Sunday, 12 April 2015

ہماری واحد ملکیت



ہماری واحد ملکیت


اگر آپ مجھے کچھ عرصہ استمعال کے لئے اپنی گاڑی عنایت کریں تو لازماً مجھ پر یہ ذمہ داری عائد ہوگی کہ میں اس امانت کی حفاظت اور صفائی ستھرائی کا مستقل اہتمام کرتا رہوں. مجھے یہ اجازت حاصل نہیں ہوگی کہ میں آپ کی اس دی ہوئی گاڑی کو فروخت کرسکوں یا اسے نقصان پہنچا سکوں. 
.
میں یہ بھی نہیں کرسکتا کہ میں کچھ دن بعد آپ کے پاس آؤں اور آپ کے ہاتھ میں چابی دے کر یہ بھڑک مارنے لگوں کہ یہ میری جانب سے آپ کیلئے قیمتی تحفہ ہے جو میں نے خاص آپ کیلئے لیا ہے. ظاہر ہے، ایسے میں آپ فوراً بتائیں گے کہ یہ گاڑی تو پہلے ہی آپ کی ملکیت ہے ، ساتھ ہی اس بات کا احساس دلائیں گے کہ مجھے اصولی طور پر آپ کا شکرگزار ہونا چاہیئے
.
اس مثال کو ذہن میں رکھیں اور سوچیں کہ ہماری جان اور مال سب ہمارے رب کا عطا کردہ ہے. جس طرح میں آپ کی دی ہوئی گاڑی کو اسکریچ نہیں لگا سکتا یا تباہ نہیں کرسکتا یا بیچ نہیں سکتا .. آپ بھی اپنے رب کی عطا کردہ جان کو نقصان نہیں پہنچا سکتے، غیر کواسکا مالک نہیں بنا سکتے اور اجازت کے بغیر اس کا خاتمہ نہیں کرسکتے. آپ پر یہ فرض ہے کہ اس زندگی کی امانت کا خیال رکھیں، اسے نعمت سمجھیں، اس کا عمدہ استمعال کریں. 
.
یاد رکھیں کہ ہم جو کچھ بھی اپنے رب کی راہ میں خرچ کرتے ہیں وہ دراصل پہلے ہی اسکی ملکیت ہوتا ہے. یہ اس کا کرم ہے کہ وہ اپنی ہی دی ہوئی چیزوں کو خرچ کرنے پر بھی ہمیں اجر دیتا ہے. وگرنہ مال، علم، وقت ، حتیٰ کے ہماری جان بھی پہلے سے اسی کی ملکیت ہے. جسے دے کر ہم اس کا حق ادا نہیں کرسکتے، بس اس کی امانت لوٹا سکتے ہیں. بقول غالب 
.
جان دی .. دی ہوئی اس کی تھی 
حق تو یہ ہے .. کہ حق ادا نہ ہوا 
.
گویا ہر شے جو آج ہمیں حاصل ہے وہ ہماری اصلاً ملکیت نہیں ہے ... مگر ہاں ! ایک چیزواقعی ایسی ہے جو عطا تو اسی کی ہے مگر اس کریم نے اسے ہماری ذاتی ملکیت بنا دیا ہے .. اور یہ واحد ذاتی ملکیت 'قوت ارادہ و اختیار' ہے جو ایک محدود درجہ میں انسان کو حاصل ہے. اگر رب سے دعویٰ محبت ہے اور اسکی راہ میں کچھ خرچ کرنے کا اشتیاق ہے تو اسکا بہترین مظہر یہی ہے کہ انسان اپنے ارادے کو اپنے رب کی مرضی کے سامنے سرنڈر کردے، اپنی آزادی اختیار کو اپنے محبوب کے سامنے بچھا دے ، اپنی مرضی کو اپنے رب کی مرضی پر نچھاور کردے ، یہی اسلام کے معنی ہیں اور یہی بندگی کا مقصود. 
.
====عظیم نامہ====

No comments:

Post a Comment