انسان کی تخلیقاتی نفسیات کے پس پردہ محرکات
انسانی شعورکی تاریخ اور فہم و فکر کو کسی خاص فارمولے میں لپیٹ کر پیش
کردینا ممکن نہیں ہے. مگر جس طرح انسانی نفسیات کے دیگر خارجی حقائق تک ہم باطنی سفر کے ذریعے پہنچتے ہیں، جس طرح ہم کئی بار غیب سے حاضر کو پالیتے ہیں، نامعلوم سے نامعلوم کا استنباط کرلیتے ہیں اور مفروضہ سے حقیقت کو کھوج نکالتے ہیں ویسے ہی انسان کی اجتماعی نفسیات کا باریکی سے جائزہ لینے پر ہمیں ایک مربوط فکری نظام اپنی خاص ترتیب کے ساتھ جلوہ گر نظر آتا ہے. جیسا پہلے عرض کیا کہ کوئی جامد فارمولا اس مد میں نہیں پیش کیا جاسکتا اور اختلاف کی گنجائش ذاتی مشاہدات کی بنیاد پر بہرحال موجود رہے گی. لیکن اس بشری فکر کا مختلف زاویوں سے جائزہ لینا شائد ہمارے شعوری ارتقاء میں معاون ثابت ہو. راقم کی نظر میں انسانی فکر کی کڑیاں اپنے باطن میں کچھ اس انداز سے مربوط و مرتب ہیں
.
نوٹ: درج ذیل نظام فکر کی اصطلاحات کو پہلے اجمال میں درج کیا گیا ہے اور پھر نیچے آسان مثال سے واضح کیا جائے گا
.
مشاہدہ = خواہش کی تحریک ہے
خواہش = خیال کی پیدائش ہے
خیال = تخلیق کا آغاز ہے
شعور = خیال کا ارتکاز ہے
ارادہ = خیال کا استحکام ہے
نیت = خیال کی تجدید ہے
عمل = خیال کا اظہار ہے
معلومات = نتائج کا ہجوم ہے
تجربہ = عمل کا نتیجہ ہے
علم = معلومات اور تجربہ کا مشترکہ ثمر ہے
اصول = علم و عمل کا حاصل ہے
کامیابی = علم کا صحیح استمعال ہے
.
اس مقام پر ممکن ہیں کہ بحیثیت قاری اپ کو تحریر میں ابہام محسوس ہو اور درج بالا بیان نظم سے عاری منتشر و متفرق باتوں کا جم غفیر نظر آئے. مگر احقر کی استدعا ہے کہ ایک بار پھر اطمینان سے ان نکات کا مطالعہ کیجیئے اور پھر نیچے دی گئی مثال سے اسے سمجھنے کی کوشش فرمایئے.
.
ہر تخلیق جو انسانی فکر کا نتیجہ بنی وہ کم و بیش ان ہی مراحل سے باترتیب گزری. اس سفر کی ایک جھلک دیکھیئے
.
انسان نے ابتدا میں پرندوں کا 'مشاہدہ' کیا
اس مشاہدے سے پرواز کی 'خواہش' پیدا ہوئی
خواہش سے 'خیال' نے جنم لیا کہ کیوں نہ میں بھی فضا میں اڑنے کا طریق کھوج لوں ؟
.
خیال اب ' شعور' کے سامنے مفصل تجزیئے کیلئے پیش ہوا
شعور کے ارتکاز نے خیال کو استحکام دیا اور اب اسے انجام دینے کا 'ارادہ' وجود میں آگیا
وقت گزرنے پر خواہش شدت، خیال استقامت اور ارادہ قوی تر ہوتا گیا. 'نیت' کے زریعے تجدید نو ہوتی رہی
.
اخلاص نیت کی بنیاد پر متعلقہ 'معلومات' کا ذخیرہ جمع ہونے لگا
دستیاب معلومات کی روشنی سابقہ علتوں کے ساتھ مل کر پہلے 'عمل' کا محرک بن گئی
ابتدائی عملی اقدام یکے با دیگرے ناکام ہوتے رہے مگر ہر ناکامی 'تجربہ' کا روپ دھار کر سیکھ دیتی گئی
.
یہ تجربہ نسل در نسل منتقل ہوا جو اسے ٹھوس تر بناتا گیا اور معلومات سے 'علم' کی پوشاک میں ملبوس ہوگیا
علم نے فطری قوانین اور سابقہ تجربات کو کسوٹی بناکرممکن ناممکن کو جانا پھر اسی کی ایماء پر 'اصول' وضع کئے
بلآخر حاصل کردہ اصولوں کے اطلاق کے ساتھ مسلسل محنت و تجربات سے گزر کر اس نے پہلا ہوائی جہاز تخلیق کرلیا اور یوں 'کامیابی' سے ہمکنار ہوا
.
یہ وہ روداد ہے جو معمولی ردوبدل کے ساتھ اکثرانسانی تخلیقات میں پنہاں ہے. کچھ استثنات کو چھوڑ کر تفکر و تخیل کے اس تکلیف دہ سفر میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے
.
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment