بہترین استاد
بہترین استاد وہ نہیں جو محض آپ کے سوالات کے شافی جوابات دینے پر قادر ہو بلکہ بہترین استاد تو وہ ہے جو مرشد بن کر آپ کے پوشیدہ روحانی امراض کا معالج بھی بن جائے. جو جہاں آپ کی عقل کو دلائل سے سیراب کرسکے وہاں آپ کے قلب کی تشنگی بھی دور کردے. وہ آپ کی شخصیت میں اتر کر تکبر، حسد، شہوات اور دیگر بیماریوں کی آپ کے سامنے تشخیص بھی کرے اور پھر تربیت سے اس کا شافی علاج بھی فراہم کردے. رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات اور طریق تربیت پر نظر کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ اکثر سائل کے سوال کا جواب اسکی داخلی حالت و کیفیت کے حساب سے دیا کرتے. یعنی جب نصیحت کرتے تو کسی صحابی کو غصہ پر قابو پانے کی تلقین ہوتی، کسی کو مال خرچ کرنے کی ترغیب ہوتی، کسی کو والدین سے حسن سلوک کی ہدایت کرتے، کسی کو سلام میں پہل کرنے کی تعلیم دیتے تو کسی کو جہاد و قتال پر ابھارتے. الغرض یہ کہ مخاطب جس پہلو سے روحانی کمزوری کا شکار ہوتا ، اسے موضوع بناکر اس پر نصیحت کا مرہم رکھ دیتے. افسوس کہ آج یہ تصور قریب قریب گم ہوکر رہ گیا ہے. اکثر جو روحانی تذکیر کی بات کرتے ہیں وہ جدید اذہان میں پیدا ہونے والے سوالات کا جواب نہیں دے پاتے اور جو پرتشفی جوابات دینے پر قادر ہوں وہ روحانی تربیت کے رموز سے خالی نظر آتے ہیں. اگر آج الله پاک نے آپ کو استاد کی مسند پر بیٹھا رکھا ہے تو لازمی ہے کہ آپ اپنے مخاطبین کی اصلاح دونوں پہلوؤں سے کرنا سیکھیں. اگر کسی ایک پہلو میں بھی ٹھیک توجہ نہ دی گئی تو تربیت ادھوری ہی قرار پائے گی. شاگرد کو بھی چاہیئے کہ وہ کسی ایسے استاد کو کھوجنے کی کوشش کرے جو بیک وقت اس کی منطقی الجھنیں بھی سلجھا سکے اور اس کے باطنی وجود کو بھی پاکیزہ کردے. گو ایسے استاد ملنا بہت مشکل ہیں. اگر ایسے استاد کو کوشش کے باوجود نہ ڈھونڈھ پائے تو پھر یہ کوشش کرے کہ دو مختلف استادوں سے اپنے ان دونوں پہلوؤں کو مستحکم کرنے کا اہتمام کرے.
.
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment