کیا ملک سے محبت شرک ہے؟
اگر کوئی شخص اپنے گھر جس میں اسکی پیدائش و پرورش ہوئی ہو ، محبت نہیں کرتا تو یقیناً اسے کوئی نفسیاتی عارضہ ہے. اپنے گھر سے محبت کرنا انسان کی فطرت میں داخل ہے اور اس سے انکارانسانی فطرت سے دوری ہے. اسی طرح اپنے محلہ، اپنے علاقے، اپنے شہر، اپنے ملک سے محبت کا پیدا ہوجانا عین فطری ہے. اسی رعایت سے عرض کرتا ہوں کہ اگر آپ کے دل میں اپنے ملک سے محبت نہیں ہے تو آپ نفسیاتی مریض ہیں. ہمارے مذہبی حلقوں میں معلوم نہیں کہاں سے یہ بات تقویت پاگ...ئی ہے کہ گویا ملک سے محبت کرنا شرک کرنے کے مترادف ہے. لاحول ولا قوت الا باللہ . اپنے اس دعوے کو ثابت کرنے کیلئے یہ احباب علامہ اقبال کے اس شعر کا سہارا لیتے ہیں:
.
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیراہن ہے اس کا وہ مذھب کا کفن ہے
.اول تو شاعری سے استدلال کی بنیاد نہیں رکھی جاتی. پھر اہل نظر جانتے ہیں کہ اقبال نے یہ شعر ہندو قوم اور دیگر اقوام کی اس ذہنیت کے پیش نظر کہا تھا کہ جس کے تحت ملک یا وطن کو خدائی کا درجہ دے دیا جاتا ہے. یعنی بات مذموم تب ہوگی جب یا تو ہندوؤں کے نظریہ کی طرح دھرتی کو اپنی خدا ماں کا درجہ دے دیا جائے یا پھر زبانی نہ بھی کہا جائے مگر عملی طور پر حق و باطل کا معیار وحی الہی کی جگہ وطن کی منافعت بن جائے. اگر علامہ ملک سے محبت کے قائل نہ ہوتے تو نہ اپنے اوائل دور میں ملی نغمے تحریر کرتے اور نہ ہی مسلمانوں کے لئے ایک نئی ریاست کا خواب دیکھتے.
.
بات کو سمجھیں .. وطن سے محبت ہرگز مذموم نہیں البتہ 'وطن پرستی' حرام ہے. پرستی لفظ پرستش سے وقوع پذیر ہوا ہے. یعنی جس کی پرستش کی جائے. ایسی پرستش والی محبت تو آپ اپنی اولاد سے بھی کریں گے تو حرام ٹہرے گی. لیکن کیا اس کو دلیل بنا کر اولاد سے محبت ترک کر دی جائے؟ سیرت نبوی صلی الله و الہے وسلم کا مطالعہ کریں، آپ (ص) نے اپنے صحابہ، اپنے گھر والوں، اپنے شہر مکہ، اپنے دوسرے شہر مدینہ، اپنے پیدا ہونے والے قبیلہ قریش .. سب سے محبت کی. اور کیوں نہ کرتے ؟ کہ ایسا کرنا تو عین انسانی فطرت ہے. صرف اور صرف یہ لحاظ ضروری ہے کہ کوئی بھی محبت چاہے وہ وطن کی ہو، اولاد کی ہوں، والدین کی ہو ، کاروبار کی ہو .. وہ الله اور اسکے رسول (ص) کی محبت پر غالب نہ آنے پائے . اگر ایسا نہیں ہے تو محبت کریں کہ محبت ہی دین کی روح ہے
.
عظیم نامہ
.
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیراہن ہے اس کا وہ مذھب کا کفن ہے
.اول تو شاعری سے استدلال کی بنیاد نہیں رکھی جاتی. پھر اہل نظر جانتے ہیں کہ اقبال نے یہ شعر ہندو قوم اور دیگر اقوام کی اس ذہنیت کے پیش نظر کہا تھا کہ جس کے تحت ملک یا وطن کو خدائی کا درجہ دے دیا جاتا ہے. یعنی بات مذموم تب ہوگی جب یا تو ہندوؤں کے نظریہ کی طرح دھرتی کو اپنی خدا ماں کا درجہ دے دیا جائے یا پھر زبانی نہ بھی کہا جائے مگر عملی طور پر حق و باطل کا معیار وحی الہی کی جگہ وطن کی منافعت بن جائے. اگر علامہ ملک سے محبت کے قائل نہ ہوتے تو نہ اپنے اوائل دور میں ملی نغمے تحریر کرتے اور نہ ہی مسلمانوں کے لئے ایک نئی ریاست کا خواب دیکھتے.
.
بات کو سمجھیں .. وطن سے محبت ہرگز مذموم نہیں البتہ 'وطن پرستی' حرام ہے. پرستی لفظ پرستش سے وقوع پذیر ہوا ہے. یعنی جس کی پرستش کی جائے. ایسی پرستش والی محبت تو آپ اپنی اولاد سے بھی کریں گے تو حرام ٹہرے گی. لیکن کیا اس کو دلیل بنا کر اولاد سے محبت ترک کر دی جائے؟ سیرت نبوی صلی الله و الہے وسلم کا مطالعہ کریں، آپ (ص) نے اپنے صحابہ، اپنے گھر والوں، اپنے شہر مکہ، اپنے دوسرے شہر مدینہ، اپنے پیدا ہونے والے قبیلہ قریش .. سب سے محبت کی. اور کیوں نہ کرتے ؟ کہ ایسا کرنا تو عین انسانی فطرت ہے. صرف اور صرف یہ لحاظ ضروری ہے کہ کوئی بھی محبت چاہے وہ وطن کی ہو، اولاد کی ہوں، والدین کی ہو ، کاروبار کی ہو .. وہ الله اور اسکے رسول (ص) کی محبت پر غالب نہ آنے پائے . اگر ایسا نہیں ہے تو محبت کریں کہ محبت ہی دین کی روح ہے
.
عظیم نامہ
No comments:
Post a Comment