منفی تنقید پر ایک مثبت تنقید
ہمارے سیاستدان کرپٹ ہیں، ہمارا میڈیا بکا ہوا ہے، ہماری فوج امریکہ کی غلام ہے، ہمارے وکلاء قانون شکن ہیں، ہمارے مولوی تفرقہ پھیلاتے ہیں، ہماری عوام بے ایمان ہے، ہماری کرکٹ ٹیم سٹہ باز ہے، ہمارا کاروباری حلقہ ناجائز منافع خور ہے، ہمارا ملازمت پیشہ طبقہ کام چور ہے، ہمارے کئی اسکول کالج رشوت لیتے ہیں، ہمارے کئی مدارس میں بچوں کو جنسی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے
.
تو کیا کریں؟ سینہ کوبی کریں؟ ایک دوسرے کے منہ نوچتے رہیں؟ خود کو درست سمجھ کر مقابل کو صلواتیں سنائیں؟ کسی لڑاکا عورت کی طرح ایک دوسرے کو کوسنے دیا کریں؟ یا پھر خودکشی کرلیں؟ ... کیونکہ یہی تو ہم پچھلے بہت سالوں سے تشخیص و اصلاح کے نام پر کررہے ہیں. ہر شخص صرف منفی تنقید اور افکار کا حامل بنا بیٹھا ہے. اس مکھی کی طرح جو صرف گندگی پر ہی بیٹھا کرتی ہے. ہر کوئی کھری کھری سنا رہا ہے. اب تو ہمیں ایک دوسرے کو برہنہ کردینے میں لطف آنے لگا ہے. افسوس یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر بھی اکثر خود ساختہ لکھاری صرف مایوسی کے بیج بوتے نظر آتے ہیں، تنقید برائے تنقید کرتے ہیں. تحریروں سے ایسا معلوم ہوگا کہ شاید وطن کا سارا درد ان ہی کے سینے میں موجزن ہے مگر ذرا نزدیک سے جاکر جائزہ لیں تو شاذ ہی کوئی ایسا ملے جو عملی زندگی میں اس صورتحال کو بہتر بنانے میں کردار ادا کر رہا ہوں. جو کسی اسکول یا فلاحی ادارے سے عملی طور پر منسلک ہو. جو کسی کی تعلیم یا نوکری کا بندوبست کرتا ہو. بلکہ امکان ہے کہ کئی تو ایسے ہوں جو کرپشن کے دست بازو بنے ہوئے ہوں. پھر چاہے وہ ناجائز کنڈا ڈال کر بجلی کی چوری ہو، یا رشوت دے کر کام نکلوانا. میرا ذاتی مشاہدہ تو یہی ہے کہ جو فی الواقع معاشرے میں تعمیری کردار ادا کرتے ہیں وہ شکایات کا دفتر کھولے نہیں بیٹھے رہتے
.
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ بعض اوقات مسائل کی اپنی سنگینی سے زیادہ ان مسائل کو مستقل اچھالتے رہنا مسلہ بن جاتا ہے. میں یہ نہیں کہہ رہا کہ مسائل کو زیر بحث نہ لائیں. ضرور لائیں مگر اس میں توازن پیدا کریں. جہاں زید حامد کی طرح خوش فہمی کا چیمپئن بننا حماقت ہے وہاں حسن نثار کی طرح مایوسی کا پیغمبر بن جانا بھی دانش کی دلیل نہیں. تنقید ضرور کریں مگر تعریف کے پہلوؤں پر بھی اپنی نظر کرم کیجیئے. مثبت انداز میں تنقید کیجیئے کہ جسے پڑھ کر قاری مایوسی کی دلدل میں نہ جاگرے بلکہ اس میں اپنے سدھار کا جذبہ پیدا ہو. یقین جانیں کہ اسی معاشرے اور اسی ملک میں بہت کچھ ایسا ہو رہا ہے جو مثبت ہے، جسکی تعریف نہ کرکے اور جسے موضوع نہ بناکر ہم ظلم کرتے ہیں. لیکن ہمارے قلم توصیف کرتے ہوئے ٹوٹنے لگتے ہیں، ہماری زبان اس کی تعریف سے دانستہ اجتناب کرتی ہے. اللہ رب العزت نے بھی اپنے بندوں کو جنت اور جہنم دونوں بیان کئے ہیں مگر لگتا ہے ہم صرف جہنم دیکھنا اور دیکھانا چاہتے ہیں. ہماری فوج جب دنیا بھر کی فوجوں میں گولڈ مڈل لیتی ہے تو ہم تعریف کی بجائے ٧١ کی شکست بیان کرنے لگتے ہیں، جب دنیا بھر میں ہماری انٹلیجنس ایجنسی آئی ایس آئی کو اول درجہ دیا جاتا ہے تو توصیف کی بجائے ہمیں ان کی دوسری ناکامیاں نظر آنے لگتی ہیں، ہم دنیا کی ساتویں اور اسلامی ممالک میں پہلی ایٹمی قوت بنتے ہیں تو فخر کی بجائے عبدالقدیر خان کو چوری کا طعنہ دینا شروع ہوجاتے ہیں، ہم میزائل، ٹینک، جہاز، آبدوز سب بنانے لگے ہیں تو خوشی کی بجائے ہمیں جرنیلوں کی کرپشن دکھائی دیتی ہے، ہمارے طالبعلم اپنی ایجادات پر دنیا بھر میں انعامات حاصل کرتے ہیں مگر ہماری گفتگو اور خبروں میں اپنی جگہ نہیں بنا پاتے، ہمارے کھلاڑی کرکٹ، ہاکی، اسکواش، کبڈی، اسنوکر، باکسنگ، باڈی بلڈنگ سمیت بیشمار کھیلوں میں دنیا بھر میں چیمپین بنتے ہیں مگر ہمارا سارا زور ان کی خامیاں ڈھونڈھنے میں ہی لگ جاتا ہے. ہمارا ملک بہترین ادیب اورشاعروں سے مالامال ہے مگر ہم انہیں سننے کو تیار نہیں ہوتے، ہماری اسی سرزمین پر جید علماء اور محققین زندہ ہیں مگر ہم کچھ رنگ برنگے نیم مولویوں کی خرافات کو اپنی گفتگو کا مرکز بنالیتے ہیں، ہمارا شمار صدقہ و خیرات کرنے والے صف اول کے ممالک میں ہوتا ہے مگر ہم ان لٹیروں کا ذکر کرتے ہیں جو مذہب کی آڑ میں گھناؤنا دھندہ کرتے ہیں. غرض ہمیں مایوسی پھیلانے کی لت سی لگ گئی ہے. ہم یہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہیں کہ ہم میں کچھ خوبیاں بھی ہوسکتی ہیں.
.
میں پچھلے تیرہ برس سے برطانیہ میں مقیم ہوں جو بجا طور پر ترقی اور انصاف کے حوالے سے پوری دنیا میں مثالی ملک مانا جاتا ہے. میں آپ کو سچائی سے بتاتا ہوں کہ ان کی تمام تر خوبیوں کے باوجود ان میں بیشمار سنجیدہ اور بہت بڑے بڑے مسائل موجود ہیں. یہ اس پر بات کرتے ہیں، تنقید بھی کرتے ہیں مگر ہماری طرح واویلا نہیں کرتے رہتے. اس کے برعکس وہ چھوٹی سے چھوٹی مثبت بات کو بھی کئی گنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا کرتے ہیں. وگرنہ ان کے سیاستدان بھی ڈیوڈ کیمرون سمیت اربوں کی کرپشن میں ملوث ہیں، ان کے پادری بھی بچوں سے زیادتی کرتے ہوئے پکڑے جاتے ہیں، ان کے ہاں بھی روزانہ عورتوں کو ریپ کیا جاتا ہے، ان کے اسکولوں میں مہلک نشہ آور ڈرگز باآسانی ملتی ہیں، ان کے جرنلسٹ بھی اکثر پیسہ کھا کر تعریف و تنقید کرتے ہیں، ان کے فوجی بھی طرح طرح کی گندگیاں اور قانون شکنیاں کرتے ہیں، ان کے فٹبال مداحوں پر دیگر ممالک میں 'ہولی گین' یعنی فسادی قرار دے کر پابندی لگا دی جاتی ہے، ان کے ہاں بھی بہت سے کالج یونیورسٹیز جعلی ڈگریاں بنادیتی ہیں، ان کے ہاں بھی دنیا بھر سے 'ہیومن ٹریفکنگ' کے ذریعے جنسی دھندھے کروائے جاتے ہیں...... کہنے کا مقصد یہ ہے کہ شدت میں کمی ہوسکتی ہے مگر ہر طرح کے خطرناک جرائم اور مسائل یہاں بھی موجود ہیں. یہ ان پر بات ضرور کرتے ہیں مگر اس کا تناسب مثبت باتوں کے ذکر کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے. یہ جانتے ہیں کہ منفی باتوں کا پرچار مزید منفیت کو ہی جنم دے سکتا ہے. مگر چلیں یہ تو پھر دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ ممالک میں سے ہے. آپ پڑوسی ملک بھارت کو دیکھ لیں. کون سا جرم اور مسلہ ان کے یہاں آپ جیسا یا آپ سے زیادہ نہیں ہے؟ کرپشن ان کے اندر ہے، رشوت ان کے ہاں ہے، دنیا بھر میں سب سے زیادہ عورتوں کو جنسی تشدد کا نشانہ اسی ملک میں بنایا جاتا ہے مگر یہ اس کے باوجود پاکستان کے مقابلے میں مثبت باتوں کا ذکر کہیں زیادہ کرتے ہیں. اپنی پولیس کی حوصلہ افزائی کے لئے ڈرامے، فلمیں بناتے ہیں. ہندو مسلم فسادات کی بدترین مثالیں رکھنے کے باوجود، سکھوں کے بد ترین قتل عام کے باوجود یہ خود کو دنیا بھر میں برداشت کا نمونہ بنا کرپیش کرنے میں کامیاب ہیں. ایسا نہیں ہے کہ ان کے مسائل ہم سے چھوٹے ہیں یا ان کے ادارے، فوج، پولیس یا سیاستدان کرپشن میں ملوث نہیں. مگر وہ جہاں ان پر کڑی تنقید کرتے ہیں وہاں زور و شور سے ان کے مثبت پہلو بھی اجاگر کرتے ہیں. ہمیں اسی تنقید و تعریف کے توازن کو سمجھنا ہوگا. مسائل کا رونا اور اخلاص کا ڈھونگ کرنے کی بجائے مجھے اور آپ کو آگے بڑھ کر اپنا اپنا مثبت کردار نبھانا ہے. یاد رکھیں
.
موج بڑھے یا آندھی آئے، دیا جلائے رکھنا ہے
گھر کی خاطر سو دکھ جھیلیں، گھر تو آخر اپنا ہے
.
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment