Sunday, 15 May 2016

عبادت کا مفہوم


عبادت کا مفہوم 


عبادت لفظ عبد سے نکلا ہے اور عبد کے معنی غلام کے ہیں. اس اعتبار سے عبادت دراصل غلامی کے لغوی معنی خود میں سموئے ہوئے ہے. ضروری ہے کہ پہلے معلوم ہو کہ غلام ہوتا کون ہے؟ جان لیجیئے کہ لفظ غلام اور ملازم یکساں نہیں ہیں. ملازم کسی خاص ملازمت کے لئے مقرر ہوتا ہے، جبکہ غلام ہمہ وقت اپنے مالک کے سامنے ہر قسم کی مشقت اٹھانے کو حاضر ہوتا ہے. جہاں دور حاضر میں مغرب 'آزادی' کو اپنے لئے اثاث کا درجہ دیتا ہے وہاں ایک مسلمان خود کو عبد اللہ یعنی اللہ کا 'غلام' کہلانے میں فخر محسوس کرتا ہے. کلمہ گو افراد میں یہ مغالطہ بھی موجود رہا ہے کہ ان کا ایک گروہ محض پرستش ہی کو عبادت سمجھ بیٹھا ہے جبکہ دوسرا گروہ فقط اطاعت کو عبادت کہہ کر پرستش کے مظاہر یعنی نماز، روزے کا منکر بن جاتا ہے. یہ دونوں انتہائی رویئے ہیں اور دونوں ہی حقیقت کے منافی ہیں. عبادت درحقیقت پرستش اور اطاعت کا مجموعہ ہے. یہ دونوں کے بیک وقت اہتمام کا نام ہے. جہاں ارکان اسلام میں عبادت کا پرستش اور شکر کی صورت میں اظہار ہوتا ہے. وہاں چوبیس گھنٹے کی بقیہ زندگی میں احکام الہی کا عملی مظاہرہ بھی عبادت ہی کا ظہور ہے. عبادت کا ہر وہ تصور ناقص ہے جو ان دونوں لازمی پہلوؤں میں سے کسی بھی ایک کی نفی کرتا ہو. یہ عبادت اور عبد بن کر رہنا ہی انسان و جن کی تخلیق کا مقصد بتایا گیا ہے. چانچہ قران حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ”اور ہم نے جن اور انسان کو نہیں پیدا کیا مگر اس لئے کہ وہ میری عبادت کریں۔“( سورہ حشر آیت ۱۹)
.
یہاں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ اگر جن و انس کی تخلیق کا مقصد فقط عبادت ہی تھا تو اسکے لئے ملائکہ پہلے ہی موجود تھے جو پوری طرح فرمانبردار ہیں. پھر کیا ضرورت تھی کہ اس کارخانہ قدرت میں انسانوں یا جنات کو بھیجا جائے؟ جان لیجیئے کہ ہماری تخلیق اس مادی دنیا کیلئے کی ہی نہیں گئی بلکہ اللہ عزوجل نے ہمیں ایک ابدی دنیا کیلئے پیدا کیا ہے جو جنت و جہنم میں تقسیم ہوگی اور جہاں ان دونوں مقامات میں داخلہ میرٹ کی بنیاد پر کیا جائے گا. اس میرٹ کا حصول اسی دنیا میں اپنائے گئے رویئے کی بنیاد پر ہوگا. اسی نسبت سے اسے دارالامتحان بھی پکارا جاتا ہے. یہ دنیا حد سے حد ایک گزرگاہ ہے، ایک عارضی پڑاؤ ہے، ایک امتحان گاہ ہے جہاں ہمیں ابدی دنیا کیلئے اپنی اپنی اہلیت ثابت کرنی ہے. صرف ملائکہ، جنات اور انسان ہی نہیں بلکہ تمام جمادات، نباتات، حیوانات، حشرات اور ہر ہر مخلوقات کی تخلیق کا مقصد عبادت ہی ہے. ہر چیز اپنی زبان سے اور اپنی زبان حال سے الله کی تسبیح و عبادت ہی میں مشغول ہے. سورج، چند، ستارے، درخت، پہاڑ سب ایک نظام میں جکڑے اسی عبادت کا شب و روز اظہار کررہے ہیں. آیت مبارکہ میں صرف انسان اور جنات کا ذکر شائد اسی وجہ سے کیا گیا کہ یہی دو مخلوقات ایسی ہیں جنہیں رب العزت نے ارادہ و اختیار کی آزادی دے رکھی ہے کہ وہ اس محدود مدت زندگی میں اپنی مرضی سے الله کی عبادت کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرسکیں. دوسرا اہم پیغام اس میں یہ ہے کہ ہم جان لیں کہ ہماری اصل 'عبد' بن کر رہنا ہے. اگر کوئی بکری یہ کہے کہ میں بکری نہیں گھوڑا ہوں یا کوئی پلیٹ یہ سمجھے کہ میں پلیٹ نہیں چمچہ ہوں تو صرف ان کے کہنے یا سمجھنے سے ان کی حقیقت نہیں بدلے گی. بکری پھر بھی بکری ہی رہے گی اور پلیٹ بہرحال پلیٹ ہی رہے گی. عقلمندی سراب یا دھوکے میں جینا نہیں بلکہ اپنی حقیقت کو تسلیم کرلینے کا نام ہے. کسی بھی تخلیق کی حقیقت و مقصد اس کا بنانے والا ہی سب سے بہتر بتاسکتا ہے. اسی لئے مختلف تخلیق کار مینوفیکچرنگ کمپنیاں اپنی پروڈکٹ کا مقصد، حقیقت اور استمعال کو تفصیل سے بیان کرتی ہیں. الله رب العزت نے انسان کو تخلیق کیا ہے اور انہوں نے صاف الفاظ میں یہ بتادیا ہے کہ انسان کی حقیقت عبدیت ہے. اسے الله کا عبد بنایا گیا ہے اور اسی رعایت سے اس کا مقصد عبادت یعنی رب کی پرستش و اطاعت کرنا ہے. اگر آج کوئی احمق اپنے عبدالله ہونے کا منکر ہوتا ہے تو لامحالہ انسانی فطرت سے مجبور ہوکر وہ عبادت کے دوسرے بت تراش لے گا. اب چاہے وہ شخصیت پرستی ہو، فرقہ پرستی ہو یا پھر وطن پرستی کا بت ہو. اسی حقیقت کو علامہ اقبال نے کچھ یوں بیان کیا تھا. 
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
.
عبادت کا ایک اور وسیع تر مفہوم جو راقم سمجھ پایا ہے وہ یہ ہے کہ الله رب العزت نے انسان میں اپنی بہت سی صفات کا محدود عکس انسان میں بھی رکھ رکھا ہے جسے احکام الہی کی روشنی میں نمو دینا بھی عین عبادت ہے. یعنی اللہ العلیم ہیں لیکن تھوڑا سا علم ہم انسانوں کو بھی دیا گیا ہے، الله الحکیم ہے مگر انسانوں میں بھی حکمت کا داعیہ موجود ہے، الله الرحمٰن ہیں مگر رحم کا مادہ انسانوں میں بھی ودیعت کیا گیا ہے. ان صفات میں سے ہر صفت کو قران پاک کی روشنی میں تہذیب کے مراحل سے گزرنا اس خاص صفت الہی میں عبد بن جانے کے مترادف ہے. مثال کے طور پر الرحمٰن کی صفت میں عبد بننے کیلئے جو رویہ اختیار کرنا ہوگا اسکا نقشہ سورہ الفرقان میں کچھ یوں پیش کیا گیا ہے
.
"رحمٰن کے بندے(عِبَادُ الرَّحْمٰنِ) وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں اور جاہل ان کے مُنہ آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام۔ جو اپنے ربّ کے حضور سجدے اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں۔ جو دُعائیں کرتے ہیں کہ”اے ہمارے ربّ، جہنّم کے عذاب سے ہم کو بچا لے ، اُس کا عذاب تو جان کا لاگو ہے، وہ تو بڑا ہی بُرا مستقر اور مقام ہے۔ “ جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضُول خرچی کرتے ہیں نہ بُخل، بلکہ اُن کا خرچ دونوں انتہاوٴں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے۔ جو اللہ کے سوا کسی اور معبُود کو نہیں پُکارتے ، اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے، اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔"  
.
====عظیم نامہ====

No comments:

Post a Comment