راستہ اور منزل

سوچیئے کہ آپ کو ایک میراتھن ریس یعنی انسانی دوڑ میں حصہ لینے کا موقع ملتا ہے. ایک بہت بڑے انعام کا اعلان کیا جاتا ہے کہ جو جو بھی دوڑ مکمل کرے گا، دی گئی ہدایات پر عمل کرے گا اور راستے میں موجود مختلف مقامات پر نصب جھنڈوں کو اکٹھا کرکے آخری منزل پر پہنچے گا اسے یہ بیش قیمت انعام حاصل ہوجائے گا.
.
دوڑ کیلئے بچھائے گئے ٹریک کو دونوں اطراف میں خوبصورت پھولوں سے سجا دیا جاتا ہے، دیکھنے میں آسانی کیلئے بہترین برقی قمقموں کا بندوبست ہوتا ہے، دوڑنے کیلئے انتہائی آرام دہ جوتے آپ کو دے دیئے جاتے ہیں. اس کے علاوہ بھی طرح طرح کی آسانیاں اور ہدایات اس راستے میں نصب کی جاتی ہیں. دوڑ کا آغاز ہوتا ہے تو کچھ افراد تو نہایت تیزی و پھرتی سے اپنی منزل کی جانب دوڑ لگادیتے ہیں. یہ عقلمند لوگ راستے میں موجود سہولیات سے حتی المکان استفادہ کرتے ہیں اور انتظامیہ کے اس بہترین انتظام پر دل سے شکر گزار ہوتے ہیں. اس سب کے دوران ان کی نظر اپنے ہدف سے نہیں ہٹتی اور ایک لمحے کو بھی وہ اپنی منزل سے غافل نہیں ہوتے. اس کے برعکس کچھ اور لوگ اس دوڑ میں نہایت احمق ثابت ہوتے ہیں. وہ راستے میں موجود سہولیات کی چمک دمک دیکھ کر اپنی رفتار کم کر دیتے ہیں یا رک کر ان ہی میں کھو جاتے ہیں. کوئی برقی قمقموں کی ساخت پر غور کرنے لگتا ہے. کوئی موجود ہدایات کی حکمت کو بیان کرنے لگتا ہے. کوئی جھمگھٹا لگا کر انتظامات کی تعریف میں مشغول ہوجاتا ہے اور کوئی دوسرے افراد کو اس دوڑ کے جسمانی فوائد گنوانے لگتا ہے. اس صریح حماقت کا نتیجہ یہی نکل سکتا ہے کہ پہلے گروہ کے علاوہ باقی سب افراد منزل پر پہنچنے اور کامیابی کو حاصل کرنے سے محروم رہیں گے. واحد وجہ ناکامی کی یہی ہے کہ انہوں نے منزل کو فراموش کرکے راستے کو ہی اصل سمجھ لیا.
.
اس دنیا میں ہم مسلمانوں کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے. ہم میں سے کسی نے نماز روزے کو اصل سمجھ لیا تو کسی نے ذکر کی محفلیں سجانے کو اصل بنا لیا. کسی نے قیام خلافت کو اصل سمجھا تو کسی نے تبلیغ دین کو اصل گردانا. کوئی فن تفسیر کا شیدائی ہوگیا تو کوئی اصول الفقہ سے محبت کربیٹھا. کوئی فن حدیث میں غرق ہوگیا تو کوئی مسائل تصوف کو اپنا دل دے بیٹھا. حقیقت میں ان تمام عبادات و علوم کی حیثیت صرف 'ذریعے' اور 'راستے' کی تھی. 'منزل' تو اپنے رب کی خوشنودی اور اسکے لئے پاکیزہ قلب کا حصول تھا. سوچیئے کہ اگر ان ریاضتوں میں کھوکر اصل منزل سے نظر ہٹ گئی تو یہ کتنی ہولناک ناکامی ہے؟ اگر میری نماز، میرے ذکر، میرے علم، میرے عمل نے میری تہذیب نفس نہ کی اور مجھے خدا سے قلبی تعلق نہ دیا ، اسکی معرفت نہ دی تو پھر میری مثال بھی اسی شخص کی ہوگی جو دوڑ میں منزل بھلا کر رستے کی چمک دھمک میں کھوگیا.
.
====عظیم نامہ=====
No comments:
Post a Comment