہ بھی ہے کہ گوتم بدھا دراصل ایک بااثر انسان تھا، جس کی موت کے بعد ذہین افراد کی ایک پوری کونسل نے اسے لیجنڈ بنانے کیلئے یہ سارا ڈھونگ رچایا.
.
سقراط کا نام غالباً فلسفے کی دنیا کا سب سے معتبر نام ہے. مگر کیا آپ جانتے ہیں؟ کہ فلسفے اور تاریخ کے کچھ استادوں کا یہ کہنا ہے کہ سقراط نام کا کوئی آدمی تاریخ میں نہیں رہا یا اگر تھا بھی تو کوئی قابل ذکر انسان نہیں رہا. ان محققین کا دعویٰ ہے کہ یہ تو درحقیقت افلاطون نامی فلسفی نے ایک فرضی کردار گھڑ لیا اور اس کردار کا نام سقراط رکھ دیا. تاکہ سقراط کے نام سے منسوب کرکے وہ ان باتوں کا بیان کرسکے جو اسکے اپنے دور میں اسکے اپنے نام سے کہنا مشکل تھیں. یاد رہے کہ سقراط کی اکثر تعلیمات ہمیں افلاطون ہی کے ذریعے منتقل ہوئی ہیں.
.
موسیٰ علیہ السلام یہودیت، عیسائییت اور اسلام تینوں نمائندہ مذاہب کی ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں. جن کا تفصیلی ذکر ان مذاہب کے صحائف میں موجود ہے. مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ آثار قدیمہ اور تاریخ کے کچھ ماہرین ایسے بھی ہیں جن کے بقول موسیٰ علیہ السلام کا تاریخ میں کوئی نام و نشان نہیں. گویا وہ ایک فرضی کردار ہیں جو یہودیت کے مشائخ نے گھڑ کر لوگوں کو سنادیا تاکہ ان پر حکومت کرسکیں.
.
عیسیٰ علیہ السلام کی عالی مرتبت شخصیت سے کون واقف نہیں؟ اسلام ہو یا عیسائییت - سب کے سب یسوع مسیح کو مانتے ہیں اور ان کے واقعات و اقوال سے بہرہ یاب ہوتے ہیں. مگر عجیب بات یہ ہے کہ کچھ تاریخ دانوں اور محققین کے حساب سے عیسیٰ علیہ السلام کا کردار انسانی تاریخ کا سب سے بڑا جھوٹ ہے. اس نام کا کوئی شخص سرے سے موجود ہی نہ تھا اور اگر تھا بھی تو وہ ایک عام سا آدمی تھا. نبوت وغیرہ سے کوسوں دور. ان احباب کی جانب سے عیسیٰ علیہ السلام کے فرضی ہونے کا پرچار پورے زور و شور سے کیا جاتا ہے. انٹرنیٹ پر آپ کو ان گنت مقالے، مکالمے اور کانفرنسز کی رودادیں باآسانی دستیاب ہیں.
.
نبی کریم محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم وہ واحد نبی ہیں جو معلوم تاریخ میں آئے. جن کی موجودگی و تعلیمات کی تفصیل ابتداء سے لکھی ہوئی بھی موجود ہے اور لاکھوں افراد کی گواہی کی صورت میں بھی دستیاب ہے. مگر کیا آپ جانتے ہیں؟ کہ کچھ تاریخ دان محققین کے نزدیک محمد بن عبداللہ نام کی کوئی شخصیت تاریخ میں کبھی موجود ہی نہیں تھی اور یہ سب کی سب تعلیمات کچھ لوگوں نے اقتدار کیلئے لکھی ہیں؟ اگر یقین نہ آئے تو معروف بیسٹ سیلر مصنف 'رابرٹ اسپنسر' کی کتاب ملاحظہ فرمائیں. عنوان ہے "کیا محمد کا وجود تھا؟" (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
.
ایسی ہی اور بہت سی مثالیں موجود ہیں. عزیزان من ! تاریخ انسانی سے سیکھنے کی اہمیت اپنی جگہ ایک حقیقت ہے. ہم سب کو تاریخ کو پڑھنا اور سیکھنا چاہیئے مگر ان تاریخ دانوں یا 'محققین' کی ادائیں بھی خوب ہیں. اگر ان سب کے نتائج کو آپ بیک وقت تسلیم کرلیں تو یقین کیجیئے یہ پوری تاریخ انسانی ایک 'کونسپریسی تھیوری' بن کر رہ جائے. یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ کسی معروف ترین تاریخی شخصیت کے وجود کا انکار کرنا اور اس انکار کیلئے استدلال پیش کرنا. آپ کو آپ کے ناظرین و قارئین میں نہایت تیزی سے مقبول کردیتا ہے. بالخصوص اگر اس شخصیت کی کوئی نسبت مذہب سے جڑتی ہو تو سمجھیئے ہر طرف آگ لگ جانی ہے اور آپ کا مثبت یا منفی ڈنکا بج جانا ہے. اب ظاہر ہے وہ تاریخی شخصیت اپنے دفاع کیلئے خود تو آنے سے رہی کہ آپ کو آکر بتائے کہ وہ کس دور میں، کس جگہ پر، کن افراد کے مابین موجود تھی؟ موجود آثار میں سے کون سے اس کی یادگار ہیں؟ وغیرہ. لہٰذا آج ان ہستیوں کے رخصت ہونے کے سینکڑوں ہزاروں سال بعد کچھ محققین جو علمی موشگافیاں کرتے ہیں، انہیں ایک عامی نہ رد کر پاتا ہے نہ قبول. جبکہ دیگر محققین ایسے بھی موجود ہوتے ہیں جو اسی روایتی سمجھ کے اثبات میں اپنی رائے دیا کرتے ہیں. ایسے میں اس مبہم تاریخ کو بنیاد بنا کر کسی مذہبی یا غیر مذہبی شخص کا مکمل انکار کردینا، سمجھ سے بالاتر ہے.
.
یقین کیجیئے کچھ منچلے تو اس حد تک جانے کی بھی ناکام کوشش کرتے رہے ہیں کہ سکندر اعظم (الیگزینڈر دی گریٹ) جس نے آدھی دنیا فتح کی، اسے بھی کسی صورت فرضی کردار بنا چھوڑیں. یہی ماجرا سائرس دی گریٹ کے بارے میں بھی ہے. جتنے پرانے دور کی شخصیت ہوتی ہے، اتنا ہی اس کا انکار پیش کرنا آسان ہوجاتا ہے. اگر آپ کے پاس ایک اچھی سی ڈگری ہے تو بس ایک مقالہ یا کتاب لکھ دو کہ تاریخی آثار ہمیں اس شخصیت کے نہیں لگتے یا ہمیں ثابت نہیں ہوتے اور یہ کہ اس شخصیت سے منسوب تعلیمات، حالات و واقعات بعد کے لوگوں کی سازش ہے. بس ہوگیا کام. اب ایک نہ ختم ہونے والی بحث ہوتی رہے گی اور آپ کی کتاب خوب بکے گی. یہ سوچے بغیر کہ اگر یہ معروف کردار کسی سپرمین، اسپائیڈر مین کی طرح نقلی و فرضی تھے تو ان کے ادوار میں موجود یا ان کے زمانے کے نزدیک ہزاروں لاکھوں لوگ کیا اتنے احمق و لاچار تھے کہ انہوں نے اس جھوٹ پر کوئی کھلا یا چھپا احتجاج نہ کیا؟ ہمیں کوئی ایک بیان یا احتجاج یا گروہ ایسا نہیں ملتا جس نے سقراط سے لے کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک کسی بھی تاریخی شخصیت کو فریب قرار دیا ہو. اس کے برعکس ان کی موجودگی کے اثبات کی ان گنت گواہیاں ہمیں لوگوں کی زبانی منتقل ہوتی آئی ہیں.
.
====عظیم نامہ====

No comments:

Post a Comment