انسان کا فکری وجود
بکریوں کے ریوڑ کو آپ باآسانی سنبھال سکتے ہیں، پرندوں کے جھنڈ کو آپ بآسانی سدھا سکتے ہیں، شیروں کے غول کو آپ باآسانی کرتب کروا سکتے ہیں .. مگر حضرت انسان کے اذہان کو کسی ایک نقطہ پر مجتمع کرنا نہایت مشکل ہے. انسان کا شعوری وجود اسے دیگر حیوانات سے منفرد بنادیتا ہے. یہاں اگر ایک بقراط ہے تو دوسرا سقراط ، ایک ارسطو ہے تو دوسرا افلاطون، ایک ہیگل ہے تو دوسرا کارل مارکس، ایک ڈارون ہے تو دوسرا گوتم بدھ. یہاں ہر انسان کا ایک انفرادی فکری وجود ہے جو اپنا منفرد استدلال، سوالات اور نتائج رکھتا ہے. جنگ کے ذریعے آپ انسان قتل کر سکتے ہیں مگر ان کی فکر کو نہیں مار سکتے. اسکے لئے تو لازم ہے کہ آپ موجودہ فکر کے سامنے ایک برتر فکر کو آگے بڑھ کر دلائل کی روشنی میں پیش کریں. سابقہ رائج فکر پر علمی تنقید کریں اور پیش کردہ تازہ فکر پر تنقید کا شافی جواب دیں. یہی وہ مرحلہ ہے جہاں مخاطب شعوری طور پر آپ کے پیش کردہ مقدمہ کو قبول یا رد کرتا ہے اور یہی وہ منطقی نتیجہ ہے جو کسی انسانی جماعت کو ایک فکر پر مجتمع کردیتا ہے.
.
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment