Wednesday, 4 May 2016

سلام کی کہانی


سلام کی کہانی
 


.
سلام کے لغوی معنی سلامتی کے ہیں. ہمارے دین اسلام کی بھی لغوی تحقیق دیکھیں تو اس میں لفظ سلم اور سلام دونوں پنہاں نظر آتے ہیں. سلم کے معنی اپنی مرضی کو اللہ رب العزت کی رضا کے سامنے نچھاور کردینا ہے، جب کہ سلام سے مراد جیسے پہلے ہی لکھ دیا سلامتی و سکون کے ہیں. آسان الفاظ میں اسلام کے لغوی معنی 'اپنی مرضی کو الله کی مرضی کے سامنے نچھاور کرکے سلامتی حاصل کرلینا' ہیں. جب ایک بندہ یا ایک معاشرہ اپنی مرضی کو اپنے رب کی مرضی کے سامنے بچھا دیتا ہو تو اس کا لازمی پھل سکون و سلامتی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے. سلم عمل ہے اور سلام اس کا نتیجہ. ہمیں سلم سے سلام کا سفر کرنا ہے. ہمیں مسلم بننا ہے.  
.
شریعت میں خاص تلقین کی گئی ہے کہ ہر مسلم اپنے دوسرے مسلم بھائی سے جب بھی ملے تو اسے سلام کہے اور سننے والا جواب میں ویسے ہی یا بہتر طور پر سلام پیش کرے جیسے السلام و علیکم کا جواب وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کے الفاظ سے دینا. چنانچہ حکم باری تعالیٰ ہے. "جب تمہیں سلام کیاجائے تو تم سلام سے بہتر الفاظ سے جواب دو، یا اسی کے مثل جواب دو۔" (النساء:۸۶) 

غور کیجیئے تو السلام و علیکم کہنا انگریزی کے ہیلو ہائے کہنے کی طرح محض گفتگو کے آغاز کا کلمہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک مکمل دعا ہے جس میں آپ اپنے مخاطب کو سکون و سلامتی کی دعا دیتے ہیں. جواب میں آپ کا مخاطب آپ کو مزید بہتر انداز سے سکون و سلامتی کی دعا دیتا ہے. اگر یہ عمل اخلاص و سمجھ کے ساتھ ساتھ کیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں کہ معاشرہ سکون و سلامتی کا مظہر بن جائے. راقم کی اس تحریر کے قارئین سے استدعا ہے کہ وہ اس عمل کو تجرباتی طور پر کرکے دیکھیں یعنی اگلی بار جب اپنے کسی مسلم بھائی کو سلام کریں تو اس شعور کے ساتھ الفاظ ادا کریں کہ آپ دل سے اسے دعا دے رہے ہیں. انشاللہ اسی فرحت و تسکین کا ظہور ہونے لگے گا جو اکثر قلب سے مانگی دعا کے بعد ہوا کرتا ہے. صحابہ رض کا یہ عمل تھا کہ وہ بازار اسی نیت سے جاتے کہ سب کو سلام کریں گے. وجہ یہی کہ انہیں اس سے پھیلتی ہوئی سلامتی نظر آتی تھی. یوں تو سلام کرنے کی تلقین پر بیشمار احادیث موجود ہیں مگر چند ایک یہاں پیش کئے دیتا ہوں. ترمزی شریف کی وہ حدیث یاد کریں جس میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول صلی الله و الہے وسلم نے فرمایا کہ " تم جنت میں داخل نہ ہوگے جب تک ایمان نہ رکھتے ہو، اور تم ایمان نہیں رکھ سکتے جب تک ایک دوسرے سے محبت نہ کرو. کیا میں تمھیں وہ بات نہ بتاؤں ؟ جسے اگر تم کرو تو ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو گے ؟ .. (وہ راز کی بات یہ ہے کہ) آپس میں سلام پھیلاؤ."  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کو مسلم معاشرہ میں عام کرنے کی انتہائی تاکید فرمائی ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی آدمی اپنے بھائی سے ملاقات کرے تو اس کو سلام کرے، پھر کچھ دیر بعد دیوار، درخت یا پتھر درمیان میں حائل ہوجائے تو پھر دوبارہ سلام کرے، یعنی جتنی بار ملاقات ہواتنی بار سلام کرتا رہے۔"(ابوداؤد۲/۷۰۷). ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: " کون سا عمل سب سے بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: اللہ کے بندوں کو کھانا کھلانا اور جانا پہچانا اورانجان ہر ایک کو سلام کرنا، سب سے افضل عمل ہے" (بخاری۲/۹۲۱)۔
.
اصولی طور پر واجب یا فرض کفایہ عمل کا ثواب سنت سے زیادہ ہوا کرتا ہے مگر سلام کے ضمن میں سنت کا ثواب واجب یا فرض کفایہ سے زیادہ ہے. سلام کرنا سنت ہے مگر سلام کا جواب دینا واجب یا فرض کفایہ ہے. فرض کفایہ سے مراد یہ ہے کہ جو اپنی اصل میں سب پر فرض ہو مگر کچھ کے ادا کردینے سے سب کی جانب سے ادا ہو جائے اور کوئی بھی ادا نہ کرے تو سب کے لئے گناہ قرار پائے. اس کی مثال یوں سمجھیئے کہ آپ کسی محفل میں بیٹھے ہوں اور کوئی نیا آنے والا باآواز بلند سلام کرے. اب کیا پوری محفل میں موجود ہر ہر شخص کو لازمی جواب دینا ہوگا؟ نہیں بلکہ اگر محفل میں سے کچھ لوگ جواب دے دیں تو سلام کا جواب دینے کی ذمہ داری سب کی جانب سے ادا ہو جائے گی. اسی طرح سلام کا بہتر الفاظ سے جواب دینا مستحب ہے. 
.
ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم غیر مسلم کو سلام کر سکتے ہیں ؟ یا اس کے سلام کا جواب دے سکتے ہیں؟ اس ضمن میں اہل علم کے درمیان دو آراء موجود ہیں. پہلی رائے کے حساب سے کسی غیر مسلم کو سلام کرنا یا اس کے جواب میں وعلیکم السلام کہنا جائز نہیں. وہ اپنی دلیل ان احادیث سے حاصل کرتے ہیں جو ایک خاص واقعہ سے متعلق ہے. جس میں رسول ص اور صحابہ اکرام رض نے غیر مسلموں کے سلام کا جواب صرف 'وعلیکم' کہہ کر دیا اور ساتھ میں لفظ سلام نہ لگایا. دوسرے رائے سے منسلک محقیقین پہلی رائے کو ایک علمی غلطی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر احادیث کے ذخیرے کو سامنے رکھا جائے تو اس غلطی کا تدارک ہوجاتا ہے. اس واقعہ کی پوری تفصیل صحیح مسلم ہی کی ایک دوسری حدیث (١٤/١٤٦) میں بیان ہوئی ہے. جس کے مفہوم کے مطابق ایک بدبخت یہودی نے رسول کریم ص کو "السلام و علیکم" (آپ پر سلامتی ہو) کی جگہ "السّام علیکم" (آپ پر موت ہو) کے الفاظ ادا کئے. ان الفاظ کو بھانپ کر حضرت عائشہ رض نے غصہ سے جواب دیا "بل علیکم ال سام ولعنہ" (نہیں ، تم پر موت اور لعنت ہو). پیغمبر اسلام ص نے حضرت عائشہ رض کو دھیمے سے سمجھایا کہ اللہ رب العزت کو ہر کام میں نرمی پسند ہے. حضرت عائشہ رض نے رسول ص سے جوابی عرض کیا کہ کیا آپ نے سنا نہیں تھا کہ اس یہودی نے آپ کو کیا کہا تھا؟ .. آپ ص نے فرمایا میں نے جواب میں اسی لئے کہا "وعلیکم" (اور تم پر بھی) 
.
مندرجہ بالا حدیث سے صراحت ہو جاتی ہے کہ سلام کے جواب میں سلام کی بجائے صرف وعلیکم کہہ دینا ان غیرمسلموں تک موقوف ہے جو السّام علیکم جیسے فتنہ انگیز الفاظ استعمال کریں. ایک اور حدیث کے مفہوم میں صحابہ رض نے دریافت کیا کہ بعض غیرمسلم سلام کے الفاظ کی بجائے بددعا کے الفاظ استعمال کرتے ہیں تو ہم جواب میں کیا کہیں؟ تو آپ ص نے کہا کہ تم جواب میں وعلیکم کہہ لیا کرو. اس کے علاوہ ایک اور حدیث جس میں اہل کتاب سے سلام کی ابتدا کرنے کو منع کیا گیا ہے. دوسری آراء والے علماء کے بقول یہ امر ایک خاص وقت اور واقعہ تک محدود ہے جب بنو قریظہ کے خلاف ان کی حرکات کی پاداش میں مسلمانوں کو کچھ تادیبی احکام دیئے گئے تھے. جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ان کا سوشل بائیکاٹ کیا جائے. قران حکیم نے تو واشگاف الفاظ میں بناء مسلم و غیرمسلم کی تخصیص کے یہ تلقین کی ہے کہ اگر کوئی جاہل تم سے بحث کے درپے ہو تو اس سے الجھنے کی بجائے اسے سلام کہو. لہٰذا سورہ القصص کی 55 آیت میں ارشاد ہے: "اور جب بیہودہ بات سنتے ہیں تو اس سے منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم کو ہمارے اعمال اور تم کو تمہارے اعمال۔ السلام و علیکم (تم کو سلام) ۔ ہم جاہلوں کے خواستگار نہیں ہیں" 
اس آیت کے حوالے سے یہ بتانا بھی قابل ذکر ہوگا کہ دور حاضر میں ہم میں سے اکثر اس حکم کا عملی اطلاق یا تو کرتے نہیں یا پھر ایسے انداز میں کرتے ہیں جس سے مخاطب کی تحقیر ہو اور اسے احساس ہو کہ ہم نے اسے جاہل سمجھ کر سلام کیا ہے. جان لیجیئے کہ عربی زبان میں جاہل صرف غیر پڑھے لکھے کو نہیں کہتے بلکہ اسے کہتے ہیں جس کی عقل پر جذبات کا پردہ پڑا ہوا ہو. ایسا شخص ظاہر ہے کہ سکون و سلامتی  سے خود بھی محروم ہوتا ہے اور اپنے ماحول کو بھی تخریب میں مبتلا کرنا چاہتا ہے. ایک مسلم کا اسے سلام کرنا دراصل اس کے لئے خیر کی دعا ہوتا ہے کہ جس سلامتی سے وہ اس وقت محروم ہے، الله پاک اسے وہ عطا کردیں. دعا ظاہر ہے درد دل کے ساتھ ہی ممکن ہے ، تحقیر و تذلیل کے جذبے کیساتھ نہیں. 
.
====عظیم نامہ====

No comments:

Post a Comment