Monday, 29 February 2016

عقل


عقل 


انسانی عقل کیلئے لازم ہے کہ وہ اپنے احساس حاکمیت کے باوجود ' فطرت' سے مطابقت پیدا کرے اور 'وحی الٰہی' کو خود پر نگران تسلیم کرلے. انسان کے شعوری ارتقاء میں عقل کا اضطراب، جستجو اور کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے مگر اس بدیہی حقیقت کے باوجود بھی عقل کو کامل حاکمیت دے دینا سراسر بے عقلی ہے. یہاں یہ جان لیجیئے کہ راقم کا مطلوب عقل کی تحقیر نہیں ہے بلکہ یہ تو انسانیت کا وہ نمائندہ وصف اور اعجاز ہے جو اسے دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتا ہے. سمجھانا فقط اتنا مقصود ہے کہ ہر مخلوق اپنے وجود و صفات میں محدود ہوا کرتی ہے. عقل بھی اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود ایک مخلوق ہی ہے لہٰذا اسکی بھی حدود متعین ہیں. جنہیں پہچان لینا ہی عقلمندی ہے اور جن سے تجاوز کی ہر کوشش ایک لاحاصل حماقت ہے 




.
تفسیر ہستی کیا ہوگی ؟ ... انسانی فہم کے حلقہ میں ؟
جو عقل کی مکڑی بنتی ہے، وہ فکر و نظر کا جالا ہے
.
====عظیم نامہ====

ممتاز قادری یا سلمان تاثیر میں سے کون درست تھا ؟

ممتاز قادری یا سلمان تاثیر 


.




آپ سمیت کئی احباب نے مجھ سے آج یہ سوال پوچھا ہے. میرے پاس اس سوال کا ہاں یا نہ میں جواب نہیں ہے. اس کی پہلی وجہ میری کم علمی اور دوسری وجہ اس معاملے میں موجود ابہام ہے. میں نے سوچا یہی تھا کہ میں اس موضوع پر لکھنے سے اجتناب کروں تاکہ اس جذباتی رسہ کشی میں شامل نہ ہوں. جس میں شامل ہوکر آج کئی مہذب اذہان ایک دوسرے کی داڑھی نوچ رہے ہیں. مگر بعد میں یہ احساس ہوا کہ شائد میری کوئی بات حق بن کر کسی کی اصلاح کردے ؟ یا پھر کسی اور کا تصحیح کرنا میری اصلاح کا موجب بن جائے؟ لہٰذا اپنی عاجز رائے درج کر رہا ہوں. جیسا کے عرض کیا کہ اس سوال کا جواب میرے پاس ہاں یا نہ میں نہیں ہے مگر کچھ اصولی باتیں ایسی ہیں جو اگر پیش نظر ہوں تو اس پورے تکلیف دہ واقعہ کو بہتر سمجھا جا سکتا ہے. ان اصولوں کو میں سوال جواب کی شکل دے کر لکھے دیتا ہوں.
.
سوال ١: کیا ناموس رسالت کے خلاف زبان درازی یا توہین رسالت کا کوئی عمل قابل سزا جرم ہے؟
. 
جواب: جی ہاں ، ایک مسلم معاشرے میں اسے شدید جرم تصور کیا جاتا ہے اور اس کے سدباب کیلئے سخت ترین سزا کا نفاز کیا جانا چاہیئے.
.
سوال ٢: کیا پھر ہم کسی شاتم رسول (ص) کو سزا دے سکتے ہیں؟
. 
جواب: سزا کا نفاز حکومت وقت کیا کرتی ہے. فرد کو ہرگز اس کی اجازت نہیں کہ وہ ازخود کسی کے شاتم رسول یا مجرم ہونے کا فیصلہ کرے اور پھر خود ہی اسے سزا سنا دے. یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے کوئی فرد کسی چور کو پکڑ کر خود سے اسکا ہاتھ کاٹ دے یا زانی کو کوڑے لگا دے. 
. 
سوال ٣: اگر حکومت بس نام کی مسلمان ہو اور وہ سزا دینے میں کوتاہی کرے تو کیا ہم توہین رسالت پر کچھ نہ کریں ؟
. 
جواب: اگر حکومت عدالتی کاروائی کو شفاف طریق سے انجام نہ دے تو مسلمانوں کو اختیار ہے کہ وہ شرعی حدود میں رہتے ہوئے حکومت پر ہر ممکن دباؤ ڈالیں. حکومت کو مجبور کریں کہ وہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرے. یہ تمیز بھی ملحوظ رہے کہ زور ڈالنے کا مقصد انصاف کا حصول ہو، اپنی من مانی نہیں.فرد کو بہرحال یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اپنے گمان پر کسی کی جان تلف کرلے. وجہ صاف ہے کہ اس سے سے نظم، قانون اور انصاف تینوں کا عمل متاثر ہوگا. بہت ممکن ہے کہ فرد تصویر کا صرف ایک رخ دیکھ کر یا جذباتیت کی رو میں بہہ کر کسی بے گناہ کو گنہگار سمجھ بیٹھے. یا پھر کمتر جرم کی سنگینی میں غلو برت جائے. 
.
سوال ٤: کیا ممتاز قادری کا جذبہ قابل رشک نہیں ؟
.
جواب: میری نظر میں تو ان کا جذبہ قابل رشک ہے مگر طریق غلط ہے اور غلط طریق کو غلط ہی کہنا چاہیئے. پھر ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ سلمان تاثیر کو آخری درجہ کا مجرم سمجھنے میں ٹھیک بھی تھے یا نہیں؟
.
سوال: اگر کوئی باوجود اس اصول کے ہونے کے، ممتاز قادری کی طرح گستاخ کو قتل کردے تو کیا ہم قتل کرنے والے کو پھانسی چڑھا دیں گے ؟
.

جواب: پہلی بات یہ ہے کہ گستاخ رسول کی سزا موت ہے، یہ جمہورعلماء کی رائے ہے. دوسری بات یہ ہے کہ اس میں بھی کوئی بڑا اختلاف نہیں کہ گستاخ کا مقدمہ عدالت میں پیش ہوگا اور حاکم یا قاضی کے حکم سے سزا کا اطلاق کیا جائے گا. اب سوال صرف یہ ہے کہ کوئی شخص اس قانون کی خلاف ورزی کرکے کسی ممکنہ شاتم رسول کو بناء عدالت لے جائے قتل کردیتا ہے. اب ایسی صورت میں کیا ہوگا ؟ .. اس کا جواب یہ ہے کہ اب قتل کرنے والے کو عدالت میں ثابت کرنا ہوگا کہ جس کو اس نے قتل کیا ہے وہ فی الواقع شاتم رسول تھا اور اس نے واقعی اتنی بڑی گستاخی کی تھی جو توہین رسالت کہلاسکے. اگر وہ یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو قصاص نہیں لیا جائے گا ، ممکن ہے کہ کوئی سزا بھی نہیں دی جائے. لیکن اگر قتل کرنے والا ثابت نہ کرسکا کہ مقتول واقعی گستاخ تھا تب عدالت اسے قاتل سمجھ کر ہر ممکنہ اقدام کرنے یعنی سزا دینے کی مجاز ہوگی
.
کیا تمام فقہاء کے نزدیک توہین کی سزا قتل کردینا ہے ؟


توہین رسالت کا معاملہ اسلام میں نازک ترین ہے. نرم سے نرم مزاج والے فقہاء بھی اس ضمن میں کوئی لچک نہیں دکھاتے. لہٰذا جیسے پہلے بیان ہوا کہ جمہور فقہاء کی رائے میں توہین رسالت کی واحد سزا موت ہے. مگر کچھ استثنیٰ اس حوالے سے بھی موجود ہے. حنفی فقہاء کے نزدیک توہین کی سزا موت نہیں ہے بلکہ یہ حاکم وقت پر ہے کہ وہ جس سزا کو مناسب سمجھے اسے نافذ کردے. لہٰذا اگر کوئی غیر مسلم توہین کرتا ہے تو حنفی نکتہ نظر سے اسے موت، جیل یا کوئی اور سزا دی جاسکتی ہے. البتہ اگر کوئی مسلم شخص توہین رسالت کا ارتکاب کرتا ہے اور یہ توہین کرنا ثابت ہوجاتا ہے تو ایسا مسلم اب مسلم نہیں بلکہ مرتد کہلائے گا اور حنفیوں میں جمہور کی طرح مرتد کی سزا موت ہے
.
سوال ٥: کیا قادری جنت میں جائیں گے اور سلمان جہنم میں ؟
.
جواب: خوب جان لیں کہ سزا و جزا کا فیصلہ الله رب العزت کے ہاتھ میں ہے. ہمیں یہ اختیار نہیں کہ کسی کی جنت و جہنم کے بارے میں رائے زنی کرتے پھریں. اطمینان رکھیں کہ آپ کا رب بہترین منصف ہے جو جذبہ، نیت، عمل، طریق سب دیکھ کر مبنی باانصاف فیصلہ کرنے والا ہے. یہ فیصلہ ان ہی پر چھوڑ دیں. میری تو دعا ہے کہ رب کائنات ممتاز قادری اور سلمان تاثیر دونوں کو اپنی نظر رحمت سے دیکھیں اور اگر دونوں کے دل میں تھوڑی بھی خیر تھی تو ان کی خطاؤں کو درگزر کردیں. آمین .. وگرنہ جو بھی فیصلہ میرا رب کرے ، میرا ایمان اسی کے علیم و خبیر ہونے پر ہے.
.
والله و اعلم بالصواب 
.
====عظیم نامہ====

Monday, 22 February 2016

عقل کی حدود



عقل کی حدود 


جب عقل سے یہ جان لیا کہ اللہ بلاشبہ موجود ہیں 
جب عقل سے یہ سمجھ لیا کہ الله واقعی خالق کل کائنات ہیں 
جب عقل سے یہ ثابت ہوگیا کہ محمد صلی الله الہہ وسلم اپنی رسالت کے دعویٰ میں سچے ہیں 
جب عقل سے یہ جان لیا کہ نازل کردہ قران الله کی آخری کتاب ہے 
جب عقل سے یہ دیکھ لیا کہ اس کتاب میں درج احکامات محفوظ اور حتمی ہیں

جب ان کلیدی سوالات کے مشفی جواب عقل نے پالئے اور آخری درجہ میں کلام کا من جانب الله ہونا ثابت ہوگیا تو اب یہ عقل اپنے بنانے والے کی نازل کردہ وحی کی پابند ہوگئی. اب یہ احکامات کی پوشیدہ حکمت تو ضرور کھوج سکتی ہے، طالبعلمانہ سوالات تو کرسکتی ہے مگر ان احکامات کے قبول و رد کا میعار ہرگز نہیں بن سکتی. حکمت کا جاننا یا نہ جاننا اب احکام پر عمل کرنے یا نہ کرنے کی دلیل نہیں بن سکتا. اب تو بس سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا کا اصول لاگو ہوگا یعنی 'ہم نے سنا اور اطاعت کی'. عقل کو جب اپنے بنانے والے کی لامحدود دانش اور اپنی محدودیت کا ادراک حاصل ہوگیا تو اب عقل کا اعتراف عجز کے ساتھ چلنا ہی عقلی بنیاد قرار پائے گا. اس شخص کا یہ انداز تسلیم اور وحی الہیٰ پر اعتماد احمقانہ نہیں بلکہ خالص عقلی و وجدانی سفر کا نتیجہ ہے. وہ اب جان چکا ہے کہ عاقل ہونا یہ نہیں کہ آپ ہر بات کی عقلی توجیہہ پالیں بلکہ عاقل ہونا یہ بھی ہے کہ آپ اپنی عقل کے بارے میں یہ جان لیں کہ وہ کیا نہیں جان سکتی؟
.
دھیان رہے کہ اس استدلال کا مقصد عقل کو سلب کرنا نہیں بلکہ اسکی حدود کا تعین ہے. وگرنہ پورا قران حکیم تدبر و تفکر کی دعوت دیتا نظر آتا ہے. دنیا کے دیگر مذاہب اپنے پیروکاروں کو عقیدے کی افیون پلا کر انکے غور و فکر کی صلاحیت کو سلب کر لیتے ہیں. لیکن قرآن وہ واحد الہامی کلام ہے جو اپنے قاری کو تحقیق و تدبر پر ابھارتا ہے. وہ کہتا ہے ' افلا تعقلون ' (تم عقل کیوں نہیں استعمال کرتے؟) وہ کہتا ہے ' افلا یدبرون' (تم تدبر کیوں نہیں کرتے؟) وہ اس انسان کو انسان ماننے تک سے انکار کرتا ہے جو اپنی عقل استمعال نہ کرے اور ایسے انسان کو بدترین جانور سے تعبیر کرتا ہے جو گونگا بہرہ بھی ہو. وہ دلیل پیش کرتا ہے اور جواب میں دلیل کا تقاضہ کرتا ہے. وہ اپنے باپ دادا کی اندھی تقلید سے روکتا ہے اور اس عمل کو مشرکین کی روش بتاتا ہے. وہ کہتا ہے کہ اگر تم سچے ہو تو انجیل، تورات یا کوئی اور بڑی دلیل پیش کرو. وہ مکالمے کی فضا کو فروغ دیتا ہے اور جاہل کو بھی سلام کہہ کر چھوڑ دینے کو کہتا ہے. وہ غیر مذاہب کے خود ساختہ خداؤں کو بھی برا کہنے سے روک دیتا ہے. وہ زمین و آسمان پر غور کرنے کو عبادت بنا دیتا ہے اور تاریخ سے سیکھنے کی ترغیب دیتا ہے. 
.
تحقیق و تدبر کرنے والا ذہن بناء سوال پوچھے نہیں رہ سکتا. یہ انتہا درجہ کا مغالطہ ہے کہ الله سوال پوچھنے سے منع کرتے ہیں. ہرگز نہیں بلکہ اس کے برعکس وہ مخلص علمی سوالات کی حوصلہ افزائی فرماتے ہیں. البتہ ایسے سوالات پوچھنے والے کی گرفت کرتے ہیں جس کا مقصد بات کو سمجھنا نہیں بلکہ کجی پھیلانا ہو. یہاں سوال پوچھنا اپنی اصل میں مذموم نہیں بلکہ وہ ٹیڑھی ذہنیت ہے جو فتنہ پرور ہو. اگر مقصد حق کو سمجھنا ہے تو پھر نہ صرف اس کی اجازت ہے بلکہ مندوب ہے. اسکی ایک خوبصورت مثال ملائکہ کا سوال پوچھنا ہے. ہم قران ہی کے بیان سے جانتے ہیں کہ فرشتے رب کی کبھی نافرمانی نہیں کرتے. مگر یہی قران جب ہمیں تخلیق آدم کا قصہ سناتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ جب الله نے آدم عليه السلام کو خلیفہ الارض بنانے کا اپنا ارادہ ظاہر کیا تو ملائکہ نے بارگاہ الٰہی میں سوال اٹھایا. ملاحظہ ہو سورہ البقرہ ٣٠
.
"جب آپ کے پروردگار نے فرشتو ں سے کہا کہ میں روئے زمین پرایک جانشین اور حاکم مقرر کر نے لگا ہوں تو فرشتوں نے کہا (پروردگارا ) کیا ایسے شخص کو مقرر کرے گا جو زمین پر فساد اور خونریزی کرے گا (جبکہ)  ہم تیری تسبیح اور حمد بجالا تے ہیں ... "
.
ذرا سوچیں کہ رب کے فرمان کے سامنے ایسا سوال اٹھانا کتنی بڑی جسارت ہے اور یہ بھی دیکھیں کہ یہ سوال اٹھا ملائکہ رہے ہیں جو اپنی سرشت میں معصوم بنائے گئے ہیں. اب اگر ہمارے رب کو سوال کا پوچھنا ناپسند ہوتا تو لازمی تھا کہ پوچھنے والے سزا پاتے. مگر اس کے برعکس الله رب العزت نے پہلے ملائکہ کو انکے علم کی محدودیت اور اپنے علم کی کاملیت کا بیان کیا اور پھر اسی پر اکتفاء نہ کیا بلکہ ملائکہ کی تشفی کیلئے ایک پورا امتحان سجا کر حجت کا اتمام کیا. ابلیس اور ملائکہ میں بنیادی فرق یہی ہے کہ ملائکہ کا سوال پوچھنا بات کو سمجھنے کیلئے تھا. جبکہ ابلیس کا اعتراض اس کے تکبر کا اظہار تھا. یہی وجہ ہے کہ ملائکہ سجدہ کرکے مقرب رہے اور ابلیس کافر بن کر راندہ درگاہ قرار پایا. یہاں یہ حقیقت ملحوظ رہے کہ ملائکہ نے سوال پوچھا تھا ، سجدہ سے انکار نہ کیا تھا. اگر الله کی مشیت میں انہیں جواب نہ بھی دیا جاتا تب بھی وہ سجدہ ضرور کرتے. جیسا کے پہلے ہی بیان کیا جاچکا ہے کہ جب بات کا من جانب اللہ ہونا ثابت ہو جائے تو پھر عقل احکامات کے قبول و رد کا میعار ہرگز نہیں بن سکتی. 
.
نوٹ: گزارش ہے کہ یہاں ملائکہ کے عاقل ہونے یا نہ ہونے کی بحث کو نہ اٹھایا جائے. یہ ایک جدا موضوع ہے جو تفصیل کا متقاضی ہے
.
====عظیم نامہ====

Friday, 19 February 2016

سب سے پہلے اے دوست




سب سے پہلے اے دوست ۔۔۔

۔
سوچو کہ سوچتے کیسے ہیں ؟
تحقیق کرو کہ تحقیق کیسے کرتے ہیں ؟
سیکھو کہ سیکھتے کیسے ہیں ؟

مذہبی دانشور اور گناہوں کی تشہیر



مذہبی دانشور اور گناہوں کی تشہیر 



مجھے شدید حیرت ہوتی ہے کہ دینی علم اور رجحان رکھنے والے احباب اپنی فیس بک وال سے فحش ویڈیوز یا تصاویر شیئر کیسے کرلیتے ہیں ؟

. 
کیا وہ نہیں جانتے کہ دعوت، مزاح یا کسی بھی اور وجہ کو بنیاد بناکر کسی عریاں یا نیم عریاں پوسٹ کی تشہیر دین میں شدید ممنوع ہے ؟
.
کیا وہ واقف نہیں کہ جب وہ دینی علوم پر روز تبصرہ فرماتے ہیں تو لوگ ان کے ہر عمل کو دین کے مبلغ کا فعل سمجھتے ہیں ؟
.
کیا انہیں علم نہیں کہ خدا گناہ چھپانے والے کے گناہ معاف کرتا ہے مگر اس کی تشہیر کرنے والے کو کبھی معاف نہیں کرتا ؟
.
کیا وہ واقعی اتنے ناسمجھ ہیں کہ یہ نہیں سمجھ پاتے کہ انکی کسی ایسی پوسٹ کو دیکھنے والا ہر شخص ان کے گناہ کو مزید سنگین بنا دیتا ہے ؟
.
کیا وو فی الواقع نہیں دیکھ پاتے کہ جیسے اچھی بات کا پھیلانا صدقہ جاریہ ہے ویسے ہی گناہ کو سوشل میڈیا جیسی جگہ پر پھیلانا گناہ جاریہ ہے ؟ جو ممکن ہے انکے مرنے کے بعد بھی جاری رہے ؟
.
الله کے بندوں ! میں خود کوئی پارسا نہیں بلکہ تم سے کہیں زیادہ گنہگار ہوں مگر اتنی عقل مجھ عاصی کو بھی ہے کہ مذاق یا چٹخارے کیلئے کسی گناہ کی یوں ترویج کرنا کبیرہ گناہ ہے، جرم ہے، سرکشی ہے. یہ کیا معاملہ ہے کہ ایک جانب تم صبح شام دین کی اور نیکی کی باتیں کرو اور دوسری جانب گناہوں کی تشہیر کرکے لایکس اور کمنٹس سمیٹو .. یا پھر تمہارے لئے دین پر بات کرنا ایسا ہی ہے جیسے کرکٹ یا سیاست پر بات کرلینا ؟ .. میرے تلخ لہجے کو معاف کرنا اور اس پیغام کو سمجھنا جو راقم کا مطلوب ہے.
.
====عظیم نامہ====

انکساری کا ڈھونگ ؟


انکساری کا ڈھونگ ؟


علم نے اگر مجھ میں انکسار پیدا نہ کیا تو پھر کچھ بھی نہیں کیا. انکساری الفاظ سے پیدا کی نہیں جاتی بلکہ یہ خود شناسی سے پیدا ہوجاتی ہے. بعض احباب انکساری کا اظہار بھی اس رعونت سے کرتے ہیں کہ مخاطبین پر تحقیر کا گھڑوں پانی پڑجاتا ہے. پھر کچھ رفقاء ایسے بھی ہے جن کا لفظی چناؤ تو فی الواقع انکسار سے سجا ہوتا ہے مگر عمل اس کے یکسر برعکس ہوا کرتا ہے. یعنی وہ ایسے خوبصورت جملوں کا تو کثرت سے استعمال کرتے ہیں جیسے 'مجھ احقر کی کیا مجال؟' ... یا 'ذرہ نوازی پر ممنون ہوں' ... یا 'قبلہ میں تو معمولی طالبعلم ہوں' ... یا پھر 'مجھ فقیر پرتقصیر کی عاجزانہ رائے تو یہ ہے' وغیرہ
.
اب ظاہر ہے کہ اصولی طور پر ایسا طرز تخاطب کسی منکسر المزاج انسان کا ہی ممکن ہے. مگر المیہ یہ ہے کہ ایسے کئی اشخاص نظر سے گزرے جو الفاظ میں تو ایسے ہی شیریں ہیں مگر کردار میں بلا کے متشدد ہیں. اپنی 'میں' کے سامنے وہ کسی بھی دلیل یا شخصیت کو روند ڈالتے ہیں. حقیقی انکسار الفاظ تک محدود نہیں رہتا بلکہ آگے بڑھ کر متکلم کا کردار بن جاتا ہے. پھر کہنے کی بھی احتیاج نہیں رہتی بلکہ لوگ خود اسکی گواہی سرعام دیتے ہیں. فقط الفاظ کے الٹ پھیر سے اور محض انکساری کی نقاب پہن کر ہم کچھ مخاطبین کو وقتی طور پر متاثر تو کرسکتے ہیں مگر اپنے رب سے باطن چھپا نہیں سکتے.
.
====عظیم نامہ=====

Monday, 15 February 2016

بانو قدسیہ


بانو قدسیہ



ایک دانشور نے محفل میں بانو قدسیہ صاحبہ سے اپنا احساس ظاہر کرتے ہوئے کچھ یوں سوال کیا کہ 
.
' عام طور پر جب میاں بیوی ایک زمانے تک ساتھ رہتے رہیں تو شوہر کی اپنی شخصیت بیوی سے متاثر ہو کر مٹنے لگتی ہے مگر آپ کے کیس میں اس کے بلکل برعکس ہے. اشفاق احمد صاحب کی شخصیت نے تو کوئی خاص اثر قبول نہیں کیا مگر آپ کی اپنی شخصیت اور افکار ان کے زیر اثر نظر آنے لگے. اس کی کیا وجہ ہے ؟ .. کہیں اشفاق صاحب ہلاکو خان کی طرح جابر تو نہیں جو سب مٹا دیں؟ '
.
سامعین نے قہقہے بلند کئے. پھر بانو قدسیہ صاحبہ نے ٹہرے ہوئے لہجے میں کہا کہ 
.
نہیں اگر معاملہ ہلاکو جیسے جبر کا ہوتا تو کوئی مسلہ نہ تھا مگر وہ انسان جو پہلے ہی مٹا مٹا سا ہو ، اسے آپ مٹا نہیں سکتے
.
(ایک انٹرویو سے ماخوز مفہوم)

چارلی چیپلن


چارلی چیپلن



کہتے ہیں کہ بہت سالوں پہلے برطانیہ کے ایک معروف نفسیاتی امراض کے ڈاکٹر کے پاس ایک مریض آیا اور اس نے بہت دکھ سے پوچھا کہ مجھے کوئی حل بتائیں ، میں ذہنی طور پر بہت بے سکون رہتا ہوں. نفسیاتی ڈاکٹر نے کچھ دیر سوچا اور پھر مشورہ دیا کہ آپ سکون اور خوشی کیلئے مشہور مزاحیہ پروگرام چارلی چیپلن شو دیکھا کریں. 
.
مریض ایک لمحہ توقف کے بعد شدید تذبذب سے بولا ...... ' لیکن .... لیکن ... لیکن ڈاکٹر صاحب .... میں ہی تو چارلی چیپلن ہوں
. 
بہت سے دانشور اس واقعہ کو چارلی کی زندگی سے منسوب کرکے بیان کرتے ہیں. اس کی روایتی صداقت کس قدر ہے ؟ یہ میں نہیں جانتا مگر اس کی معنوی صداقت میں مجھے ذرا بھی ابہام نہیں. سکون کا حصول ہنسنے ہنسانے، محفل سجانے سے ممکن نہیں بلکہ یہ تو قلب و فکر کی یکجائی کا نام ہے.
.
====عظیم نامہ====

" نور" یا " نار"


" نور" یا " نار"



مومن کو یہ خوب سمجھ لینا چاہیئے کہ ہم سے سرزد ہوا ہر شعوری عمل یا تو " نور" بن جاتا ہے یا " نار" میں تبدیل ہوجاتا ہے. تیسری کوئی صورت نہیں. یہی وہ نور ہے جو قران مجید کے بقول مومنین کے آگے یا دائیں جانب دوڑتا ہوگا اور یہی وہ نار ہے جس میں سرکش داخل کئے جائیں گے. 
.
ایک فرضی حکایت ہے کہ کسی نیک آدمی نے بہت رو رو کر دعا کی کہ اسے جہنم کا مشاہدہ کروایا جائے تاکہ وہ پھر کبھی گناہ نہ کرے. اس نے خواب میں دیکھا کہ کچھ فرشتے اس کے پاس آئے اور اسے ساتھ ایک بڑے سے دروازے کے پاس لے گئے. اس شخص نے فرشتوں سے پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ جہنم کا دروازہ ہے. اسے کھولو اور اندر جاکر جہنم دیکھ لو. وہ شخص گھبرا کر پیچھے ہٹا اور بولا کہ نہیں نہیں میں ایسا نہیں کرسکتا .. اندر جاکر تو میں جہنم کے شعلوں سے جل جاؤں گا. فرشتے نے تسلی دی اور کہا گھبراؤ نہیں ، تمھیں کچھ نہیں ہوگا. اس نے ہمت کر کر دروازہ کھولا اور اندر قدم رکھ دیا. کیا دیکھتا ہے کہ ایک لق و دق میدان ہے جہاں بہت زیادہ سردی ہے. 
.
وہ شخص نہایت حیرت اور سردی سے کانپتے ہوئے بولا کہ 'اگر یہ جہنم ہے تو اس کی آگ کہاں ہے ؟ ' .. 
فرشتے نے جواب دیا .. 'یہاں جو لوگ آتے ہیں وہ اپنی آگ اپنے ساتھ لاتے ہیں'
.
(دھیان رہے کہ یہ محض ایک اصلاحی حکایت ہے ، اس سے کوئی دینی حکم اخذ کرنا درست نہیں)
.
====عظیم نامہ====

Friday, 12 February 2016

آنسو کبھی ختم نہیں ہوتے


آنسو کبھی ختم نہیں ہوتے




آنسو کبھی ختم نہیں ہوتے۔ بس اپنی وجہ بدل لیتے ہیں۔ آنسووں کو معیوب نہ سمجھو، نہ ہی آنسو کو سکون کے منافی جانو۔ آنسو انسان کے حساس ہونے کی دلیل ہیں اور یہی حساسیت انسانیت کی شناخت ہے۔ آنسو سے ماوراء وجود یا تو مشین کہلاسکتا ہے یا پھر لاش۔

۔
====عظیم نامہ=====

Thursday, 11 February 2016

کیا آپ واقعی نیک ہیں؟


کیا آپ واقعی نیک ہیں؟



اگر واقعی نیک ہو تو اپنی نیکیوں کو ایسے چھپاؤ جیسے اپنے گناہ چھپاتے ہو. اگر ترغیب دینا ناگزیر نہ ہو تو مقبول ترین نیکی وہی ہے کہ جس کی واحد گواہ رب کی ذات ہو
.
====عظیم نامہ====

لاحاصل گفتگو


لاحاصل گفتگو 



مکالمہ کا اسلوب شائستہ اور الفاظ کا انتخاب مہذب نہ ہو تو بات اکثر مثبت نتیجہ سے محروم رہتی ہے۔ عقلمند کیلئے لازم ہے کہ وہ علمی مکالمہ کو کج بحثی میں تبدیل نہ ہونے دے اور اگر پھر بھی ایسی نوبت آجائے تو احسن طریق سے کنارہ کشی اختیار کرے۔ یاد رکھیئے ، بحث و جدال کی کثرت متکلم اور مخاطب دونوں کی ارواح کو تعفن زدہ بنادیتی ہے۔ 
۔
====عظیم نامہ====

توازن


توازن 



برداشت اچھی صفت ہے ۔ اگر وہ بےغیرتی نہ بن جائے
۔
صلح پسندی بہترین طریق ہے ۔ اگر وہ بزدلی میں تبدیل نہ ہو
۔
مصلحت سے کام لینا احسن ہے ۔ اگر وہ حق پوشی کا قالب اختیار نہ کرے


====عظیم نامہ====

شہاب نامہ


شہاب نامہ



شہاب نامہ - ایک ایسی کتاب کہ جسے پڑھنے کا مشورہ مجھے بہت سے احباب نے دیا. آج میں ان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انکی دی گئی ترغیب کی وجہ سے میں نے حال ہی میں اس کا مطالعہ مکمل کر لیا. یہ واقعی ایک ایسی کتاب ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے. قریب قریب ساڑھے آٹھ سو صفحات پر مشتمل اس کتاب میں تحریک پاکستان، ہندوستان سے علیحدگی کی وجوہات، سکھوں ، انگریزوں اور ہندؤں کی چالبازیاں ، پس پردہ سامراجی حقیقتیں ، پاکستان کے نمایاں ترین سیاستدانوں کا اصل چہرہ، انسانی نفسیات، مذہب، روحانی وارداتیں اور بہت بہت کچھ موجود ہے. قدرت الله شہاب کی یہ آپ بیتی قاری کو اپنے سحر میں جکڑے رکھتی ہے. وہ اتفاق اختلاف کرتا ہے مگر کتاب بند نہیں کر پاتا. شہاب صاحب کی حیران کن حد تک صاف گوئی پڑھ کر یہ بات سمجھ آنے لگتی ہے کہ ممتاز مفتی کیوں انہیں اپنا مرشد بنائے بیٹھے تھے. ابن انشاء ، اشفاق احمد ، بانو قدسیہ اور واصف صاحب کیوں انہیں اپنے حلقہ احباب میں ممتاز رکھتے تھے. مجھے اعتراف ہے کہ کتاب پڑھتے ہوئے دو مقامات ایسے آئے جہاں میں اپنے آنسو نہیں روک پایا. پہلا ان کا سفر حج اور دوسرا ان کی بیوی عفت شہاب کی وفات .. الفاظ قلم سے نکلتے ہیں اور قاری کے سینے میں پیوست ہوجاتے ہیں. روحانی معاملات اور حاضرات روح سے متعلق ان کے تجربے بہت سے سوالات کھڑے کردیتے ہیں. جو اب ان کی وفات کے بعد شاید تشنہ ہی رہیں گے. بہرکیف میرا آپ سب کو مشورہ ہے کہ اگر کتب پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں تو امید ہے کہ شہاب نامہ پڑھنا آپ کو سوچ کے نئے زاویے فراہم کرے گا. الله پاک قدرت الله شہاب اور عفت شہاب دونوں کو جنت 
کے اونچے درجات عطا فرمائے آمین

====عظیم نامہ====

غیر مسلموں سے جزیہ



غیر مسلموں سے جزیہ




قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰي يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَّدٍ وَّهُمْ صٰغِرُوْنَ 
ترجمہ :(اور) اہل کتاب میں سے ان لوگوں کے ساتھ جنگ کرو جو نہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں نہ آخرت کے دن پر، نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول نے ان پر حرام کی ہیں اور نہ ہی دین حق کو اپنا دین بناتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں اور چھوٹے بن کر رہنا گوارا کر لیں (سورہ التوبہ :29)

غیرمسلموں سے جزیہ :۔ اس آیت میں صرف اہل کتاب سے جزیہ لینے کا ذکر ہے جبکہ رسول اللہ نے مجوس سے بھی جزیہ لیا تھا۔ جس سے معلوم ہوا کہ ہر مذہب کے غیر مسلموں سے جزیہ لیا جا سکتا ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث میں بھی کسریٰ شاہ ایران سے جزیہ کے مطالبہ کا ذکر ہے اور ظاہر ہے کہ یہ لوگ سورج پرست اور آتش پرست تھے۔
خ مغیرہ بن شعبہ کا کسریٰ کے سپہ سالاروں کو خطاب :۔ سیدنا مغیرہ بن شعبہ نے کسی جنگ کے موقع پر کسریٰ کے سپہ سالار سے فرمایا : ہم عرب لوگ سخت بدبختی اور شدید مصیبت میں مبتلا تھے۔ بھوک کی وجہ سے چمڑے اور کھجور کی گٹھلیاں چوسا کرتے اور چمڑے اور بالوں کی پوشاک پہنتے تھے۔ درختوں اور پتھروں کی پوجا کرتے تھے۔ پھر زمین و آسمان کے مالک عزوجل نے ہماری طرف ہم میں سے ہی ایک نبی مبعوث کیا جس کے والدین سے ہم اچھی طرح واقف تھے۔ ہمارے نبی ہمارے پروردگار کے رسول نے ہمیں حکم دیا کہ تم سے جنگ کریں تاآنکہ تم اللہ اکیلے کی عبادت کرو یا پھر جزیہ ادا کرو۔ ہمارے نبی نے ہمیں پروردگار کا یہ پیغام بھی پہنچایا کہ جو شخص ہم میں سے قتل ہوگا وہ جنت کی ایسی نعمتوں میں رہے گا جو کسی نے دیکھی بھی نہیں۔ اور جو بچ گیا وہ تمہاری گردنوں کا مالک ہوگا۔'' (بخاری۔ کتاب الجہاد۔ باب الجزیۃ الموادعۃ مع اہل الذمۃ والحرب)
جزیہ ان غیر مسلم اقوام سے لیا جاتا ہے جو اسلام قبول نہ کرنا چاہتے ہوں۔ خواہ یہ مسلمانوں کی مفتوحہ قوم ہو۔ یا کسی اسلامی ریاست میں بطور ذمی رہتی ہو جسے آج کی زبان میں اقلیت کہا جاتا ہے۔ مسلمانوں پر زکوٰۃ کی ادائیگی فرض ہے جس کی شرح مقرر ہے لیکن غیر مسلم قوم پر زکوٰۃ کے بجائے جزیہ کی ادائیگی لازم ہوتی ہے اور اس کی شرح میں اس قوم کی مالی حیثیت کے مطابق کمی بیشی کی جاسکتی ہے اور یہ سب رقوم سرکاری بیت المال میں جمع ہوتی ہے۔ اسلامی حکومت اس جزیہ کے عوض اس قوم کو دفاعی ذمہ داریوں سے سبکدوش کردیتی ہے۔ اور انہیں اپنے مذہبی افعال کی ادائیگی کی پوری اجازت دی جاتی ہے مگر اس بات کی اجازت نہیں دی جاتی کہ وہ اسلام پر کیچڑ اچھالیں یا اس کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کریں۔ اور اگر کسی وقت مسلمان غیر مسلموں پر سے دفاعی ذمہ داریوں کو پورا نہ کرسکیں تو انہیں جزیہ کی رقم واپس دینا ہوگی اور مسلمانوں کی تاریخ میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ چنانچہ شام کی فتوحات کے سلسلہ میں بعض جنگی مقاصد کے پیش نظر اسلامی سپہ سالار سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح کو جب حمص سے واپس جانا پڑا تو آپ نے ذمیوں کو بلا کر کہا کہ ''ہمیں تم سے جو تعلق تھا وہ اب بھی ہے لیکن اب چونکہ ہم تمہاری حفاظت سے قاصر ہیں لہذا تمہارا جزیہ تمہیں واپس کیا جاتا ہے۔'' چنانچہ کئی لاکھ کی وصول شدہ رقم انہیں واپس کردی گئی۔ عیسائیوں پر اس واقعہ کا اتنا اثر ہوا کہ روتے جاتے تھے اور جوش کے ساتھ کہتے جاتے تھے کہ اللہ تمہیں واپس لائے۔'' یہودیوں پر اس سے بھی زیادہ اثر ہوا۔ انہوں نے تورات کی قسم کھا کر کہا کہ جب تک ہم زندہ ہیں قیصر حمص پر قبضہ نہیں کرسکتا۔ یہ کہہ کر شہر پناہ کے دروازے بند کرلیے اور ہر جگہ چوکی پہرہ بٹھا دیا۔ (الفاروق۔ شبلی نعمانی ١٩١)
عرب کی ہمسایہ اور متمدن حکومت ایران میں دو قسم کے ٹیکسوں کا رواج تھا ایک زمین کا لگان جو صرف زمینداروں سے لیا جاتا تھا اور اسے یہ لوگ خراگ کہتے تھے۔ خراج کا لفظ اسی سے معرّب ہے۔ دوسرا ٹیکس عام لوگوں سے دفاعی ضروریات کے پیش نظر لیا جاتا تھا۔ جسے یہ لوگ گزیت کہتے تھے۔ جزیہ کا لفظ اسی سے معرب ہے مسلمانوں نے جب یہ علاقے فتح کیے تو انہوں نے مفتوح اقوام پر کوئی نیا بار نہیں ڈالا بلکہ وہی دونوں قسم کے ٹیکس ان پر عائد کیے گئے جو شاہ ایران اپنی رعایا سے وصول کرتا تھا۔ جبکہ جنگ کے موقعہ پر جزیہ کے علاوہ شاہ ایران کی طرف سے عوام سے جبری ٹیکس بھی وصول کیے جاتے تھے۔
خ جزیہ اور اس کے متعلقہ احکام :۔ جزیہ کو چونکہ مستشرقین اور اقوام مغرب نے خاصا بدنام کر رکھا ہے لہذا اس کے متعلق چند تصریحات ضروری معلوم ہوتی ہیں :۔
١۔ جزیہ صرف ان افراد پر عائد کیا جاتا ہے جو لڑنے کے قابل ہوں۔ غیر مقاتل افراد مثلاً بچے، بوڑھے، عورتیں معذور لوگ، صوفی اور گوشہ نشین قسم کے حضرات اس سے مستثنیٰ ہوتے ہیں۔ جزیہ ادا کرنے کے بعد یہ لوگ دفاعی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوجاتے ہیں اور رسول اللہ نے ایسے لوگوں (جنہیں عرف عام میں اہل الذمہ یا ذمی کہتے ہیں) کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی سخت تاکید فرمائی ہے۔
٢۔ جزیہ ان لوگوں کی مالی حالت کا لحاظ رکھ کر عائد کیا جاتا ہے چنانچہ سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ ''میں نے مجاہد سے پوچھا کہ شام کے کافروں سے تو سالانہ چار دینار لیے جاتے ہیں اور یمن کے کافروں سے صرف ایک دینار لیا جاتا ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ انہوں نے کہا کہ اس لیے کہ شام کے کافر زیادہ مالدار ہیں۔'' (بخاری۔ کتاب الجہاد۔ باب الجزیۃ الموادعۃ)
٣۔ جزیہ کی وصولی میں انتہائی نرمی اختیار کی جاتی تھی اور سیدنا عمر کو اس سلسلہ میں دو باتوں کا بہت زیادہ خیال رہتا تھا۔ ایک یہ کہ جزیہ کی شرح ایسی ہو جسے لوگ آسانی سے ادا کرسکیں۔ چنانچہ آپ نے عراق کی مفتوحہ زمینوں پر خراج کے تعیین کے لیے سیدنا حذیفہ بن یمان اور سیدنا عثمان بن حنیف (رض) جیسے اکابر صحابہ کو مقرر کیا جو اس فن کے ماہر تھے جب ان بزرگوں نے یہ حساب پیش کیا تو آپ نے ان دونوں کو بلا کر کہا کہ تم لوگوں نے تشخیص جمع میں سختی تو نہیں کی؟ سیدنا عثمان بن حنیف (رض) نے کہا نہیں۔ بلکہ وہ اس سے دگنا بھی ادا کرسکتے تھے۔ (کتاب الخراج ص ٢١) اور دوسری یہ کہ ہر سال جب عراق کا خراج آتا تو دس معتمد اشخاص کوفہ سے اور اتنے ہی بصرہ سے طلب کیے جاتے۔ سیدنا عمر ان کو چار دفعہ شرعی قسم دلا کر پوچھتے کہ رقم کی وصولی میں کسی شخص پر ظلم یا زیادتی تو نہیں کی گئی (الفاروق ص ٣٢٦)
٤۔ جزیہ چونکہ دفاعی ذمہ داریوں کے عوض لیا جاتا ہے لہذا جو لوگ ایسی خدمات خود قبول کرتے ان سے جزیہ نہیں لیا جاتا تھا۔ مثلاً
ا۔ طبرستان کے ضلعی شہر جرجان کے رئیس مرزبان نے مسلمانوں کے سالار سوید سے صلح کی اور صلحنامہ میں بتصریح لکھا گیا کہ مسلمان جرجان اور طبرستان وغیرہ کے امن کے ذمہ دار ہیں اور ملک والوں میں سے جو لوگ بیرونی حملوں کو روکنے میں مسلمانوں کا ساتھ دیں گے وہ جزیہ سے بری ہیں۔ (الفاروق ص ٢٣٩)
ب۔ آذر بائی جان کی فتح کے بعد باب متصل کا رئیس شہر براز خود مسلمانوں کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میں تمہارا مطیع ہوں لیکن میری درخواست یہ ہے کہ مجھ سے جزیہ نہ لیا جائے بلکہ جب ضرورت پیش آئے تو فوجی امداد لی جائے۔ چنانچہ اس کی یہ شرط منظور کرلی گئی۔ (الفاروق ص ٢٤٣)
ج۔ عمر و بن عاص نے جب فسطاط فتح کیا تو مقوقس والی مصر نے جزیہ کی بجائے یہ شرط منظور کی کہ اسلامی فوج جدھر رخ کرے گی، سفر کی خدمت (یعنی راستہ صاف کرنا۔ سڑک بنانا۔ پل باندھنا وغیرہ) مصری سر انجام دیں گے۔ چنانچہ عمرو بن عاص جب رومیوں کے مقابلہ کے لیے اسکندریہ کی طرف بڑھے تو مصری خود منزل بمنزل پل باندھتے، سڑک بناتے اور بازار لگاتے گئے۔ علامہ مقریزی نے لکھا ہے کہ چونکہ مسلمانوں کے سلوک نے تمام ملک کو گرویدہ بنا لیا تھا اس لیے قبطی خود بڑی خوشی سے یہ خدمات سر انجام دیتے تھے (الفاروق ص ١٩٤)
خ جزیہ پر اعتراض اور اس کا جواب :۔ اب ان متمدن اور مہذب مغربی اقوام کا حال بھی سن لیجئے۔ وہ جزیہ کو بدنام کرنے اور اسے ذلت کی نشانی ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ یہ لوگ فتح کے بعد مفتوح قوم سے اپنا سارا جنگ کا خرچہ بطور تاوان جنگ وصول کرتے ہیں۔ پچھلی چند صدیوں میں تو تاوان جنگ کے علاوہ سیاسی اور اقتصادی غلامی پر بھی مفتوح اقوام کو مجبور کیا جاتا رہا۔ البتہ دسری جنگ عظیم کے بعد سیاسی غلامی کو متروک قرار دے کر اس کے بدلے اقتصادی غلامی کے بندھن مضبوط تر کردیئے ہیں ان کے زرخیز ترین علاقہ پر ایک طویل مدت کے لیے قبضہ کرلیا جاتا ہے اور اس معاملہ میں انتہائی سختی سے کام لیا جاتا ہے تاکہ مفتوح قوم میں بعد میں اٹھنے کی سکت ہی باقی نہ رہ جائے۔ اسلام نے جزیہ کی ایسی نرم شرائط سے ادائیگی کے بعد نہ تاوان جنگ عائد کرنے کی اجازت دی ہے اور نہ ہی کسی طرح کی اقتصادی غلامی کی۔
مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ 
تفسیر تیسیر القرآن

Wednesday, 10 February 2016

انسان کا زاویہ نظر



انسان کا زاویہ نظر



.
سارا معاملہ انسان کے اپنے زاویہ نظر کا ہے جو ایک ہی حقیقت میں کسی کو خیر اور کسی کو شر کے پہلو دکھاتا ہے. میرے ایک عزیز نہایت کامیاب کاروباری انسان ہیں. ساری دنیا میں ان کا کاروبار پھیلا ہوا ہے اور خود ان کے الفاظ میں ان کے پاس اتنا مال ہے کہ شائد سات پشتیں بیٹھ کر کھا سکیں. مشینیں بنانے سے لے کر ہوٹلوں تک اور پراپرٹی سے لے کر چاول اچار کی تجارت تک ان کے کاروبار موجود ہیں. میں نے ان کی غیر معمولی کاروباری ذہانت سے بہت کچھ سیکھا ہے. ایک بار میں نے ان سے حیرت سے دریافت کیا کہ وہ مختلف ممالک میں اتنے سارے کاروباروں کو ایک ساتھ کیسے سنبھال لیتے ہیں؟ انہیں سنبھالنے کیلئے اتنے قابل بھروسہ لوگ کیسے میسر آتے ہیں؟ .. انہوں نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سمجھآیا کہ "عظیم اس دنیا میں زیادہ تر لوگ وہ ہیں جن پر تم اعتبار کرسکتے ہو. اچھے لوگ تعداد میں بہت زیادہ ہیں اور برے لوگ بہت ہی کم. میں صرف نظام بناتا ہوں اور پھر اس نظام کو کسی بھلے آدمی کے حوالے کرکے واپس پاکستان چلا جاتا ہوں" .میرے لئے ان کی یہ بات کسی بجلی کے جھٹکے سے کم نہ تھی. میں نے تو ہمیشہ یہی سنا تھا کہ یہ دنیا بہت بری ہے اور یہاں کسی قابل اعتماد انسان کو ڈھونڈھنا قریب قریب ناممکن ہے. مگر آج مجھے یہ کامیاب ترین پاکستانی بزنس مین اپنی لندن کی پانچ ملین پاونڈ کی پراپرٹی میں بیٹھا یہ بتا رہا تھا کہ دنیا میں ایماندار لوگ تلاش کرنا بہت آسان ہے اور  ایمان لوگ ڈھونڈھنا خاصہ مشکل ہے  
.
میں نہیں کہہ سکتا کہ اس وقت مجھے ان کے اس انوکھے دعویٰ پر اطمینان ہوسکا. مگر آج زندگی کے تجرباتی تجزیئے کے بعد یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ اپنے اس دعویٰ میں سچے تھے. یہ درست ہے کہ بشر سے شر کو جدا نہیں کیا جاسکتا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ مجموعی انسانی فطرت اپنے تمام تر کھوٹ کے باوجود نیکی کے غالب داعیات رکھتی ہے. شرط بس اتنی ہے کہ ہمیں انسانوں میں انسان ڈھونڈھنے ہیں. انسانوں میں فرشتے ڈھونڈھنے والے خالی ہاتھ ہی رہ جاتے ہیں. کمال یہ نہیں ہے کہ ہم اس دنیا میں کامل انسانوں کو کھوج نکالیں بلکہ کمال یہ ہے کہ ہم نامکمل انسانوں سے کامل استفادہ کی صورت پیدا کریں 
.
تیری دعا سے قضا تو بدل نہیں سکتی 
مگر ہے اس سے یہ ممکن کہ تو بدل جائے !
.
تیری خودی میں اگر انقلاب ہو پیدا 
عجب نہیں کہ یہ چار سو بدل جائے !
.
====عظیم نامہ====

Tuesday, 9 February 2016

میرے دوست


 میرے دوست 


.

لوگ کبھی طنز اورکبھی تاسف سے اکثر ایسے جملے کہا کرتے ہیں کہ .. 'اس دنیا میں کوئی ایک سچا مسلمان یا مومن دکھا دو ؟ ہماری تو ساری زندگی ہمیں ایسا کوئی نہ مل سکا' .. معلوم نہیں کہ وہ یہ بات کسی فیشن کے تحت کہتے ہیں یا فی الواقع وہ ایسے بدنصیب ہیں کہ آج تک کسی ایسے انسان سے نہ مل سکے جو سچے مسلم و مومن کے معیار پر پورا اتر سکے؟ یا پھر ان کی بدگمانی انہیں کسی مسلم کی خوبیوں کو دیکھنے سے محروم رکھتی ہے ؟ ... الله و اعلم اصل ماجرا کیا ہے ؟ .. میں تو بذات خود پوری دیانتداری سے یہ احساس رکھتا ہوں کہ میرے حلقہ احباب میں ایک دو نہیں بلکہ درجنوں ایسے نفوس موجود ہیں جو ایمان و عمل کا پیکر ہیں ... ایسے لوگ کہ جنہوں نے اپنی زندگی کو حتی الامکان دین کے تابع کررکھا ہے .. جن سے مل کر ، جنہیں دیکھ کر، جن سے بات کرکے رب یاد آجاتا ہے .. ایسے مسلم کہ جن کی عبادات خوب ہیں اور معاملات خوب تر ہیں .. خامی اور کمی تو ہر بشر میں ہوتی ہے .. مگر میرے یہ دوست گناہ سے بچتے ہیں، گناہ ہو جائے تو اس پر اصرار نہیں کرتے ، الله کی بارگاہ میں آنسوؤں سے توبہ کرنا جانتے ہیں .. میرا گمان تو اپنے اس حلقہ احباب کی جانب اتنا مثبت ہے کہ دل میں خواہش رکھتا ہوں کہ روز آخرت ان ہی کے ساتھ بیدار ہوں .. جیسے اصلی دولت کے انبار میں بعض اوقات کھوٹا سکہ بھی چل جاتا ہے .. کیا معلوم کہ ان دوستوں کے ساتھ جانتے بوجھتے الله پاک میرا بھی بھرم رکھ لیں ؟ .. میرے رب کے لاتعداد احسانوں میں ایک نمایاں ترین احسان مجھ پر یہی ہے کہ مجھے اس دنیا میں ان پاکیزہ نفوس کا ساتھ حاصل ہے. 
.
ان دوستوں میں وہ بھی ہیں جو ہفتہ میں چھ روز ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ قران حکیم کا مل کر مطالعہ کرتے ہیں اور پھر اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں. وہ بھی ہیں جو مل کر ایک فلاحی ادارے کے ذریعے ناداروں کا علاج ، خوراک اور تعلیم کا بندوبست کرتے ہیں. وہ بھی ہیں جو کڑی سردی میں ملک شام، پاکستان اور دیگر ممالک کیلئے بناء کسی معاوضہ کے فوڈ کنٹینرز تیار کرتے ہیں. وہ بھی ہیں جو انگلینڈ میں گھروں سے محروم لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں اور کپڑے پہناتے ہیں. وہ بھی ہیں جو دین کی ترویج کیلئے اصلاحی نشستوں کے اہتمام سے لے کرموبائل سافٹ ویئر تک ہر ممکنہ انداز اپناتے ہیں. وہ بھی ہیں جو فرد کے ساتھ ساتھ نظام کی اصلاح میں بھی جتے ہوئے ہیں. وہ بھی ہیں جو غریبوں کیلئے مفت ڈسپنسری چلا رہے ہیں. وہ نومسلم بھی ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے مجھ جیسے گنہگاروں کیلئے مثال بن گئے. وہ بھی ہیں جو رمضان کے مہینہ میں مغرب سے فجر تک مسجد میں ہی عبادات کرتے رہتے ہیں. وہ بھی ہیں جنہوں نے تفرقہ سے پاک مسجد قائم کی. وہ بھی ہیں جنہوں نے اپنے شب و روز غیر مسلموں تک اسلام کا پیغام پہنچانے میں لگا رکھے ہیں. ایسے ہی ایک قریبی داعی دوست سے، جس کے ہاتھ پر لاتعداد لوگ اسلام قبول کر چکے ہیں. میں نے دریافت کیا کہ بھائی مجھے لگتا ہے کہ تم چوبیس گھنٹے دعوت ہی دے رہے ہوتے ہو، سوتے کب ہو ؟ کماتے کیسے ہو ؟ بیوی بچوں کی ذمہ داری کیسے پوری کرتے ہو ؟ .. اس نے مسکرا کر مجھے سمجھایا کہ اگر نیت میں اخلاص ہو تو الله پاک وقت میں برکت پیدا فرمادیتے ہیں. اس نے بتایا کہ اس کے بیوی بچے اس سے مکمل طور پر خوش ہیں اور وہ ان کے ساتھ وقت گزارتا ہے. اس نے بتایا کہ وہ اس وقت چار مختلف کاروبار بھی سنبھالتا ہے جس میں اس نے بہت سے ملازم رکھ رکھے ہیں. میری حیرت دیکھ کر اس نے مجھے اپنے دن کا پورا روٹین سمجھایا مگر میری عقل آج بھی حیران ہے کہ کوئی انسان کیسے اپنا ایک ایک لمحہ بنا تھکے وقف کرسکتا ہے؟
.
میں ایسے سات آٹھ قریبی دوستوں کو جانتا ہوں جو انگلینڈ سے مختلف اسلامی ممالک صرف اسلئے ہجرت کرگئے کہ دین سے قریب ہو سکیں. دنیا پرستوں کے لئے یہ خیال بھی مضحکہ خیز ہے کہ کوئی انگلینڈ میں کامیاب جاب اور پرسکون زندگی ہونے کے باوجود کسی ترقی پذیر ملک کی تکلیف زدہ زندگی کیسے قبول کرسکتا ہے؟. کچھ روز قبل ایک قریبی دوست کا پریشانی میں فون آیا. کہنے لگا کہ عظیم میں نے اپنی کمپنی کیلئے دن رات جاگ کے بناء کسی معاوضہ کے ایک سافٹ ویئر بنایا تھا. اب وہ میری کمپنی کو پسند آیا تو وہ مجھے شریک کئے بناء اسے دوسرے اداروں کو فروخت کرنا چاہتے ہیں. میرے پاس موقع ہے کہ میں اپنا بنایا ہوا یہ سافٹ ویئرجس میں راتیں کالی کی ، قانونی طور پر خود بیچ دوں اور معاوضہ میں کروڑوں کما لوں. مجھے بتاؤ کہ کیا میں ایسا کر سکتا ہوں ؟ میں نے پوچھا کہ کیا چیز تمھیں امیر ہونے سے روک رہی ہے ؟ .. کہنے لگا کہ یہ سافٹ ویئربناتے ہوئے میں نے کچھ آفس کا وقت بھی استعمال کیا تھا اور ان کا کمپیوٹر بھی زیر استعمال رہا تھا. میں نے جواب دینے سے عاجزی ظاہر کی اور کہا کہ تم اپنے آپ سے فتویٰ لو. کچھ دیر خاموش ہوا اور پھر اس سافٹ ویئر کو نہ بیچنے کا فیصلہ کرلیا. ذرا بتایئے کہ اسلام اور ایمان کے علاوہ وہ کون سی طاقت ہے جو کسی میں اتنی ہمت پیدا کردے کہ وہ گھر آئے کروڑوں روپوں کو لات مار سکے ؟ ایسے نامعلوم کتنے ہی سچے قصے میرے حافظہ کا حصہ ہیں جنہیں سوچ کر رشک بھی آتا ہے اور اپنی بے عملی پر کپکپی بھی طاری ہوتی ہے. لوگ ولی اللہ خانقاہوں میں ڈھونڈھتے ہیں ، جب کے وہ ہمارے اردگرد ہمارے پیاروں کے بیچ موجود ہوتے ہیں. بس دیکھنے والی نظر چاہیئے.
.
====عظیم نامہ====

Friday, 5 February 2016

انسان کی تخلیقاتی نفسیات کے پس پردہ محرکات






انسان کی تخلیقاتی نفسیات کے پس پردہ محرکات



انسانی شعورکی تاریخ اور فہم و فکر کو کسی خاص فارمولے میں لپیٹ کر پیش 
کردینا ممکن نہیں ہے. مگر جس طرح انسانی نفسیات کے دیگر خارجی حقائق تک ہم باطنی سفر کے ذریعے پہنچتے ہیں، جس طرح ہم کئی بار غیب سے حاضر کو پالیتے ہیں، نامعلوم سے نامعلوم کا استنباط کرلیتے ہیں اور مفروضہ سے حقیقت کو کھوج نکالتے ہیں ویسے ہی انسان کی اجتماعی نفسیات کا باریکی سے  جائزہ لینے پر ہمیں ایک مربوط فکری نظام اپنی خاص ترتیب کے ساتھ جلوہ گر نظر آتا ہے. جیسا پہلے عرض کیا کہ کوئی جامد فارمولا اس مد میں نہیں پیش کیا جاسکتا اور اختلاف کی گنجائش ذاتی مشاہدات کی بنیاد پر بہرحال موجود رہے گی. لیکن اس بشری فکر کا مختلف زاویوں سے جائزہ لینا شائد ہمارے شعوری ارتقاء میں معاون ثابت ہو. راقم کی نظر میں انسانی فکر کی کڑیاں اپنے باطن میں کچھ اس انداز سے مربوط و مرتب ہیں
.
نوٹ: درج ذیل نظام فکر کی اصطلاحات کو پہلے اجمال میں درج کیا گیا ہے اور پھر نیچے آسان مثال سے واضح کیا جائے گا  
.
مشاہدہ = خواہش کی تحریک ہے 

خواہش = خیال کی پیدائش ہے 

خیال = تخلیق کا آغاز ہے 

شعور = خیال کا ارتکاز ہے 

ارادہ = خیال کا استحکام ہے 

نیت = خیال کی تجدید ہے 

عمل = خیال کا اظہار ہے 

معلومات = نتائج کا ہجوم ہے 

تجربہ = عمل کا نتیجہ ہے 

علم = معلومات اور تجربہ کا مشترکہ ثمر ہے

اصول = علم و عمل کا حاصل ہے  

کامیابی = علم کا صحیح استمعال ہے 
.
اس مقام پر ممکن ہیں کہ بحیثیت قاری اپ کو تحریر میں ابہام محسوس ہو اور درج بالا بیان نظم سے عاری منتشر و متفرق باتوں کا جم غفیر نظر آئے. مگر احقر کی استدعا ہے کہ ایک بار پھر اطمینان سے ان نکات کا مطالعہ کیجیئے اور پھر نیچے دی گئی مثال سے اسے سمجھنے کی کوشش فرمایئے.
.
ہر تخلیق جو انسانی فکر کا نتیجہ بنی وہ کم و بیش ان ہی مراحل سے باترتیب گزری. اس سفر کی ایک جھلک دیکھیئے 
.
انسان نے ابتدا میں پرندوں کا 'مشاہدہ' کیا 
اس مشاہدے سے پرواز کی 'خواہش' پیدا ہوئی 
خواہش سے 'خیال' نے جنم لیا کہ کیوں نہ میں بھی فضا میں اڑنے کا طریق کھوج لوں ؟
خیال اب ' شعور' کے سامنے مفصل تجزیئے کیلئے پیش ہوا 
شعور کے ارتکاز نے خیال کو استحکام دیا اور اب اسے انجام دینے کا 'ارادہ' وجود میں آگیا 
وقت گزرنے پر خواہش شدت، خیال استقامت اور ارادہ قوی تر ہوتا گیا. 'نیت' کے زریعے تجدید نو ہوتی رہی 
.
اخلاص نیت کی بنیاد پر متعلقہ 'معلومات' کا ذخیرہ جمع ہونے لگا
دستیاب معلومات کی روشنی سابقہ علتوں کے ساتھ مل کر پہلے 'عمل' کا محرک بن گئی  
ابتدائی عملی اقدام یکے با دیگرے ناکام ہوتے رہے مگر ہر ناکامی 'تجربہ' کا روپ دھار کر سیکھ دیتی گئی 
.
یہ تجربہ نسل در نسل منتقل ہوا جو اسے ٹھوس تر بناتا گیا اور معلومات سے 'علم' کی پوشاک میں ملبوس ہوگیا
علم نے فطری قوانین اور سابقہ تجربات کو کسوٹی بناکرممکن ناممکن کو جانا پھر اسی کی ایماء پر 'اصول' وضع کئے 
 بلآخر حاصل کردہ اصولوں کے اطلاق کے ساتھ  مسلسل محنت و تجربات سے گزر کر اس نے پہلا ہوائی جہاز تخلیق کرلیا اور یوں 'کامیابی' سے ہمکنار ہوا  
.
یہ وہ روداد ہے جو معمولی ردوبدل کے ساتھ اکثرانسانی تخلیقات میں پنہاں ہے. کچھ استثنات کو چھوڑ کر تفکر و تخیل کے اس تکلیف دہ سفر میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے 
.
====عظیم نامہ====

حضور ﷺ کی حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے شادی


حضور ﷺ کی  حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے شادی


یہ تحریر میری نہیں بلکہ مولانا شبلی نعمانی کی تصنیف سیرت النبی ﷺ سے ماخوز ہے. جواب اتنا شافی اور درست ہے کہ اسے اپنے بلاگ میں شامل کرلیا



تاریخ طبری اور دوسری کچھ تاریخی کتابوں میں حضور ﷺ کی حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے شادی کے متعلق کچھ روایات آئی ہیں جن کو مستشرقین و ملحدین نے ایک لو سٹوری کی شکل میں پیش کیاجسکا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت زینب کی حضرت زید کے ساتھ شادی کے بعد حضور ﷺ کو زینب اچھی لگنے لگی گئی تھیں اور آپ اسکو چھپاتے تھے ، بالاخر حضرت زید نے زینب کو طلاق دے دیدی اور حضور ﷺ نے زینب سے شادی کرلی ۔ نعوذ بااللہ 
یہ روایات عیسائی مورخیں کا مایہ استناد ہے اور اب انکے شاگرد ملحدین انکے نگلے ہوئے نوالے چبا رہے ہیں۔ ان متعصبین کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ اصول فن کے لحاظ سے روایت کس پایہ کی ہے۔ اسکا راوی کون ہے، اسکے بارے میں اسم و رجال کی کتابوں میں کیا کیسی گوائیاں نقل کی گئی ہیں۔انکو بس اعتراض کا موقع چاہیے، کسی روایت سے کچھ بھی ثابت کردیں گے ۔

ان راویات کے اکثر راوی ضعیف ہیں اس لیے یہ قابل اعتبار نہیں ، پھر تاریخ سے ذیادہ مستند سورس قرآن اور حدیث میں حضور ﷺ ، حضرت زید اور زینب کے معاملے پر تفصیل موجود ہےاس لیے ان تاریخی روایات کو لینے اور ان پر مزید کسی بحث کی ضرورت نہیں رہتی ۔

حضور ﷺ اور زینب کا نکاح – اصل واقعہ قرآن و حدیث کی روشنی میں 

حضور ﷺ نے حضرت زید کو جو کہ آپ کے آزاد کردہ غلام تھے منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا ' جب وہ سن بلوغ کو پہنچے تو آپ نے انکی شادی اپنی پھوپھی زاد حضرت زینب سے کرنا چاہی ۔ حضرت زید چونکہ غلام رہ چکے تھے اس لئے حضرت زینب کو یہ نسبت گوارا نہ تھی۔فتح الباری تفسیر سورۃ الاحزاب بحوالہ ابن ابی حاتم

لیکن بالاخر حضور ﷺ کے ارشاد کی تعمیل میں راضی ہوگئیں اور تقریبا ایک سال تک حضرت زید کے نکاح میں رہیں لیکن دونوں میں رنجش رہتی تھی یہاں تک کہ حضرت زید نے حضور ﷺ کی خدمت میں آکر شکایت کی اور انکو طلاق دینا چاہا۔فتح الباری تفسیر سورۃ الاحزاب بحوالہ روایت عبدالرزاق از معمر از قتادہ

حضرت زید نے حضور ﷺ کی خدمت میں آئے اور عرض کی کہ زینب مجھ سے زبان درازی کرتی ہے میں اسکو طلاق دینا چاہتا ہوں۔ لیکن حضور ﷺ بار بار انکو سمجھاتے کہ طلاق نہ دیں۔ جیسا کہ قرآن میں ہے
وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ۔(سورۃ الاحزاب آیت 37)
ترجمہ :اور جبکہ تم اس شخص سے جس پر اللہ نے اور تم احسان کیا تھا یہ کہتے تھے کہ اپنی بیوی کو نکاح میں لئے رہو اور اللہ سے خوف کرو۔

لیکن پھر بھی نباہ نا ہوسکا اور آخر حضرت زید نے حضرت زینب کو طلاق دے دی۔ حضرت زینب حضور ﷺ کی پھوپھی زاد بہن تھیں اور آپ ہی تربیت میں پلی تھیں اور آپ ﷺ کے ہی فرمانے سے زینب نے اس رشتہ جس کو وہ اپنی شان کے خلاف سمجھتی تھیں' قبول کیا تھا۔ اب وہ عین جوانی میں طلاق یافتہ ہوگئیں تو آپ ﷺ نے انکی دلجوئی کے لیے خود ان سے نکاح کرنا چاہا' لیکن عرب میں اس وقت تک منہ بولا بیٹا اصلی بیٹے کے برابر سمجھا جاتا تھا۔ اس لئے عام لوگوں کے خیال سے آپ ﷺ تامل فرماتے رہے۔ حتی کہ آیت نازل ہوگئی۔
وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَاهُ۔ سورۃ الاحزاب آیت 37
ترجمہ : اور تم اپنے دل میں وہ بات چھپاتے ہو جس کو اللہ ظاہر کردینے والا ہے اور تم لوگوں سے ڈرتے ہو حالانکہ ڈرنا اللہ سے چاہیے۔

غرض آپ ﷺ نے اس آیت کے نزول کے بعد حضرت زینب سے نکاح کرلیا اور جاہلیت کی یہ قدیم رسم کہ متنبی اصلی بیٹے کا حکم رکھتا ہے ' کا خاتمہ ہوگیا۔

یہ اصل واقعہ تھا جس کو چھوڑ کر مستشرقین اور عیسائی مشنریوں نے تاریخی روایات کو لیا اور حضورﷺ کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس نکالی۔ اس واقعہ کی تائید کئی صحیح احادیث سے ہوتی ہے اور ان آیات سے پہلے اور بعد میں آنے والی آیات بھی اسی پس منظر کی گواہی دیتی ہیں ۔جب یہ واقعہ ہوا تو منافقین نے کہنا شروع کیا کہ یہ رسول ایک طرف تو بیٹوں کی بیویوں سے نکاح حرام قرار دیتے ہیں اور دو سری طرف خود اپنی بہو سے نکاح کرتے ہیں، اس پر سورۂ احزاب کی آگے آیت نمبر ۴۰ نازل ہوئی، فرمایا گیا
 محمدﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ؛بلکہ اللہ کے پیغمبر اور نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں ، اللہ ہر چیز سے واقف ہے  سورۂ احزاب ۴۰ 

اب تک زیدؓ عام طور پر زیدؓ بن محمد( ﷺ)کہلاتے تھے، سورۂ احزاب کی آیت نمبر ۵ میں یہ فرمایا:
  اے ایمان والو اپنے منہ بولے بیٹوں کو ان کے حقیقی باپوں کے نام سے پکارا کرو کہ اللہ کے نزدیک انصاف کی بات یہی ہے ، بس اگر تم ان کے باپوں کے نام نہ جانتے ہو تو وہ دین میں تمہارے بھائی اور دوست ہیں اور جوبات تم سے غلط ہوگئی ہو تو اس میں تم پر کچھ گناہ نہیں اور لیکن جو دل کے ارادے سے کرو ( اس سے بازپرس ہوگی ) اور اللہ بخشنے والا (اور) مہربان ہے 
( سورۂ احزاب :۵)

اس حکم کے بعد انہیں اپنے باپ کی نسبت سے زیدؓ بن حارثہ پکارا جانے لگا۔
( سیرت النبی شبلی نعمانی جلد اول )

Tuesday, 2 February 2016

ملحد اور تحقیق



ملحد اور تحقیق




ایک شخص کسی دستاویزی فلم پر نہایت سنجیدہ چہرہ کے ساتھ گھنٹوں کڑی تنقید کرتے ہوئے آپ کو سمجھاتا ہے کہ اس فلم کی ڈائریکشن بہت خراب ہے ، اسکی کہانی بھی دوسری دستاویز سے چرائی گئی ہے ، اس کا پیغام دلیل سے خالی ہے اور اس کے کردار بھی حقیقت سے کوسوں دور ہیں. آپ یہ لمبی تنقید پورے غور اور تحمل سے سنتے ہیں اور اپنی تشفی کیلئے دریافت کرتے ہیں کہ وہ آپ کو بتائے کہ اس نے کتنی بار اس دستاویز کا باریکی سے تجزیہ کیا ہے ؟ یہ سوال سن کر آپ کا مخاطب شان بے نیازی سے منہ بسورتا ہے اور بتاتا ہے کہ اس نے زندگی میں کبھی اس دستاویزی فلم کو شروع سے آخر تک نہیں دیکھا ، نہ ہی کبھی اس پر غور و فکر کیا. البتہ چلتے پھرتے کچھ ٹوٹے پھوٹے کلپ ضرور دیکھ لئے یا کسی دوسرے کا اس پر تنقیدی یا تعریفی تبصرہ سن لیا

.
اب ذرا چشم تصور سے دیانتداری کے ساتھ مجھے بتایئے کہ کیا اس آدمی کی بیان کردہ لمبی تنقید کی آپ کی نظر میں کوئی علمی حیثیت باقی رہے گی ؟ یہ بھی فرمایئے کہ اس کی یہ آخری بھونڈی توجیہہ سن کر آپ کا ردعمل کیا ہوگا ؟ .. راقم کی دانست میں تو دو ہی امکانات ممکن ہیں. پہلا یہ کہ آپ شرافت سے اپنا سر پیٹ لیں اور دوسرا یہ کہ شجاعت سے اس عقلمند کو پیٹ ڈالیں جس نے بناء تحقیق خود بھی نتیجہ قائم کیا اور آپ کا وقت بھی ضائع کردیا 
.
یقین کیجیئے ، ملحدین کی اکثریت کا حال اسی شخص جیسا ہے. یہ اتنے ہی ریشنل ہیں جتنا کے وہ شخص جو بناء فلم دیکھ تنقیدی تبصروں کا شوق رکھتا ہے. آپ ان سے بات کر کے دیکھیئے ، سو میں سے ننانوے ایسے ملیں گے جنہوں نے آج تک ایک بار بھی قران حکیم یا دیگر الہامی کتب کا شروع سے آخر تک جائزہ نہیں لیا. مگر اس کے باوجود نہ صرف دین اور خدا کا انکار کربیٹھے ہیں بلکہ کیل کانٹوں سے لیس ہوکر الہامی آیات پر تنقید کا شوق بھی فرما رہے ہیں. یہ سوشل میڈیا پر دن رات مذہب کے خلاف مواد پڑھنے اور لکھنے میں گزارتے ہیں مگر مجال ہے جو صرف ایک بار دیانتداری سے قران مجید کا مطالعہ کرنے کو راضی ہوں. درحقیقت عقل پسندی یعنی ریشنلزم کا نام لے لے کر یہ عقل کو طلاق دیئے بیٹھے ہیں. شعور کے فروغ کی محض مالا جپ کر یہ اپنے شعور کو پھانسی چڑھا چکے ہیں. دلیل کی صرف دہائی دے کر یہ تحقیق کو تعصب کے قبرستان میں دفنا چکے ہیں 
.
====عظیم نامہ====