لکھنا میری مجبوری
لکھنا میری عادت، شوق یا مشغلہ نہیں بلکہ لکھنا میری مجبوری ہے. الله پاک نے اس دنیا میں کچھ افراد کو دوسرے افراد کے مقابل زیادہ حساس پیدا کیا ہے. یہ حساس افراد، واقعات کو زیادہ شدت سے محسوس کرتے ہیں اور مختلف زاویوں سے دیکھتے ہیں. ان ہی حساس افراد کے گروہ میں، الله رب العزت نے کچھ اشخاص کو جمالیاتی زوق بخشا ہوتا ہے اور ساتھ ہی انہیں کسی خاص جمالیاتی تحقیقی صلاحیت سے نواز دیا ہوتا ہے. یہ تخلیقی صلاحیتیں مختلف اشخاص میں مختلف ہوسکتی ہیں مگر اگر ایسی کوئی جمالیاتی صلاحیت کسی انسان میں ودیعت شدہ ہے تو پھر یہ محال ہے کہ وہ اپنے حساس موقف کا اظہار اسکے ذریعے نہ کریں. وہ اگر سچا مصور ہے تو اس کے محسوسات تصویر میں ڈھل جاتے ہیں، اگر وہ سچا شاعر ہے تو اسکی حساسیت غزل و نظم کا قالب اختیار کرلیتی ہے، وہ اگر سچا خطیب ہے تو اس کا مشاہدہ پراثر تقریر بن جاتا ہے اور اگر وہ لکھاری ہے تو اس کے نظریات تحریر کی صورت میں نمایاں ہوجاتے ہیں. اپنی محنت یا دریافت کی تعریف سن کر اچھا محسوس کرنا ہر انسان کی فطرت ہے. لہٰذا ایک مصور اپنے فن پارے کی پذیرائی چاہتا ہے، ایک شاعر اپنی شاعری پر داد کا طالب ہوتا ہے، ایک مقرر اپنی تقریر کے سننے والے چاہتا ہے اور ایک لکھاری اپنی تصنیف کی قبولیت پر مسرور ہوتا ہے. اسے خود پسندی یا خود نمائی سے تشبیہ دینا درست نہیں، اس کا ثبوت یہ ہے کہ اگر ان تخلیقی حساس افراد کو مطلوبہ پذیرائی یا داد حاصل نہ بھی ہو .. یہ تب بھی اظہار پر مجبور ہوتے ہیں. کوئی پڑھے نہ پڑھے ، کوئی سنے نہ سنے، کوئی دیکھے نہ دیکھے .. یہ اظہار کئے بناء نہیں رہ سکتے.
.
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ لکھنا میری عادت، شوق یا مشغلہ نہیں بلکہ لکھنا میری مجبوری ہے. جب کسی واقعہ کو شدت سے محسوس کرتا ہوں یا جب کسی موضوع پر خوب غور و فکر کے بعد اطمینان حاصل ہو جاتا ہے .. اس لمحے شدت سے آمد شروع ہوتی ہے، متفرق خیالات یہ چاہتے ہیں کہ انہیں لکھ کر ایک مربوط صورت میں باندھ دیا جائے. اس وقت حالت چائے کی اس کھولتی کیتلی کی مانند ہوتی ہے جو چولہے پر رکھی ہو اور اس کا ڈھکنا اندرونی ارتعاش سے بلبلا رہا ہو. جیسے ہی ڈھکن ہٹایا جاتا ہے تو سارا جوش پوری قوت، آواز اور دھوئیں کی صورت میں اپنا اظہار کردیتا ہے. پھر دوبارہ کیتلی میں سکون ہوجاتا ہے. ایک لکھاری ، مصور یا شاعر کے اظہار کی بھی یہی کیفیت ہوتی ہے. مجھے کثرت سے ایسی گزارشات وصول ہوتی رہتی ہیں جن میں تقاضا کیا گیا ہوتا ہے کہ میں فلاں شخصیت یا فلاں تہوار یا فلاں موضوع پر کوئی پراثر تحریر لکھوں. میں ان بہنوں بھائیوں کا شکرگزار ہوتا ہوں ، جو مجھے اس قابل سمجھتے ہیں کہ ان کے جذبات و خیالات کا ترجمان بن سکوں. مگر میں انہیں کیسے سمجھاؤں ؟ کہ میں وہ نہیں لکھ سکتا جسے میں خود شدت سے سچائی سے محسوس نہ کر رہا ہوں. جھوٹی تحریر اور الفاظ کا کھیل میں کھیل سکتا ہوں مگر میرے نزدیک یہ علمی بد دیانتی ہے، کفران نعمت ہے اور بعض صورتوں میں صریح گناہ ہے. مجھے اس سچے شاعر پر رحم آتا ہے جو محض ردیف و قافیہ کا کھیل نہیں کھیلتا بلکہ وہ کہتا ہے جو اس پر آمد ہوتا ہے. کیا حالت ہوتی ہوگی اسکی؟ جب اسے کسی دولہے میاں کا سہرا لکھنے پر مجبور کیا جاتا ہوگا، یہ کہہ کر کہ ممانی اور خالو کا ذکر اچھے سے کردینا ! .. مجھے ترس آتا ہے اس مصور پر جو محض رنگوں کا کھیل نہیں کھیلتا بلکہ اپنی سوچ کو تصویر کرتا ہے. کیسا لگتا ہوگا اسے ؟ جب اسے مجبور کیا جاتا ہوگا کہ ذرا منے کی تصویر بنا دو اور ساتھ میں ایک ہرا طوطا بھی ضرور بنا دینا ... مجھے دلی ہمدردی ہوتی ہے ہر اس تخلیقی حساس شخص سے جس کے فن اظہار کو بازار میں زبردستی بکاؤ مال بنا دیا جاتا ہے بقول مصطفیٰ زیدی
.
اس منڈی میں جہاں صاف کفن بکتا ہے
جسم بکتے ہیں، ادب بکتا ہے، فن بکتا ہے
.
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment