انسانی رویہ میں حقیقی تبدیلی کیسے ہو ؟
انسان کا معاملہ عجیب ہے .. یہ ہاتھی پر سواری کرتا ہے مگر بعض اوقات چوہے سے ڈر جاتا ہے ... ببر شیر سے کرتب کرواتا ہے مگر بعض اوقات ایک چھوٹی چھپکلی کو دیکھ کر چیخ پڑتا ہے ... سمندر کے اندھیروں میں اتر جاتا ہے مگر بعض اوقات رات کی تاریکی سے پریشان ہوجاتا ہے .. سنگلاخ چٹانوں، برفیلے میدانوں، سنسان صحراؤں اور پر ہیبت بیابانوں کو سر کرتا ہے مگر بعض اوقات اپنے گھر میں تنہا ہو تو کانپنے لگتا ہے
.
معاملہ دراصل اشیاء کے وجود کا نہیں ہے .. بلکہ معاملہ ان اشیاء سے منسلک افکار کا ہے جو وہ اپنے ذہن میں سجا لیتا ہے. انسان کے خارج میں بیشمار نظریات موجود ہوتے ہیں جو اس کے اردگرد پھیلے معاشرے کے ذہنی ارتقاء کے ترجمان ہوتے ہیں. ایک انسان ان نظریات کو دیکھتا ہے، سمجھتا ہے، جائزہ لیتا ہے اور بعض اوقات ان سے مرعوب ہو کر یا ان کا قائل ہو کر انہیں اپنا لیتا ہے. اگر اس کا باطنی شعور کسی حادثے، واقعے ، حالات یا استدلال کی بنیاد پر کسی نظریہ کو دل و جان سے قبول کرلے تو وہ نظریہ اب خارجی نہیں رہتا بلکہ ترقی کرکے اس کا اپنا ذاتی عقیدہ بن جاتا ہے. ایسا عقیدہ جس کی جڑیں اس کے لاشعور میں جاگزیں ہوتی ہیں. پھر یہی عقیدہ اس کے عمل کو مرتب کرتا ہے، یہی عقیدہ تعین کرتا ہے کہ اس کا رویہ کسی شے کی جانب کیسا ہوگا ؟ یہی عقیدہ لاشعوری انداز میں محبت، نفرت یا ڈر کا تعلق استوار کرتا ہے. اگر کسی فاسد عقیدہ کی اصلاح مقصود ہے تو لازم ہے کہ مخاطب کے لاشعور کو کریدا جائے، پھر اسے للکار کر ایک مظبوط تر نظریہ دیا جائے .. جسے وہ قبول کرسکے .. جسے وہ اپنا سکے. ایسے حالات و واقعات پیدا کئے جائیں جو اسکی قبولیت میں معاون ہوں. فرد کی طرح معاشرے کا بھی ایک اجتماعی شعور ہوتا ہے، جسکی اصلاح ان ہی خطوط اور اسی بہج پر کی جاسکتی ہے. یہ عمل کٹھن اور صبر آزما ضرور ہے مگر حقیقی اور پائیدار فکری اصلاح اس کے بناء ممکن نہیں.
.
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment